قارئین! جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ 27 ستمبر بہ روز جمعہ نشاط چوک میں ’’سوات قومی جرگہ‘‘ کے زیرِ سایہ کام یاب اور تاریخی احتجاج ہوا۔
یاد رہے احتجاج سے ایک روز پہلے ڈپٹی کمشنر سوات نے سیکورٹی خدشات کا اظہار کیا تھا، لیکن پھر بھی اس احتجاج میں عام عوام، صحافی، وکلا، ٹریڈرز یونین، مختلف سماجی تنظیموں کے ممبران اور ڈھیر ساری سیاسی پارٹیوں کے سیاسی عہدے داروں نے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر شرکت کی تھی۔ اس تاریخی احتجاج کے حوالے سے سوات کی توانا آواز فیاض ظفر نے یہ لکھا کہ ’’سوات کے عوام نے اپنا اور بنوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔‘‘
سب مظاہرین کا بس ایک ہی پُرزور مطالبہ تھا کہ ’’ہمیں امن چاہیے!‘‘
اس احتجاج میں پاکستان تحریکِ انصاف کے فضل حکیم بھی شریک تھے، جو پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے رکن ہونے کے ساتھ صوبائی وزیر بھی ہیں۔ جب وہ سٹیج پر حاضرین سے مخاطب ہوئے، تو اُن کے خلاف نعرے لگائے گئے، اور اُنھیں بولنے نہیں دیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا اور اس کی وجوہات کیا ہیں ؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عوام کے سینوں میں آج کل سوات کے خراب حالات کی وجہ سے لاوا پک رہا ہے اور ان حالات سے بچہ بچہ واقف ہے، لیکن اس کے باوجود سوات کے منتخب اراکین اس پر خاموش ہیں۔ اُن کی مجرمانہ غفلت، بے حسی اور خاموشی کی وجہ سے عوام کے دلوں میں نفرت کے جذبات جنم لے چکے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں جب عوام نے فضل حکیم کو سٹیج پر کھڑے دیکھا، تو اُن کے اندر جو نفرت اور غصہ کے جذبات تھے، اُنھوں نے نعروں کی صورت میں اُن کا اظہار کیا اور وزیر موصوف کو بولنے نہیں دیا ( جس پر دل کو ٹھنڈک بھی پہنچی! )
دوسری بات یہ ہے کہ سوات سے جو اراکین منتخب ہوئے ہیں، اُن کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف سے ہے اور اس پارٹی نے پچھلے 11سالوں میں پختونخوا کو جو نقصان پہنچایا ہے، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ آج بھی ان کی ترجیحات میں عوام کو سہولیات دینا، عوام کے مسائل حل کرنا کہیں پر بھی شامل نہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی بس ایک ہی ترجیح ہے اور وہ ہے: ’’قیدی نمبر 804 کی آزادی!
پی ٹی آئی والوں کی تمام سرگرمیوں کا محور آج کل اڈیالہ جیل میں مقیم عمران خان ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اُنھیں ریلیف دیا جائے۔ اس کے لیے وہ مرکزی حکومت پر دباو ڈالنے کے ساتھ ساتھ یہ کوششیں بھی کر رہے ہیں کہ کسی طرح سپہ سالار کی توجہ حاصل کرلیں، لیکن مستقبلِ قریب میں ایسا ہونا بالکل بھی ممکن نہیں۔
پختونخوا کی صوبائی حکومت کی ذمے داری تو یہ تھی کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر اس صوبے کے بڑے مسئلے یعنی مصنوعی دہشت گردی سے جان چھڑانے کے لیے کچھ کرتی، لیکن شرم اُن کو کہاں آتی ہے!
ایسے میں بھلا اندھوں کو آئینہ کیا دکھانا!
کیوں کہ اُن کی تاریخ یہی ہے کہ اُن کی پچھلی حکومت یعنی سابق وزیرِ اعلا محمود خان کے دور میں دہشت گردوں کو یہاں پر آباد کرنے کی کوششیں بھی ہوئی تھیں، جو عوام نے بری طرح ناکام بنادی تھیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے معزز منتخب اراکین، صوبائی اور قومی اسمبلی میں ہمارے لیے آواز اٹھاتے، لیکن نہیں…… وہ تو ہماری طرح سڑکوں پر چلاتے ہیں۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران کا سڑکوں پر آواز اُٹھانا ایک طرف یہ مثبت تاثر دیتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں، لیکن دوسری طرف اس سے یہ منفی تاثر بھی ملتا ہے کہ ہمارے منتخب اراکین کسی کام کے نہیں۔ وہ اسمبلی میں یہ تک نہیں کَہ سکتے کہ ہمارے عوام اور پولیس محفوظ نہیں۔ وہ یہ بھی نہیں کَہ سکتے کہ ہمارے لوگ اپنی گھر کی چار دیواری میں بھی ڈر محسوس کرتے ہیں۔ وہ یہ تک نہیں پوچھ سکتے کہ یہ سارا کھیل پھر سے کیوں رچایا جارہا ہے؟ جس سے واضح تاثر یہی ملتا ہے کہ یہ بھی ان دہشت گردوں کے ساتھی ہیں۔ ظلم پر خاموش رہنے والا بھی ظالم کا حامی ہوتا ہے۔
ان صوبائی عہدے داروں کا کام یہ ہے کہ یہ ہمارے مسائل صوبائی اور ملکی سطح پر اُجاگر کریں۔ سڑکوں پر بیٹھنے کے لیے ہم عوام ہی کافی ہیں۔
قارئین! جب تک پاکستان تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت کی ترجیحات نہیں بدلیں گی، تب تک ان کے نمایندوں کا ایسا حال کیا جائے گا، جو جمہوری اقدار کے لحاظ سے خوش آیند بات ہے۔
خدا کرے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے منتخب نمایندوں کو عقل آجائے!
اگر یہ دعا رَد ہوجائے اور انہیں عقل نہ آئے، تو قارئین! آپ سب مل کے یہ دعا کریں کہ آئینہ میں دیکھنے کے بعد انھیں خود سے شرم ضرور آجائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔