17 اکتوبر 2024ء کو لقمان ہسپتال سیدو شریف کے سی ای اُو جواد اقبال کے مشورے پر ڈاکٹر شاہ عباس کے ہاتھوں میرا پِتّے (Gallbladder)، جسے ہم پشتو میں ’’تریخے‘‘ کہتے ہیں، کا کیمرے کے ذریعے آپریشن ہوا۔ آپریشن کے بعد مَیں ہسپتال میں داخل تھا۔ رات بھر وہاں رہا۔ دوسرے روز مذکورہ ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور کہا کہ اَب آپ گھر جاسکتے ہیں۔ گھر کے لیے ادویہ اور ضروری ہدایات دیں۔ نیز یہ بھی کہا کہ ’’آپریشن کے آٹھویں دن زخم کے ٹانکے کھولے جائیں گے۔‘‘
مَیں نے ہسپتال کا بِل ادا کیا۔ گھر میں چھے روز تک بستر پر پڑا رہا۔ پھر تھوڑا بہت واک بھی شروع کیا۔ آپریشن کے دسویں روز (26 اکتوبر، 2024ء) کو آپریشن والی جگہ میں شدید درد اٹھنا شروع ہوا۔ درد کی گولی لی، مگر کچھ اِفاقہ نہ ہوا۔ بچوں نے ایمرجنسی صورتِ حال میں لقمان ہسپتال پہنچا دیا۔ وہاں پر ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں علاج شروع ہوا۔ وہاں ڈاکٹر نے ڈریپ اور درد کا انجکشن لگایا۔ خون کا نمونہ پہلے لیا گیا تھا۔ ٹیسٹ میں پتا چلا کہ مجھے ڈینگی بخار ہے اور پلیٹ لیٹس 99 ہزار ہیں۔ ڈرپ وغیرہ کے بعد درد کم ہوا اور مجھے واپس گھر روانہ کر دیا گیا۔ اگلے دو دن خیریت سے گزر گئے، مگر 29 اکتوبر کی رات کو ایک بار پھر شدید درد شروع ہوا۔ وہ انتہائی اذیت ناک درد تھا۔ ریسکیو 1122 کو کال کی گئی۔ 5 منٹ میں مذکورہ ادارے کی ایمبولینس گاڑی پہنچ گئی۔ مجھے سرکاری سنٹرل ہسپتال سیدو شریف کے ایمرجنسی وارڈ لے جایا گیا۔ وہاں پر ڈاکٹر کو تمام صورتِ حال بتائی گئی۔ اُس نے ’’10 سی سی‘‘ کا ایک انجکشن لگایا، مگر درد کم نہیں ہوا۔ مَیں نے ڈاکٹر کی منت سماجت کی کہ کوئی خواب آور دوا دیں، کیوں کہ درد میری برداشت سے باہر ہے۔ ڈاکٹر نے ایک ڈریپ میں انجکشن لگایا، جس کے ساتھ مجھے آرام آیا۔|
ڈرپ ختم ہوا، تو نیم بے ہوشی کی حالت میں دو بجے مجھے گھر لے جایا گیا۔ صبح 10 بجے تک میں سوتا رہا۔ جب جاگ گیا، تو میرا بیٹا حمزہ، بیٹے جیسا شاگرد لونگین اور گھر والے انتہائی فکر مند تھے۔ میری آنکھوں کے گرد کالے حلقے پڑچکے تھے۔ ہلکا ہلکا درد اب بھی محسوس ہو رہا تھا۔ اسی دوران میں مجھے ایک بار پھر لقمان ہسپتال لے جایا گیا۔ وہاں پر ایمرجنسی وارڈ میں مجھے کچھ دوائیاں دی گئیں۔ ’’خوش قسمتی‘‘ سے میرا آپریشن کرنے والا ڈاکٹر شاہ عباس کسی مریض کو دیکھنے لقمان ہسپتال آیا تھا۔ عام طور پر ڈاکٹر صاحب صبح کے وقت سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی پر ہوتاہے۔ اُس نے میرا بھی معائنہ کیا اور ادویہ میں کچھ رد و بدل کی۔ نیز میرے ٹیسٹ کا بھی جائزہ لیا۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ اَب آگے کیا کیا جائے؟ ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ ڈاکٹر ساجد سے معائنہ کروائیں۔ ڈاکٹر ساجد بھی لقمان ہسپتال ہی میں ہوتا ہے۔ وہ دوبجے کلینک میں آتا ہے۔
اُس وقت سلیم اطہر (صحافی اور میرے دیرینہ دوست) نے مشورہ دیا کہ الٹرا ساؤنڈ کرتے ہیں کہ آپریشن میں کیا مسئلہ ہے؟ لقمان جیسے ’’انٹرنیشنل ‘‘ ہسپتال میں الٹرا ساؤنڈ کی سہولت اُس وقت موجود نہیں تھی۔ مجبوراً سنٹرل ہاسپٹل گئے اور ڈاکٹر ماجد اقبال سے الٹرا ساؤنڈ کرایا۔ اُس نے اپنی رپورٹ لکھ کر دی۔ ڈاکٹر ساجد سے معائنہ کرانے کے لیے لقمان ہسپتال کے سی ای اُو ڈاکٹر جواد سے رابطہ کیا گیا۔ اُنھوں نے دو بجے آنے کا کہا۔
ہم بہ امرِ مجبوری گھر واپس چلے گئے۔ دو بجے مجھے ڈاکٹر ساجد کے پاس اس حالت میں لے جایا گیا کہ دو افراد نے باقاعدہ مجھے سہارا دے رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے میرا مختصر معائنہ کیا اور فوراً اپنے اٹینڈنٹ کو بلایا۔ نیز اسے تاکید کی کہ ’’وھیل چیئر ساتھ لے آئے اور نیاز صاحب کو فوراً ایمرجنسی روم میں لے جایا جائے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے پرچی پر کچھ ادویہ لکھ دیں۔ اسی دوران میں مجھے ایمرجنسی میں بستر پر لٹایا گیا۔ معلوم ہوا کہ میرا بلڈ پریشر لو ہوچکا تھا۔ مجھے ڈرپ چڑھایا گیا۔ سر سے تکیہ ہٹایا گیا۔ بیڈ کا نچلا حصہ اُوپر کیا گیا۔ پھر جب میری حالت کچھ بہتر ہوئی، توخون کا نمونہ لیا گیا اور ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بھجوا یا گیا۔ وہاں پر معلوم ہوا کہ ’’کلچر ٹیسٹ‘‘ کی سہولت لقمان ہسپتال میں نہیں۔ وہ دوسرے لیب سے کرایا جائے گا۔ کلچر ٹیسٹ کا رزلٹ 7 دن بعد آیا۔ ہسپتال سے فون آیا کہ اپنا ٹیسٹ وصول کریں۔
قارئین! اب ان 7 دنوں میں میرے ساتھ کیا ہوا؟ ملاحظہ فرمائیں:
31 اکتوبر کو مجھے سیدو شریف سرکاری ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل کیا گیا۔ یکم نومبر کو میرا بڑا آپریشن کیا گیا، جس میں میرے پیٹ سے ڈیڑھ لیٹر سے زیادہ خون نکالا گیا اور میرے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے مجھے خون کے 7 بیگ چڑھائے گئے۔
3 نومبر کو نیم بے ہوشی کی حالت میں مجھے ’’شفا انٹرنیشنل ہسپتال‘‘ (اسلام آباد) منتقل کر دیا گیا۔ وہاں مجھے ’’وینٹی لیٹر‘‘ پر رکھا گیا۔ 5 گھنٹوں میں میرا ایم آر آئی، بلڈ کلچر اور دیگر ٹیسٹ کرائے گئے۔ 16 گھنٹے بعد میں میری سانس بہ حال ہوئی اور علاج شروع ہوا۔ نیز خون کے دو بیگ مزید چڑھائے گئے۔
5 نومبر تک میرے 50 سے زائد ٹیسٹ کرائے گئے تھے۔ ہر روز ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ کیا جاتا۔ بالآخر 6 نومبر کو مجھے آئی سی یو سے جنرل وارڈ منتقل کر دیا گیا۔
اسلام آباد شفٹ ہونے کے بعد ’’لقمان انٹرنیشنل‘‘ اور ’’آئی ایس اُو سرٹیفائیڈ ہاسپٹل‘‘ سے فون آیا کہ آپ کا بلڈ کلچر ٹیسٹ تیار ہے، آکر لے جائیں۔ ہم نے اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے مذکورہ ٹیسٹ ہفتہ دس روز بعد وصول کیا۔ اُس پر تاریخ بھی درج ہے۔
معلوم ہوا کہ انٹرنیشنل سٹینڈرڈ ہسپتال کی انتظامیہ نے چند قدم کے فاصلے پر کسی اور لیب سے مذکورہ ٹیسٹ کرایا تھا۔ 2200 روپے فیس لے کر اور اُس میں اپنا حصہ رکھ کر ٹیسٹ کی رپورٹ دے دی۔ ڈاکٹر صاحب نے 15 ڈرپ اور اس کے ساتھ اینٹی بائیوٹک کے 15 انجکشن دیے اور کہا کہ انھیں گھر میں باری باری چھڑادیں۔ میرے بیٹے نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ بہتر ہوگا کہ میرے والد کو داخل کرائیں، مگر اسپتال میں شاید مذکورہ سہولت نہیں تھی۔ ایک بڑا سا ادویہ کا شاپر میرے بیٹے کو تھمایا گیا،جو میرے بیٹے نے مجھ سے چھپا رکھا تھا، مگر جب وہ گھر پہنچا، تو اہلِ خانہ کی چیخوں اور رونے کی آواز سے پتا چلا۔ مذکورہ علاج سے مجھے کچھ خاص اِفاقہ نہیں ہوا۔ مَیں نے لونگین سے کہا کہ دیرینہ دوست سلیم اطہر صاحب کو حالات سے آگاہ کریں۔ اُن کو بھی ڈینگی ہوا تھا۔ سلیم اطہر نے اپنے والدین کا بھی ڈینگی علاج کرایا، تو ان سے مشورہ درکار تھا۔ مَیں نے بھی ایک میسج سلیم کو کیا کہ مَیں ٹھیک نہیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ سلیم اطہر صاحب کو عزت دے، اُنھوں نے وقت ضائع کیے بغیر سیدو شریف میں ڈینگی سپیشلسٹ ڈاکٹر واصل خان اور مزید معلومات کے لیے ہمارے اچھے دوست ڈاکٹر نجیب اللہ جوکہ سیدو میڈیکل کالج میں ہوتے ہیں، سے رابطہ کیا۔اُنھوں نے کہا کہ کل صبح نیاز کو فوری طور پر سیدو شریف ہسپتال منتقل کیا جائے۔
31 اکتوبر کو مجھے ہسپتال ایک جھولا نما وھیل چیئر پر ڈاکٹر فضل ربی کے سامنے پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً مجھے میڈیکل وارڈ میں داخل کرنے کو کہا۔ ہسپتال کے تیسرے فلور پر مجھے لونگین نے جھولا نما وھیل چیئر پر میڈیکل وارڈ میں منتقل کیا ۔ وہاں پر دو، تین ڈاکٹروں نے میرا معائنہ کیا۔ میرا پیٹ پھولا ہوا تھا اور کہا کہ مریض کا الٹرا ساؤنڈ اور ایکسرے کراؤ۔ الٹراساؤنڈ تو ہسپتال میں دوسرے فلور پر ہوا، مگر ایکسرے والوں نے کہا کہ بجلی نہیں ہے۔ ساتھ والے ’’سمز ہسپتال‘‘ سے کراکے لائیں۔ بڑی مشکل اور تکلیف میں دونوں کام ہوئے۔ مجھے جب واپس میڈیکل وارڈ لے جایا جانے لگا، تو اس کے بعد مجھے یاد نہیں کہ کیا ہوا…… مگر جب ہوش آیا، تو میں آئی سی یو میں انتہائی نگہ داشت والے وارڈ میں تھا۔ مجھے آکسیجن پر رکھا گیا تھا۔ مَیں سوچنے لگا کہ یا اللہ! یہ ہو کیا رہا ہے؟ اُسی دن شام کے وقت ڈاکٹر شاہ عباس بھی پہنچ گیا۔ میرا معائنہ کیا اور کہا کہ ’’بالکل ٹھیک ہو۔ بس تم کچھ کھاتے نہیں ہو، جس کی وجہ سے کم زور ہو!‘‘
اُدھر میرا درد سے برا حال تھا۔ مختلف ڈاکٹر آتے رہتے۔ چھوٹی پرچیوں پر ادویہ کے نام لکھتے رہتے اور حمزہ (میرا بیٹا) اور لونگین بھاگم بھاگ ادویہ لاتے رہتے۔ اس دوران میں میرے بھتیجے، بھانجے، بھائی اور دیگر دوست بھی پہنچ چکے تھے۔ سلیم اطہر صاحب تو سارا دن موجود تھے۔ جب میری علالت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، تو صحافی دوست بھی پہنچ گئے، مگر میری حالت تھی کہ بگڑتی چلی جارہی تھی۔ رات بڑی مشکل سے گزری۔ صبح درد مزید بڑھ گیا۔ تقریباً 9 بجے ڈاکٹر شاہ عباس پھر آگئے۔ میرا معائنہ کیا۔ کہا کہ یہ اپینڈیکس ہے۔ بس اس کا آپریشن کرکے درد سے نجات مل جائے گی۔
یہ کہتے ہی وہ روم سے نکل گئے۔ اُس کے نکلتے ہی مجھے فوری طور آپریشن تھیٹر پہنچایا گیا۔ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ ہوکیا رہا تھا؟ سلیم اطہر بھاگ کر آگئے۔ اُس کو ڈاکٹر نے اپنے کمرے میں بلایا۔ مجھے جوں ہی آپریشن تھیٹر میں داخل کیا گیا۔ وہاں شاہ عباس اور ایک اور ڈاکٹر موجود تھے۔ ڈاکٹر شاہ عباس کے منھ سے صرف مَیں نے یہ سنا کہ یہ آپریشن صحت کارڈ پر ہوگا۔ اُس کے بعد میرے منھ پر ماسک رکھا گیا اور جب مجھے ہوش آیا، تو مَیں ’’آئی سی یو‘‘ میں تھا اور مجھے خون کا بیگ چڑھا ہوا تھا۔ سامنے میرے بھتیجے فہد نے بغل میں کچھ چھپایا تھا۔ مَیں نے اشارے سے اُسے بلایا اور پوچھا کہ یہ کیا چل رہا ہے؟ اُس نے کہا کہ ’’آپ کو خون کی اشد ضرورت ہے۔ مَیں اُس خون کو گرم کر رہا ہوں جو کہ سٹور سے لایا گیا ہے۔ اب تم ٹھیک ہو جاؤگے۔‘‘
مَیں نے اپنے جسم کو دیکھا، تو دو بڑے پائپ میر پیٹ سے نکلے ہوئے تھے اور اس میں خون ہی خون تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ پتے کی آپریشن والی جگہ سے بے تحاشا خون نکلا تھا۔ میرے جسم کا آدھا خون بہہ چکا تھا اور اب مجھے کُل 12 بیگ خون کی ضرورت تھی۔ وہاں پر موجود میرے تمام دستوں میں سب سے پہلے بھائی جیسے دوست امجد علی سحابؔ نے اپنا خون عطیہ کیا۔ بھانجوں اور دوستوں نے بھی اپنا خون عطیہ کیا۔ ایک ہی رات میں مجھے 7 خون کے بیگ چڑھائے گئے۔
رات کو اُس ’’آئی سی یو‘‘ میں دو مریضوں کا انتقال بھی ہوا۔ صبح معلوم ہوا کہ میرا سینہ خراب ہے اور ’’نمونیہ‘‘ بھی ہوچکا ہے۔
2 نومبر کو صبح میری حالت مزید بگڑ گئی اور آکسیجن کا مقدار 15 تک لے جایا گیا۔ میرے سامنے میل نرس نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ اَب کیا کریں؟ اُس نے کہا کہ مریض کو وینٹی لیٹر پر ڈال دو۔ کمرے سے باہر میرا بھائی، چچازاد بھائی اور سلیم اطہر صاحب پہلے سے موجود تھے۔ چیئرمین سوات پریس کلب شیرین زادہ، صدر حضرت علی باچا، سیکرٹری فضل خالق خان، ڈاکٹر محبوب علی، شفیع اللہ، خورشید عمران، شیراز، افتخار، عصمت علی اخون اور دیگر ساتھی ڈاکٹروں کے ساتھ تکرار کر رہے تھے کہ ہم نیاز کو پشاور یا اسلام آباد منتقل کر رہے ہیں۔ میرے ادارے (مشال ریڈیو) کے سینئر بھی بار بار مطالبہ کررہے تھے کہ نیاز کو اسلام آباد منتقل کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے میرے سینئر خالد خان خیشکی خصوصی طور پر پشاور سے آئے تھے۔ ڈاکٹروں اور خاص کر شاہ عباس کا کہنا تھا کہ یہاں اس کا بہتر علاج ہوگا۔
بہ ہرحال میرے بھائیوں نے فیصلہ کیا تھا۔ 3 نومبر کو مجھے اسلام اباد منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ سرکاری ایمبولینس کا انتظام کیا گیا۔ ’’آئی سی یو‘‘ کے ڈاکٹر نے لکھ کر دیا کہ مریض کو اُن کے رشتہ داروں کے ڈیمانڈ پر ’’شفا انٹرنیشنل ہاسپٹل‘‘ ریفر کیا جاتا ہے۔ اُسی رات 75 ہزار روپے کی ادویہ منگوائی گئیں، جس کا ریکارڈ نہیں تھا۔ آپریشن کا ریکارڈ نہیں تھا۔ سادہ سے کاغذ پر درج تھا کہ مریض کو اس حالت میں لایا گیا کہ وہ ٹھیک تھا۔ پھر خون کم ہوا۔ اُس کے بعد مزید کم ہوا۔
اس وقت ایک اور بات یاد آگئی۔ میرے آپریشن کے دو گھنٹے بعد میرے چچازاد بھائی فضل وہاب سے ایک کاغذ پر دستخط لیا گیا تھا کہ مریض کے آپریشن کی اجازت دی جائے۔
تین نومبر شام 5 بجے مجھے نیم بے ہوشی کی حالت میں ’’شفا انٹرنیشنل ہسپتال‘‘ پہنچایا گیا۔ فوری طور پر میری سانس کو بہ حال کرنا شروع کیا گیا۔ ڈاکٹر میری ہسٹری معلوم کرنے لگے۔ سیدو ہسپتال والوں نے کوئی تفصیل نہیں دی تھی۔ ’’شفا انٹرنیشنل‘‘ کے ایمرجنسی وارڈ میں 5 گھنٹوں میں اتنا کام کیا گیا کہ مَیں بولنے کے قابل ہوا۔ مجھ سے میری کہانی سنی گئی۔ پھر مجھے ’’آئی سی یو‘‘ میں رکھا گیا۔ 14 دن تک میں ’’شفا انٹرنیشنل ہاسپٹل‘‘ میں زیرِ علاج رہا۔ معلوم ہوا کہ خون پِتّے کی آپریشن میں غلطی کی وجہ سے ضائع ہوا ہے ، جیسے ’’ہیما ٹوما‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرے آپریشن میں بھی ڈاکٹر شاہ عباس غلطی کر بیٹھے تھے۔اُس کی وجہ سے بھی 20 دنوں تک خون رستا گیا۔ وہاں پر ایک اور پائپ (ڈرین پائپ) خون نکالنے کے لیے پیٹ میں ڈالا گیا اور اس سے 2500 سی سی خون نکالا گیا۔ وہی پائپ 24 دنوں تک میرے پیٹ میں رہا، جس سے مزید 1100 سی سی خون نکالا گیا۔ تین مزید خون کے بیگ مجھے ’’شفا انٹرنیشنل ہاسپٹل‘‘ میں لگائے گئے۔
اس دوران میں، مَیں جس کرب اور مشکل سے گزرا ہوں۔ میرا اللہ ہی جانتاہے ۔ لاکھوں روپے کا خرچہ الگ ہوا، مگر مجھ سے زیادہ میرے گھر والے، بچے، بھائی، بہن، رشتے دار، اور دوست جس مشکل اور درد سے گزرے اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔
مَیں یہ مانتا ہوں کہ مجھے ہر کسی نے دِل سے صحت یابی کی دعائیں دیں، حتی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر مکہ میں میری صحت یابی کے لیے دعائیں مانگی گئیں، جس کی بہ دولت مجھے ایک نئی زندگی ملی۔
اب میں لقمان ہسپتال اور ڈاکٹر شاہ عباس کے خلاف کورٹ بھی جارہاہوں اور محکمہ صحت خیبرپختونخوا کے سیکرٹری کے نام بھی تحقیقات کے لیے درخواست دے رہاہوں ۔ کیوں کہ میرا خیال ہے کہ اس میں ڈاکٹر کی غفلت شامل ہے۔ اُنھوں نے بغیر پوچھے میرا سرکاری ہسپتال میں آپریشن کیا۔ مجھے مکمل طور پر لاعلم رکھا۔ ’’لقمان انٹرنیشنل ہاسپٹل‘‘ میں غفلت والے آپریشن کے ’’فالو اَپ‘‘ کی کوئی سہولت نہیں۔ مریضوں کو انتہائی ’’سیریس‘‘ اور تشویش ناک حالت میں سرکاری ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔