نوٹ:۔ آنے والی چند اقساط ریاستِ سوات کے خاتمے اور پاکستان میں انضمام کے حوالے سے نہایت اہم ہیں۔ کیوں کہ جنابِ فضلِ رازق شہاب صاحب ان واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، بلا کم و کاست لکھ دیا۔ ان کی یہ تحاریر ریاستِ سوات کی تاریخ کے اہم مآخذ ہیں۔ (ریاض مسعود ، مترجم)
1961ء اور 1969ء کے درمیان کا عرصہ ریاست کی زبردست ترقی کا دور تھا۔ یہ سب سوات کے حکم ران ہز ہائینس میانگل جہان زیب کی شان دار قیادت اور سوچی سمجھی منصوبہ بندی کی بہ دولت ممکن ہوا۔ دریائے سوات پر گورتئی، کانجو اور خوازہ خیلہ کے مقامات پر پل بنائے گئے۔ گیمن پاکستان لمیٹڈ کے توسط سے بہائی کلے، انغاپور، گاگرہ، چینہ ڈیرئی اور ایلئی میں جدید ’’پری سٹریسڈ‘‘ پل تعمیر کیے گئے۔ بیسیوں سکولوں اور ہسپتالوں کے علاوہ مٹہ اور ڈگر کے دو کالج آخری مراحل میں تھے۔ ودودیہ ہال تعمیر کیا گیا جس نے جہان زیب کالج کی رونق بڑھا دی۔
60ء کی دہائی کے وسط میں، "P.W.D” کے سربراہ کو برطانیہ کی حکومت کی طرف سے لندن میں منعقدہ کامن ویلتھ انجینئرنگ نمایش میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا۔ اس میں شرکت کے لیے وہاں گئے اور پندرہ دن گزارے۔ مختصر یہ کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ معمول کے منظر نامے میں کسی بڑی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ اچانک کچھ مشکوک اشارے ملنے لگے۔
دور دراز علاقوں سے کچھ تخریبی واقعات کی اطلاعات ملنے لگیں۔ پاکستانی پریس نے اچانک ریاست کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیا۔ ریاست کے اندر کچھ نظر انداز شدہ عناصر نے ریاست مخالف تنظیموں سے ہاتھ ملالیا۔ انگریزی اور اُردو روزناموں میں جعلی ناموں سے بیانات شائع ہونے لگے۔
مَیں نے مخالف فریق کے حملوں کے جواب میں قاسم شہاب کے نام سے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور ’’خیبر میل‘‘ کے ایڈیٹرز کو خط لکھنے شروع کر دیے۔ اس وقت بھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ریاست جلد ہی تحلیل ہو جائے گی۔
ہم پرانی ڈگر پر چل رہے تھے۔ کیوں کہ بہ ظاہر کچھ ہونے والا نہیں تھا۔ ہم نے اسے چند لوگوں کی خواہش مندانہ سوچ کی لہر کی طرح دیکھا اور سمجھا کہ یہ سب جلد ہی ختم ہو جائے گا، جیسا کہ ہم نے وقتاً فوقتاً پہلے بھی دیکھا تھا۔ پہلے یہ شور شرابا کچھ دن چلتا پھر سب نارمل ہوجاتا…… لیکن اس بار تحریک روز بہ روز زور پکڑتی گئی۔
سب سے حیران کُن معاملہ ریاستی نظام کا حسبِ معمول چلنا تھا۔ تمام دفاتر اپنے معمول کے کاموں میں مصروف تھے۔ ترقیاتی کام زور و شور سے جاری تھے۔ عام آدمی کے رویے میں تبدیلی کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ سارا ہنگامہ صرف پرنٹ میڈیا تک محدود ہے۔ مَیں اتنا "In” نہیں تھا، مگر پھر بھی مَیں نے بے چینی اور پریشانی محسوس کی۔ ہم پاکستان میں رائج نظام کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ ہم اس بڑے جسم میں اپنے مستقبل کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے ہمیں زندگی، اپنے بچوں، اُن کی مفت تعلیم اور سب سے اہم، امن و سلامتی کے احساس کے بارے میں بہت زیادہ فکر تھی۔ حتیٰ کہ حکم ران خاندان نے بھی آنے والی تبدیلی کے معمولی سے اشارے بھی نہیں دیے۔ ہوسکتا ہے کہ اعلا افسروں کو کچھ معلوم ہو، لیکن وہ خاموش تھے۔
مَیں ہر رات عشا کے بعد اپنے والد کے ساتھ نائب سالار عمرا خان اور محمود خان سیکرٹری ٹو ہیز ہائینس والی صاحب کے ساتھ ایک گھنٹا بیٹھک کرتا تھا۔ ہم تاش کھیلتے اور معمول کی گفت گو کرتے، لیکن یہ موضوع کبھی زیرِ بحث نہیں آیا۔
ایک عام آدمی کے طور پر ہم کچھ نہیں جانتے تھے کہ اعلا ترین سطح پر، ریاست، اس کے عوام، حکم ران، ریاستی ملازمین میں مستقبل کے بارے میں گرما گرم اور سنجیدہ بحثیں ہورہی ہیں۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔