کبھی خواب نہ دیکھنا (بتیس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

میری زندگی اتنی آسان نہیں تھی، کوئی ہنسی، خوشی کا معاملہ نہیں تھا۔ ایسا وقت بھی آیا کہ مَیں اپنی کھوپڑی کو اُڑانا چاہتا تھا…… لیکن ’’پروویڈنس‘‘ نے مداخلت کی اور مَیں تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے زندہ رہا۔ جیسا کہ مَیں نے کہیں ذکر کیا ہے کہ جب پرانے افسر آباد کا زوال شروع ہوا، تو معاشرے کے نچلے طبقے کے لوگ وہاں رہایش حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، جہاں کبھی پہلے باعزت اور بااثر لوگ رہتے تھے۔ ریاست کے ایک دفتر کے نچلے عملے کا ایک رکن بھی ہمارے پڑوس میں شفٹ ہوگیا۔ وہ ایک پُراَسرار کردار تھا۔ شراب، عورتیں، پارٹیاں اور ناچنے والی عورتوں سے تعلقات سمیت تمام برائیاں اس میں نمایاں تھیں۔ مَیں حیران تھا کہ وہ یہ سب اخراجات کیسے برداشت کرتا ہے؟ اس کی تنخواہ قلیل تھی۔ نہ کوئی جائیداد تھی اور نہ کوئی دوسرا ذریعۂ آمدن…… لیکن وہ شان دار پارٹیاں کرتا۔ اس کے باقاعدہ ملاقاتیوں میں ملاکنڈ کے پولی ٹیکل ایجنٹ کا کلیرکل سٹاف بھی شامل تھا، جو پڑوسی ریاستوں پر بہت برتری رکھتا تھا۔
بہ ہرحال، جہاں تک میرا تعلق تھا، وقت معمول کے مطابق گزر رہا تھا۔ مگر اچانک ایک بھونچال آگیا۔ ایک دن جب مَیں اپنے دفتر کے لان میں کھڑا تھا، تو مَیں نے دیکھا کہ ہمارے دفتر کے پچھلے حصے میں تین مرد اور دو عورتیں کھڑی ہیں۔ مردوں میں سے ایک نے مجھے اشارہ کیا۔ مَیں انھیں جانتا تھا۔ وہ تینوں بھائی تھے اور ایک گہری کھائی کے قریب کچی آبادی میں رہتے تھے، جسے ’’جیل کندہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ مَیں ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں؟ ان میں سے ایک نے جوان عورت کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ وہ حاملہ ہے اور وہ کہتی ہے کہ تم نے اسے حاملہ بنایا ہے۔ یہ سن کر مجھے جھٹکا سا لگا۔ مَیں نے اسے اپنے پڑوسی کے حجرے میں ایک، دو بار دیکھا تھا…… لیکن مَیں نے اس عورت کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے حمل گرانے کے لیے ہر حربہ آزمایا، مگر کامیابی نہیں ملی۔ اب وہ میرے پاس آئے تھے کہ یا تو ان کی مدد کروں یا ذمہ داری قبول کروں۔ مَیں نے اپنے ذہن میں سوچا کہ اگر مَیں والی صاحب کے پاس جاکر انھیں ساری کہانی سناؤں، تو کیا وہ مجھ پر یقین کرے گا یا اس مسخرے نما شخص کا ساتھ دے گا؟ جواب تھا، ناممکن۔
مَیں نے ان سے پوچھا کہ متبادل کیا ہے؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ مینگورہ میں ایک عورت ہے، اُسے اگر کچھ نقد رقم ادا کی جائے، تو اسقاطِ حمل کرا سکتی ہے۔ وہ ماہرِ اسقاط حمل تھی۔ انھوں نے 120 روپے کا مطالبہ کیا، جوکہ میرے لیے بہت بڑی رقم تھی…… لیکن میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ چناں چہ مَیں اپنے ایک ساتھی کے پاس گیا اور اسے مسئلہ سے آگاہ کیا۔ اُس نے ہنستے ہوئے کہا کہ مجھے محتاط رہنا چاہیے تھا۔ خیر، اُس نے مجھے 120 روپے تحفتاً دیے۔ مَیں نے اس عورت کے بھائیوں کو وہ رقم دے دی اور انھیں تنبیہ کی کہ وہ مجھے دوبارہ اس معاملے میں پریشان نہ کریں۔ مَیں نے ان سے کہا کہ مَیں اس شخص کو جانتا ہوں جو ان کی بہن کے حاملہ ہونے کا ذمہ دار ہے۔ وہ خاموشی سے چلے گئے اور پھر کبھی میرے پاس نہیں آئے۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے