آہ، سید مودودی رحمہ اللہ! جن کی فکر اپنوں کی بیگانگی اور غیروں کے دشنام کے بیچ معلق ہے۔
آج ہمارے ڈیپارٹمنٹ "Swedish Center for Digital Innovation” میں ’’آرٹی فیشل انٹیلی جنس‘‘ (اے آئی) کے حوالے سے قوانین کے بارے میں راؤنڈ ٹیبل سیشن میں ایک پروفیسر نے ٹیکنالوجی کے ہمہ جہت منفی اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک بات کہی، جو مجھے شدت کے ساتھ مولانا مودودی کے حوالے سے ایک مولوی کے جمعہ کے خطبے کی یاد دلاگئی۔ ضمناً یہ عرض کروں کہ فوٹوگرافی اور ویڈیو گرافی کے آنے سے چوں کہ مغرب کی جدید اقدار پہ زَد نہیں پڑ رہی تھی، تو اُنھوں اسے شترِ بے مہار بنا کے چھوڑ رکھا۔ ہماری روایت میں چوں کہ اس چیز کو مذہبی اقدار کے ساتھ متصادم سمجھا گیا، تو اس کو زیرِ بحث لایا گیا اور ناجائز قرار دیا گیا۔ بعد میں نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر مذہبی طبقے نے اس کو اپنا لیا اور آج کل تو اس حوالے سے اُن کے درمیان مقابلے کا میدان گرم ہے۔ اس کے مقابلے میں ’’اے آئی‘‘ چوں کہ پرائیویسی اور اس جیسی دوسری مغربی اقدار کو خطرہ لاحق کرواسکتی ہے، لہٰذا مغربی ڈسکورس میں یہ بحث جاری ہے کہ کس قسم کی قانون سازی کے ذریعے ان منفی اثرات سے اپنے اقدار کو محفوظ رکھا جاسکے۔
قارئین! جمعہ کے خطبے کی طرف واپس آتے ہیں۔ مذکورہ مولوی ہمارے گھر کی پاس والی مسجد میں امام تھا اور مَیں اُس مسجد میں اس لیے جمعہ نہیں پڑھتا تھا کہ اس کے مولوی نے مشہور کر رکھا تھا کہ مودودی اور اس کے ماننے والے (جنھیں استہزا کے طور پر ’’مغدودیان‘‘ پکارتے ہوتے تھے) گم راہ ہیں۔ تو مَیں محلے کی ایک دوسری مسجد میں جمعہ پڑھ کر آرہا تھا کہ لاؤڈ سپیکر میں مولوی صاحب کی آواز آرہی تھی، جو خطبے میں کَہ رہے تھے کہ ’’اِن مودودیوں نے سنیما کو حلال قرار دیا ہے۔‘‘
مجھے بڑا قلق ہوا کہ اَب یہ کیسا الزام ہے؟ بعد مَیں پتا چلا کہ ہمارے ایک اُستاد، جو کہ مولانا مودودی کے حد درجہ معتقد تھے اور جن سے ہم قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھتے تھے، نے اسی دوران میں مولوی صاحب سے آٹھ کر کہا کہ یہ جس پیراگراف کا آدھا حصہ آپ سنا رہے ہیں، اُس کو پورا کر دیجیے۔ مولوی صاحب نے جذباتی انداز میں اپنی مقدس حیثیت کا حوالہ دے کر مقتدیوں کو بھڑکایا۔ ہمارے قرآن کے اُستاد کو گھونسے اور لاتیں مار کر مسجد سے نکال باہر کیا اور جمعہ بھی نہ پڑھنے دیا۔
بعد میں، مَیں نے اپنے اُستاد سے استفسار کیا کہ یہ مولوی کیا الزام لگا رہا تھا؟ تو اُنھوں نے مولانا مودودی کی تصنیف ’’رسائل و مسائل‘‘ کا متعلقہ حصہ نکال کر دکھایا کہ ایک سائل نے مولانا مودودی سے سوال پوچھا ہے کہ ’’کیا سنیما ٹوگرافی اور ویڈیو بنانا جائز ہے؟‘‘ جواب میں مولانا اُن کو کَہ رہے ہیں کہ ’’کوئی بھی آلہ بہ ذاتِ خود حلال یا حرام نہیں قرار پاتا، بل کہ یہ اس کا استعمال ہوتا ہے، جو اسے جائز و ناجائز قرار دلواتا ہے۔‘‘ اور پھر آگے جاکر مولانا تفصیلاً مروجہ سنیما اور فلموں کی قباحتوں کا ذکر کرکے اسے ناجائز قرار دے دیتے ہیں۔
آج جب مذکورہ پروفیسر نے ’’اے آئی‘‘ کی بحث میں "Technology Neutrality” کی بحث کو سمیٹا، تو بعینہٖ یہی الفاظ اُن کے منھ سے نکلے کہ ’’کوئی ٹیکنالوجی بہ ذاتِ خود اچھی یا بری نہیں ہوتی، بل کہ اس کا استعمال اس کو اچھے یا برے کے ذیل میں درج کرتا ہے۔‘‘
یہ بات سن کر ذہن گو مہ گو کی کیفیت کا شکار ہوگیا کہ ایک طرف امتِ مسلمہ کے ایک غم خوار کے ساتھ ہمارے مذہبی طبقے نے کتنا بڑا ظلم روا رکھا اور دوسری طرف انھی کے مداحوں نے اُن کی فکر کو اپنی کم مائیگی کی وجہ سے کتنا محدود اور ناقابلِ اعتنا جانا۔ جو لوگ اُن کے مخالف رہے ہیں اور آج بھی ہیں، اُنھیں اس معاملے میں خدا کا خوف نہیں رہتا اور بہت دور کی کوڑی لاکر ان کی وفات کے 45سال بعد بھی فیض صاحب کے بہ قول کوئی ناوک دشنام نہیں چھوڑ رکھتے، جب کہ جو لوگ اُن کے نام کا دم بھرتے ہیں، اُنھیں مولانا کی فکر اور اُن کے کام کی وسعت اور ہمہ گیری کا اندازہ ہی نہیں۔
اللہ تعالا مولانا مودودی کی مغفرت فرمائے اور ہمیں اُن کے حوالے سے آزمایش سے محفوظ رکھے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔