اس وقت ہمارے ملک میں ایک نظام قائم ہے، جس کو ’’جمہوریت‘‘ کہا جاتا ہے۔
جمہوریت کی ابتدا مغرب سے ہوئی۔ سال ہا سال آپس کی لڑائیوں نے اہلِ مغرب کو ایک نیا نظام بنانے پر مجبور کیا۔ لہٰذا بادشاہتوں کا خاتمہ ہوا۔ کچھ بادشاہوں کو البتہ فقط نمایشی طور پر زندہ رکھا گیا، جیسا کہ برطانیہ سمیت کچھ اور مغربی ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اس طرح جو نیا نظام (جمہوریت) نافذ ہوا، اُس کی بنیادی خوبی یہ مانی گئی کہ اس میں ہر بندے کے ووٹ کا حق تسلیم کیا گیا۔ اَب ہر ریاستی باشندہ اہل تھا کہ اپنے لیے حکم ران خود اپنی مرضی سے چنے۔ ووٹ کے حق نے ریاست کے ایک عام آدمی کو ’’شہری‘‘ قرار دیا۔
شہری دراصل کسی ریاست کے اُس فرد کو کہا جاتا ہے، جس کے کچھ حقوق اور فرائض ہوتے ہیں۔ حقوق کی عدم دست یابی پر پُرامن احتجاج ایک شہری کا بنیادی حق مانا گیا۔ یہ احتجاج ووٹ کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے۔
اس طرح اگر شہریوں کے حقوق انھیں میسر نہ ہوں یا محفوظ نہ ہوں، تو عدم اعتماد کے ذریعے منتخب حکومت کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اگلے انتخابات میں کسی اور امیدوار کو ووٹ دیا جاسکتا ہے۔
کسی ریاست میں کسی شہری کے حقوق غصب یا پامال ہوں، تو شہری کو قانونی چارہ جوئی کا بھی حق دیا گیا۔
یہی وجہ تھی کہ بادشاہتوں کے خاتمے پر مغربی دنیا نے سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر خود کو اس قابل بنایا کہ آج دنیا کی امامت مغربی ہاتھوں میں ہے۔
یاد رہے کہ بادشاہتوں میں رہنے والے لوگ شہری نہیں، بل کہ رعایا ہوتے ہیں۔ وہ کسی نظام نہیں، بل کہ ایک شخص (بادشاہ) کے ماتحت ہوتے ہیں۔ بادشاہ سے وفاداری کا صلہ ’’انعام‘‘ ہوتا ہے، جب کہ غداری کا صلہ فقط ’’موت‘‘۔
بادشاہتوں میں رعایا کے حقوق نہیں ہوتے، بل کہ بادشاہ کی خوش نودی ہی اُن کے لیے سب کچھ ممکن بناتی ہے۔ جہاں حقوق ہوتے ہی نہیں، وہاں حقوق کی عدم دست یابی یا پامالی پر احتجاج کا تصور ناپید ہوتا ہے۔
آج بھی سعودی عرب سمیت جن ممالک میں خاندانی بادشاہتیں قائم ہیں، وہاں آپ کو کوئی سول سوسائٹی نظر نہیں آئے گی۔ مثلاً: غاصب اسرائیل نے گذشتہ سال اکتوبر سے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اسکول، مساجد، جامعات، شفاخانوں اور مہاجر کیمپوں سمیت کسی جگہ کو نہیں چھوڑا۔ جہاں جی چاہا، بمباری کی اور ہزاروں کو مار دیا۔ اس اسرائیلی بربریت پر دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں انسان دوست لوگوں نے احتجاج کیا۔ سب سے زیادہ پُراثر احتجاج مغربی دنیا میں ہوا، جن کا فلسطینیوں سے فقط انسانیت کا رشتہ ہے۔ برخلاف اس کے کسی نہیں دیکھا کہ سعودی عرب میں اسرائیلی بربریت کے خلاف یا فلسطینیوں سے حمایت کے لیے کوئی ریلی نکالی گئی ہو۔
حالاں کہ اہلِ سعودیہ اور اہلِ فلسطین میں انسانیت کے علاوہ علاقے، زبان، قومیت، دین اور مذہب کا رشتہ بھی ہے…… لیکن یہی فرق ہوتا ہے جمہوریت اور بادشاہت میں کہ جمہوریت میں ایک بندے کو صرف ووٹ کا حق نہیں ملتا، بل کہ آزادیِ اظہار، پُرامن احتجاج اور یونین سازی سمیت دیگر بنیادی حقوق بھی حاصل ہوتے ہیں، جب کہ آمریتوں یا بادشاہتوں میں عوام کو چوں کہ رعایا سمجھا جاتا ہے، اس لیے اُن کے کسی حق کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔
یہ بات مگر یاد رہے کہ آج کی ’’گلوبلائزڈ دنیا‘‘ میں بادشاہتیں سکڑتی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سخت گیر بادشاہتوں میں بھی اصلاحات کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ تاکہ کسی متوقع عوامی بیداری یا بغاوت کے امکانات کو دور کیا جاسکے۔
ہمارے ملک میں بھی وہی جمہوریت قائم ہے، جو مغرب میں کارآمد ہے۔ کسی زمانے میں اس کو ’’اسلامی‘‘ اور ’’غیر اسلامی‘‘ حوالے دے کر تقسیم کیا جاتا تھا، مگر اکثریت نے اس کو ’’اسلامی شورائیت‘‘ سے قریب قرار دے کر قبول کیا۔
شورائیت کا ذکر قرآنِ مجید میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ اس لیے موجودہ جمہوری نظام میں ملک کی اسلامی تشخص والی پارٹیاں حصہ لیتی ہیں اور کبھی کبھی اتحادی حکومتوں میں حصہ دار بھی رہتی ہیں۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب عوام ووٹ تو کسی ایک کو دے دیتے ہیں، مگر نتیجہ کسی اور کے حق میں نکل آتا ہے…… یعنی ہم بہ ظاہر تو جمہوری ریاست میں رہنے والے شہری ہیں، لیکن جب نتائج اُلٹ پلٹ کیے جاتے ہیں، تو عوام خود کو شہری نہیں، بل کہ رعایا سمجھتے ہیں۔ پھر ظالم بادشاہت کی رعایا میں بغاوت کے جذبات پیدا ہونا ہرگز حیران کن نہیں۔
اسی تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بدامنی کو ختم کرنا ہے، تو عوام کو شہری سمجھیں اور شہریوں کے حقوق کی دست یابی کو یقینی بنائیں، تاکہ عوام کو خود ریاستی شہری مانیں، نہ کہ کسی ظالم بادشاہ کی رعایا، جن میں خوف اور مایوسی کی وجہ سے بغاوت پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔