قلم کار کی مجبوری یہ ہے کہ وہ سماج سے لاتعلق نہیں رہ سکتا اور سماج سے سیاست کو نکالا نہیں جاسکتا۔ یوں نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی معاملات پر لکھنا پڑتا ہے۔
26 نومبر کو شہرِ اقتدار میں جو ہوا، اُس حوالے سے ایک ہیجانی کیفیت برپا ہے۔ احتجاجی پارٹی کا لاشوں کے حوالے سے اپنا دعوا ہے، جب کہ حکومت کا اپنا۔ ابھی چوں کہ ماحول میں تناو ہے، اس لیے سچ اور جھوٹ کی تمیز مشکل ہے، لیکن جب یہ غصہ اُتر جائے گا، وقت گزر کے کچھ ٹھہراو آجائے گا، تو پھر ٹھیک اور غلط کی مابینی لکیر واضح ہوجائے گی اور یہ ثابت ہوجائے گا کہ تحریکِ انصاف کا 100 یا 100 سے زیادہ لاشوں کا دعوا بھی غلط تھا اور حکومت کا یہ دعوا بھی جھوٹ تھا کہ ایک لاش بھی نہیں گری۔
بہ ظاہر تو اس معاملے کے دو فریق ہیں، جو اَب بھی میڈیائی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں، یعنی حکومت اور تحریکِ انصاف…… مگر میری رائے میں ایک تیسرا فریق بھی ہے، جو سب سے اہم ہے…… اور وہ ہے عام پاکستانی، جو سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ظاہر ہے پورا پاکستان حکومت کا حمایتی ہے اور نہ تحریکِ انصاف کا…… مگر حکومت اور احتجاجیوں کے خالصتاً سیاسی کھیل نے عام پاکستانیوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ خواہ وہ راستوں کی بندش کی صورت میں ہو یا انٹرنیٹ اور دیگر بندشوں کی صورت میں۔
پہلے دو فریق، یعنی حکومت اور تحریکِ انصاف تو فی الحال اپنی اپنی حرکتوں کی تاویلیں پیش کر رہے ہیں۔
حکومت ایک لحاظ سے خوش ہے کہ احتجاجیوں کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے اور اسی کو جیت قرار دیا جارہا ہے۔
البتہ تحریکِ انصاف حالتِ سوگ میں ہے۔ اس کے کئی راہ نماؤں نے پارٹی عہدوں سے استعفا دے دیا ہے۔ دوسری طرف پارٹی کارکنان سخت غصہ ہیں۔ ان کے بیچ مایوسی ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ جب کارکنان (خاص کر پختون ورکر) کو غیرت دلائی جاتی تھی، جہاد کے نعرے لگائے جاتے تھے اور ایک عورت کہتی تھی کہ ’’مَیں خان کو لیے بغیر واپس نہیں جاؤں گی!‘‘ پھر کیسے عام ورکر کو اس طرح بے یار و مددگا چھوڑ کے سب نام نہاد قائدین دم دبا کر بھاگ نکلے؟
جوشیلے کارکنان کا یہ سوال بھی برمحل ہے کہ چلو! لاہور سے اسلام آباد کے لیے راستے بند تھے، آنا مشکل تھا، لیکن کیا پنجاب بھر میں پارٹی کارکنان نے کہیں پانچ منٹ کے لیے بھی احتجاج کیا؟
اور جب مرکزی قافلہ ڈی چوک پہنچ چکا اور رات کو پھر بدترین تشدد ہوا، تو پنجاب بھر میں جگہ جگہ احتجاج نہیں ہونے چاہیے تھے؟
مگر آسمان نے دیکھا کہ اہلِ پنجاب نے مکمل بے زاری یا مجرمانہ بے پروائی کا اظہار کیا۔ ایسے ڈھیر سارے سوالات ہیں، جو عمربھر تحریکِ انصاف کی اندورنی سیاست پر اُٹھتے رہیں گے۔ لہٰذا ان کو یہاں چھوڑتے ہیں۔ کیوں کہ فی الحال نہ حکومت اپنی اداؤں پر غور کرنے کو تیار ہے اور نہ تحریکِ انصاف اپنا جائزہ لینے کے لیے رضامند ہے۔ سو ہم تیسرے فریق یعنی ’’عوام‘‘ کے سامنے کچھ باتیں رکھنا چاہتے ہیں اور پھر عوام ہی سوچیں کہ اس پورے معاملے میں کس کی جیت ہوئی اور کون ہارا!
کیا حکومت کی جیت یا برتری کے دعوے حقیقی ہیں، یا جبر کے نتائج جو اُلٹ بھی ہوسکتے ہیں؟
کیا تحریکِ انصاف کی پسپائی سے ورکروں کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا، یا ایک بار پھر ’’آر یا پار‘‘ کا راگ الاپا جائے گا؟
لہٰذا اس تناظر میں عوام کو سوچنا چاہیے کہ کیا تحریکِ انصاف کے مطالبات میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ درست تھا؟ کیوں کہ کسی ملزم یا مجرم کو بغیر عدالتی کارروائی پورا کیے رہا نہیں کیا جاسکتا۔
کیا جتھوں کے ایما پر جیلوں سے رہائی مناسب ہے؟ اگر ایسا ممکن بھی ہوا، تو کل کلاں کوئی اور اپناجتھا لا کے اپنے ملزم یا مجرم کی رہائی کے لیے ریاست اور حکومت کو زیرِ دباو نہیں لائے گا؟
اس طرح اگر ریاست یا حکومت احتجاجیوں کے سامنے سرنگوں ہوجائے، تو پھر بچتا کیا ہے؟
نیز یہ بھی سوچا جائے کہ حکومت نے رات کی تاریکی میں جس طرح اس معاملے کو مشکوک انداز میں ختم کیا، اُس سے نفرتوں کوبڑھاوا نہیں ملے گا، تو اور کیا ہوگا؟
جب دن کی روشنی میں ڈی چوک پر مظاہرین کو گلے لگایا گیا، تو کیا رات کی تاریکی میں اُن کا خون بہا کر اُنھیں دھوکا نہیں دیا گیا؟
احتجاجیوں کا طریقہ غلط تھا، مگر حکومتی پالیسی کیوں ناکامی اور دوغلے پن کی علامت بنی؟
اس پورے تناظرمیں اب حکومت، تحریکِ انصاف اور عوام تینوں فریق سوچ کر فیصلہ کریں کہ کون جیتا، کون ہارا؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔