سابق صدر پاکستان غلام اسحاق خان کا تعلق بنوں سے تھا۔ آپ بیس جنوری سنہ انیس سو پندرہ کو بنوں کے علاقے اسماعیل میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک عام مڈل کلاس خاندان سے تھا۔ آپ نے میٹرک تک تعلیم بنوں کے سرکاری سکول سے حاصل کی۔ اسلامیہ کالج پشاور اور پشاور یونیورسٹی سے اعلا تعلیم حاصل کی۔ آپ ڈبل بی ایس سی (کیمسٹری اور باٹنی) تھے۔ غلام اسحاق کا آبائی خاندان سیاست سے وابستہ نہیں تھا۔ البتہ آپ کی بیٹیوں کی شادیاں سیاسی خاندانوں میں ہوئی ہیں۔ آپ کی ایک بیٹی کی شادی پاکستان کے مشہور سیاسی و کاروباری خاندان میں ہوئی ہے۔ سابق وفاقی وزیر اور کاروباری شخصیت انور سیف اللہ خان آپ کے داماد ہیں۔
غلام اسحاق خان کچھ عرصہ کے لئے اسلامیہ کالج کے ملازم رہے مگر بہت جلد انڈین سول سروس (آئی سی ایس) میں شمولیت اختیار کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد آپ کی خدمات صوبہ سرحد کو دی گئیں۔ آپ محکمۂ آبپاشی کے صوبائی سیکرٹری مقرر ہوئے۔ آپ سنہ انیس سو پچپن تک اسی محکمے سے وابستہ رہے۔ سنہ انیس سو چھپن کو آپ سندھ کے ہوم سیکرٹری مقرر ہوئے۔ بعد ازاں سندھ کے ترقیاتی و آب پاشی محکمے کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ سنہ انیس سو اٹھاون کو صدر مملکت جناب ایوب خان نے آپ کو ترقی دے کر وفاقی سیکرٹری محکمہ زراعت لگایا۔ ساتھ ساتھ آپ واپڈا کے بورڈ آف گورنر کے اہم ممبر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ آپ نے منگلہ اور ورسک ڈیم کے کنسٹرکشن کے مالی معاملات کو بطریق احسان چلایا۔ آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ایوب خان نے انیس سو اکسٹھ میں واپڈا کا چیئرمین مقرر کیا۔ پانچ سال واپڈا کے چیئرمین رہنے کے بعد سنہ انیس سو چھیاسٹھ میں آپ کو وفاقی وزارت خزانہ کا سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ سنہ انیس سو اکہتر کی جنگ کے بعد ذالفقار علی بھٹو نے غلام اسحق خان کو ملکی بدحال معیشت کو سہارا دینے کے لئے سٹیٹ بینک کا گورنر مقرر کیا۔ خان کو جو بھی عہدہ دیا گیا، اس نے اپنی خداداد قابلیت سے اس میں اپنی محنت و مہارت کے جوہر دکھائے اور اپنے حکمرانوں کو واہ واہ کہنے پر مجبور کرایا۔
سنہ انیس سو پچہتر میں ذوالفقار علی بھٹو نے غلام اسحاق خان کو خلاف توقع سیکرٹری دفاع لگایا۔ اگرچہ غلام اسحاق خان اقتصادی و مالیاتی امور کے ماہر تھے، تاہم آپ نے اس عہدے میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ آپ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے قریب آگئے اور جی ایچ کیو اور جنرلوں سے قریبی تعلق بنا۔ اسی دوران میں ضیاءالحق کو بھٹو نے چیف آف آرمی سٹاف بنایا۔ خان کا ضیاءالحق سے خصوصی تعلق بنا۔ بطورِ سیکرٹری دفاع غلام اسحاق خان نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو سٹارٹ کرنے اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں اہم ترین رول ادا کیا۔ آپ نے اس پروگرام میں خصوصی دلچسپی لی اور آخری وقت تک اس کو تعاون فراہم کرتے رہے۔ آپ عبدالقدیر خان کے قریب تر تھے اور اس کی ہر طرح کی مدد کی۔ آپ نے قدیر خان کی مشاورت سے کہوٹہ میں ریسرچ لیبارٹری بنائی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کئی انٹرویوز میں اس بات کا واشگاف انداز میں اعادہ کیا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں سب مخلص تھے لیکن اس کے شروع کرنے اور اسے سپورٹ کرنے میں بھٹو اور غلام اسحاق خان کا اہم ترین رول رہا ہے۔
جولائی سنہ انیس سو تہتر کو ملک میں مارشل لاء لگا اور جنرل ضیاءالحق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ غلام اسحاق ملک میں مارشل لاء کے نفاذ پر خوش نہیں تھے۔ آپ نے کئی بار اس بات کا برملا اظہار بھی کیا تھا، لیکن ملکی مفاد کی خاطر آپ نے ضیاءالحق کا بھرپور ساتھ دیا اور معاشی معاملات میں آپ نے ان کے دست و بازو کا رول ادا کیا۔ ضیاءالحق نے آپ کی خداداد قابلیت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے آپ کو سیکرٹری وزارت خزانہ مقرر کیا۔ بھٹو نے نیشنلائزیشن کے ذریعے سے پرائیوٹ سیکٹر کو بے تحاشا نقصان پہنچایا تھا اور کئی بڑے صنعتکار اور کمپنیاں ملک چھوڑ کر گئے تھے۔ ان حالات میں پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار تھی۔ ضیاءالحق کی خصوصی ہدایت پر آپ نے صنعتکاروں کا اعتماد بحال کرایا، ان کو دوبارہ ملک آنے کی دعوت دی اور پرائیوٹ سیکٹر کو ایک بار پھر بلاخوف و تردو کاروبار کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔
آپ کی بہترین معاشی اصلاحات کی وجہ سے پاکستان جنوبی ایشیا میں تیزی سے ابھر رہا تھا اور ان سالوں میں پاکستانی کی جی ڈی پی بہت اچھی تھی۔ معاشی اصلاحات اور راہنمائی کے ساتھ ساتھ آپ پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں برابر دلچسپی لے رہے تھے اور اس اہم ترین مقدس فرض میں کسی قسم کی مالی کمی کو آڑے آنے نہیں دیا۔
سنہ انیس سو پچاسی میں ملک میں غیرجماعتی پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ سینٹ کے بھی انتخابات ہوئے۔ غلام اسحاق خان نے آزاد ممبر کی حیثیت سے سینٹ کے انتخابات میں حصہ لیا اور نہ صرف رکن بلکہ سینٹ کے چیئرمین بھی منتخب ہوئے۔ آپ سنہ انیس سو اٹھاسی تک چیئرمین سینٹ رہے۔ اگست سنہ انیس سو اٹھاسی میں بہاولپور میں فضائی حادثے میں صدرِ پاکستان محمد ضیاء الحق جاں بحق ہوئے۔ آپ آئین کی رو سے قائم مقام صدر منتخب ہوئے۔ ملک میں اسی سال عام انتخابات ہوئے اور بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم بنی۔
خان کا بے نظیر بھٹو سے اچھا تعلق بنا اور صدارتی الیکشن میں پی پی پی کی طرف سے امیدوار بنے۔ نواز شریف نے بھی آپ کا ساتھ دیا۔ یوں آپ ملک کے منتخب صدر بن گئے۔ صدارت سنبھالنے کے بعد بی بی سے آپ کا تعلق مثالی نہ رہا۔ بی بی آئین کی اٹھویں ترمیم کو ختم کرانا چاہتی تھی جس سے غلام اسحاق خان خوش نہیں تھے۔ علاواہ ازیں غلام اسحاق اور بی بی کے درمیان اختلافات کی اہم وجہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور فوج کے سربراہان کے مقرر کرنے پر ہوا۔ غلام اسحاق خان ملک کے ایٹمی پروگرام کی خود نگرانی چاہتے تھے اور اس معاملے میں وہ بے حد حساس تھے۔ بلآخر خان نے سنہ انیس سو نوے میں بے نظیر حکومت کو کرپشن اور امن وامان کی بدتر صورت حال کے الزامات کے نتیجے میں اٹھاون ٹو بی کا اختیار استعمال کرکے برخاست کی۔ ملک میں دوبارہ عام انتخابات ہوئے اور نواز شریف ملک کے نئے وزیراعظم بنے۔
نواز شریف بھی بی بی کے نقش قدم پر چل نکلے اور آٹھویں ترمیم کو ختم کرانا چاہا جس کی بنا پر خان اور نواز کے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ خان نے نواز حکومت پر بھی وہی الزامات لگائے جو بی بی حکومت پر لگائے تھے اور اسے برطرف کر دیا۔ نواز شریف کیس سپریم کورٹ لے گئے اور سپریم کورٹ نے اسے بحال کرایا اور صدر کے اس اختیار کے استعمال کو غیر قانونی قرار دیا۔
خان کے دو دفعہ دو منتخب اسمبلیوں کو برخاست کرنے سے ملک میں سیاسی بحران کا اندیشہ پیدا ہوا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے عسکری حکام نے خان اور نواز دونوں کو حکومتی راہداری چھوڑنے پر مجبور کیا۔ یوں خان کی صدارت کا خاتمہ ہوا اور ملک میں سنہ تریانوے میں عام انتخابات کا اعلان ہوا۔
غلام اسحاق خان نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ آپ ایک ایماندار سول سرونٹ تھے۔ آپ ایک قابل ترین بیوکریٹ تھے۔ جس عہدے پر بھی کام کیا، اس میں کمال پیدا کیا۔ آپ کے پاکستانی قوم پر دو عظیم احسانات ہیں۔ ایک یہ کہ قومی دولت کو قومی امانت سمجھ کر اسے لوٹا نہیں۔ دوسرا عظیم احسان ملک کے نیوکلیئر پروگرام کو شروع سے لیکر اس کی جوانی تک اپنے بچے کی طرح پالا پوسا۔
آج پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اللہ کے فضل اس قابل ہے کہ اب دوسرے ملکوں کو بھی یہ ٹیکنالوجی بیچ سکتے ہیں۔ پاکستانی نسلوں کے مستقبل محفوظ بنانے میں بنوں کے اس غیرت مند و ایماندار پٹھان کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ غلام اسحاق خان نے زندگی کے آخری ایام سادگی کے ساتھ پشاور یونیورسٹی کے سامنے اپنے سادہ گھر میں گزارے۔ آخری دنوں میں آپ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم پر کتاب لکھتے رہے۔ آپ کی کل جائیداد آپ کی چند دکانیں تھیں جو یونیورسٹی ٹاؤن کے گھر کے سامنے تھیں۔
آپ کا بیٹا نثار خان ایک سادہ آدمی ہے جو سیاست سے دور سادہ زندگی گزار رہا ہے۔ غلام اسحاق خان کا سب سے یادگار کام صوابی میں ’’غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ‘‘ ہے جو انجینئرنگ کی دنیا میں ورلڈ کلاس ڈگریاں پیش کرتا ہے۔
غلام اسحاق خان ستائیس اکتوبر دو ہزار چھ کو اکیانوے سال کی عمر میں فوت ہوئے اور یونیورسٹی ٹاؤن کے قریب پاوکہ قبرستان میں سپرد خا ک کر دیے گئے۔
اللہ انہیں پاکستان کی بے پناہ خدمت کے عوض جنت الفردوس میں جگہ دیں، آمین یا رب العالمین۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔