چکدرہ قلعہ، تاریخی پُل اور دیر میوزیم

Blogger Khalid Hussain Borewala
چکدرہ قلعہ ارد گرد کے سارے علاقے کا نگہبان ہونے کے ساتھ یہ افغانستان سے آنے والی راہوں پر بھی نظر رکھتا تھا۔ افغانستان اور سنٹرل ایشیا کی طرف سے آنے والے حملہ آوروں کو روکنے میں اس کا کلیدی کردار تھا۔ ہم اپنی گاڑی پر ہونے کی وجہ سے چوں کہ وہاں جلدی پہنچ گئے تھے۔ اس لیے ہمارے پاس اتنا وقت تھا کہ ہم دیر پہنچنے سے پہلے چکدرہ قلعہ بھی دیکھتے جائیں…… مگر اس سے پہلے کہ ہم قلعہ تک پہنچتے سڑک کنارے کچھ چھلی فروش بیٹھے نظر آئے، تو ڈاکٹر صاحب نے گاڑی وہیں روک دی اور ہم نے اپنے لیے ایک ایک چھلی خریدی اور ایک پھٹے پر تشریف فرما ہو کر ہوگئے شروع۔ 
قلعہ کے بارے میں پتا چلا کہ وہاں تک عام آدمی کی رسائی نہیں اور یہ آرمی کے استعمال میں ہے۔
 باتوں باتوں میں تھوڑے پرے دریائے سوات پر بنے سٹیل پُل کا ذکر آگیا، جسے سنہ 1901ء میں تعمیر کیا گیا تھا، جسے اس وقت رچرڈسن اینڈ کروڈاس انجینئرنگ کمپنی نے تعمیر کیا تھا۔ اُس وقت پُل پر 444000 روپے خرچ آیا تھا۔
بات کچھ یوں تھی کہ رسیوں سے تعمیر شدہ پُل نقل و حمل کی ساری ضروریات پورا کرنے سے قاصر تھا۔ چترال پر حکم رانی اور افغان حملہ آوروں کو چترال کی سرحد تک روکنے کے لیے ایک بڑے اور مضبوط پُل کی اشد ضرورت تھی، تاکہ انگریز حکومت اپنے پورے لاو لشکر سمیت چترال تک پہنچ کر سارے انتظام و انصرام پر نظر رکھ سکے۔ اس طرح اس پر سے توپیں، گھوڑے، گدھے اور گاڑیاں بھی آسانی سے گزر سکیں۔
پہلے مرحلے میں ممبئی سے سارا سامان بہ ذریعہ ٹرین درگئی ریلوے اسٹیشن تک لایا گیا اور پھر خچروں کی مدد سے اسے چکدرہ پہنچایا گیا۔ 1901ء میں پل کی تعمیر شروع ہوئی۔ دن رات ایک کرکے سارے جوڑ جامے لگا کر اسے 18 ماہ کے قلیل عرصہ میں پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا گیا۔ اس کا افتتاح اسی سال ڈیوک آف کناٹ نے کیا اور یہ اسی نام کی نسبت سے ’’کناٹ پُل‘‘ کہلایا…… جب کہ اس پُل کا باقاعدہ افتتاح اُس وقت کے صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے چیف کمشنر ’’میجر ہیرالڈ آرتھر ڈین‘‘ نے کیا اور پھر اسے عام پبلک کے لیے بھی کھول دیا گیا۔ 
چھلیاں ٹھنڈی ٹھار اور بے سوادی نکلیں، تو انھیں دوبارہ سے چلہے وچ پا کے سیکا لگوایا گیا، مگر وہ بھی کسے کم نہ آیا۔ الٹا چھلیاں غصہ کرگئیں اور وہ پہلے سے بھی زیادہ اکڑ کر بیٹھ گئیں، بل کہ ان کا کوئی کوئی دانہ غصے میں آکے، گال پھلا کر ہمیں آنکھیں نکال نکال کر دیکھنے لگ پڑا۔ 
ہماری تو خیر تھی، ہمیں ڈر تھا، تو یہ کہ ہمارے ساتھ سجاد بھٹی ورگی نکی جئی جندڑی بھی تھی۔ سجاد بھٹی نکا جیا سوہنا سنکھا اور شریف النفس بندہ ہے۔ ایسے بندوں کے لیے اٹک کے پل کے پار نسبتاً زیادہ خطرات پائے جاتے ہیں۔ اُدھر ارشاد انجم بھی کون سا بڑا پہلوان تھا، وہ بھی تو تقریباً بھٹی کی عمر کا پنج فٹی جوان تھا۔ خطرات تو بہ ہرحال اس کے لیے بھی اتنے ہی تھے۔
مَیں نے اور ڈاکٹر شاہد صاحب نے حفظ ماتقدم کے طور پر اُن دونوں کو بلاکر اپنے درمیان میں پھٹے پر بٹھا لیا، تا کہ سند رہے ۔ ان چھلیوں کو پرے پھینک کر ساتھ والے سے مزید چار چھلیاں خریدیں۔ انھیں کھانے کی کوشش کی، مگر ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق وہی بے ڈھنگی چال تھی، ’’جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘ کی طرح وہ بھی اکڑ کر ہمارے سامنے کھلو گئیں۔ 
خوچہ کیا مسئلہ ہے تمھارا؟ چھلی فروش نے پوچھا۔ 
ارشاد انجم نے ڈرتے ڈرتے چھلی فروش کو عرض کیا: ’’ہمیں ذرا نرم چھلی چاہیے۔‘‘ 
ادر نرم گرم، چھوٹا پتلا، لمبا چھوٹا کا کوئی تمیز نہیں۔ اِدر سب چلتا ہے۔ کچا، کولا، نرم، سخت، کھانگڑ، کھنڈا، گرم، ٹھنڈا…… اک برابر۔ اِدر مساوات کا اُصول چلتا ہے۔ آیا وڈا کُولا چھلی لینے …… چل ٹر دا ہو……! 
ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ شرم کرو حیا کرو۔ بڑے بدید ہو بھئی تمہیں ذرا بھی کوئی شرم حیا نہیں۔ یہ دونوں جاکت اکیلے نہیں ہیں، ہم بھی ان کے ساتھ ہیں۔ انھیں کوئی مائی کا لعل ہاتھ لگا کر تو دکھائے۔ 
اتنے میں ایک خربوزوں سے بھری گاڑی والا ہمارے پاس سے گزرا اور ہم انھیں وہیں پھینک کر خوشبوئے خربوزہ کے اثیر ہوکر اس کی چال ویندے اس کے پیچھے پیچھے ہولیے۔ 
گورے چٹے سفید خربوزوں کی دل کھچ ہواڑ ہماری حسِ شامہ کو چھیڑتی معدے تک اُترتی جاتی تھی۔ ابھی وہ گاڑی تھوڑی دور ہی پہنچی تھی کہ ہم نے اسے جا پکڑا، مگر اس گاڑی میں لدے خربوزے چھوٹے سائز کے اور بہ ظاہر باسی سے لگے، تو انھیں خرید کر کھانے کا ہمارا پروگرام وَڑ گیا۔ 
خیر، اس کا ایک فائدہ ہمیں یہ ہوا کہ ہم اسی دوران میں میوزیم کے گیٹ کے عین سامنے جا پہنچے۔ 
مگر یہ کیا……! گیٹ بند تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے مدتوں سے یہ گیٹ اسی حالت میں بند پڑا ہو۔ میوزیم کے گیٹ کے سامنے مختلف ریڑھی بان اپنا اپنا مال سجائے گاہک کے منتظر کھڑے تھے، اور وہاں پر ہمیں گاڑی پارک کرنے کے لیے کوئی خالی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ ایک ریڑھی والے نے اپنے پاؤں کی مٹی چھوڑی ہی تھی کہ فٹافٹ ڈاکٹر صاحب نے گاڑی اُسی گیپ کے اندر گھسیڑ کر کھڑی کر دی اور ہم سب اُتر کر چل پڑے کوئے قلعہ چکدرہ۔ 
’’چکدرہ میوزیم‘‘ جسے ’’دیر میوزیم‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک گھاٹی پر واقع ہے۔ دریائے سوات سے تھوڑا آگے، میوزیم کی دیوار کے ساتھ گھومتی ہوئی مسلسل اُٹھتی جاتی سڑک کے کنارے واقع ہے۔ 
میوزیم کے اندر جانے کے لیے اس گھاٹی سے ایک رستہ گیٹ سے گزر کر تھوڑا نیچے جاتا ہے۔ گیٹ کے اندر داہنے ہاتھ گاڑی سٹینڈ بنایا گیا ہے۔ سورج کی تیز دھوپ سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کے اوپر پلاسٹک سے بنی چھت بھی ڈالی گئی ہے۔ 
حسِ جمالیات کا آئینہ دار یہ بہت خوب صورت اور سجا سجایا میوزیم ہے۔ دونوں اطراف گھاس بچھی کیاریوں کو رنگ بہ رنگے پھولوں اور پودوں سے سجایا گیا ہے، جن میں پیدل چلنے والوں کے لیے دل پذیر پگڈنڈیاں بھی بنائی گئی ہیں۔
ایک ہی سائز پر مالاکنڈی پتھروں کو کاٹ کر اینٹوں کی شکل دی گئی ہے اور پھر بڑی مہارت سے جوڑ جوڑ کر قلعہ کی شکل میں ایک بڑی اور عمدہ عمارت کھڑی کر دی گئی ہے۔
کیوریٹر جناب امان اللہ آفریدی سے ملاقات ہوئی۔ بڑے نفیس انسان لگے۔ اُنھوں نے ہمیں چائے پانی پوچھا اور پھر اپنے دفتر میں لے گئے۔ تھوڑی گپ شپ کے بعد وہ ہمیں میوزیم دکھانے بہ نفس نفیس ہمارے ساتھ چل دیے۔ 
فرمانے لگے کہ پشاور یونیورسٹی کے محکمۂ آثارِ قدیمہ کی طرف سے سنہ 1966ء تا 1969ء کی گئی کھدائی کے نتیجے میں بہت سے نوادرات ملے تھے، جن کا تعلق وادئی سوات اور چکدرہ سے تھا۔ 
ریاستِ دیر کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد اس کا انتظام و انصرام صوبائی حکومت کے سپرد کر دیا گیا۔ 
انجینئر سیدل نے اسے خوب صورتی سے ڈیزائن کیا۔ 1970ء میں اس کی بنیاد رکھی گئی، جب کہ افتتاح سنہ 1979ء میں ہوا۔ 
اس میں پڑے نوادرات کی کل تعداد 2161 ہے، جن میں سے 1444 کا تعلق گندھارا تہذیب سے ہے۔ جو اندن ڈھیرئی، جبہ گئی، بمبولاء، رامورہ، تری بانڈہ، دمکوٹ، باجوڑ، تالاش، دیر، ملاکنڈ، جندول اور تیمرگرہ کی کھدائیوں سے نکال کر لائے گئے ہیں۔ 
ان نوادرات میں گوتم بدھ کے مجسمے، پیدایش سے پہلے اور بعد کی پتھروں پر کھود کھود کر بنائی گئی گوتم بدھ کی لائف ہسٹری اور بدھا کی مورتیوں کے سر وغیرہ شامل ہیں۔ 
آئیں میں آپ کو اس کا وزٹ کرواتا ہوں: 
یہ بدھسٹ گیلری ہے۔ اس میں 78ء کے کنشک دور اور 30ء تا 375ء کے کشان دور کی بدھ باقیات پڑی ہیں۔
یہ سکندرِ اعظم یونانی گیلری ہے، جس میں اس کی یہاں آمد کے دور میں ملنے والی مختلف نشانیاں اور چندرگپت موریہ خاندان دور کے نوادرات رکھے گئے ہیں۔ 
یہ ہماری ثقافتی گیلری ہے۔ اس میں علاقائی برتن، لباس، زیور، ہتھیار، آلات موسیقی اور فرنیچر وغیرہ کے نمونہ جات ہیں۔ 
پشتون ہیروز گیلری میں ہمارے پشتون ہیروز کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں، جن میں ملک احمد یوسف زئی، ملک گجو خان یوسف زئی، ملتان خان آفریدی، خوشحال خان خٹک، عمرا خان جندول، سرتور فقیر، فقیر آف ایپی اور حاجی صاحب ترنگزئی وغیرہ کی تصاویر ہیں۔ 
جب کہ چترال مہم جوئی سے متعلقہ اُس وقت کے حالات و واقعات کے تاریخی اسکیچز اور تصاویر کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔
 ..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے