کچھ سال قبل سوات میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ باقاعدہ ریاستی سرپرستی میں کچھ دہشت گردوں کو سوات منتقل کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مشیرِ اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا کہ مذکورہ دہشت گرد اپنی بہن کی بیمار پرسی کے لیے سوات آئے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ نشاط چوک میں انسانوں کا سمندر اُمڈ آیا۔ مٹہ، بریکوٹ، چار باغ، خوازہ خیلہ، مٹہ، بحرین اور کبل میں امن کے لیے بڑے بڑے اجتماعات ہوئے اور امن ریلیوں نے ریاست کو اتنا مجبور کیا کہ وہ دہشت گردوں کو سوات سے واپس لے گئی۔
اب آتے ہیں بنگلہ دیش کی طرف، جہاں سرکاری ملازمین کی تنخواہ نسبتاً بہتر ہوتی ہے، لیکن بنگلہ دیش میں حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے مختلف کوٹے مختص کیے ہیں، جن کی وجہ سے عام نوجوانوں کو میرٹ پر کم نوکریاں ملتی ہیں۔ آخر تنگ آکر نوجوان مذکورہ کوٹہ سسٹم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور شیخ حسینہ واجد کی انتہائی مظبوط حکومت کا خاتمہ کرکے اُس کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا۔
قارئین! اس وقت پاکستان میں عوام کے ساتھ بیٹھ جائیں، تو ہر کوئی بجلی اور گیس کے بِلوں کی وجہ سے پریشان ہے۔ گیس کے بِل 3 سو فی صد بڑھا دیے گئے ہیں اور ہر ماہ آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ 24 کروڑ آبادی کے اس ہجوم میں سے اشرافیہ کو چھوڑ کر باقیوں میں سے بیش تر نے زیورات وغیرہ بیچ کر اپنے بِل بھرے ہیں۔
اس ہجوم نے کبھی سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ آئی ایم ایف سے قرضہ حکم ران اپنی عیاشیوں کے لیے لیتے ہیں اور پھر قسطیں ہم ٹیکس، بجلی اور گیس کے بِلوں کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔
پاکستان میں رہنے والے اس ہجوم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہم ان حکم رانوں سے پوچھ تو لیں کہ جب قرضہ آپ لیتے ہیں، تو قسط بھی آپ ہی ادا کریں، ہمیں کیوں لتاڑتے ہیں۔
اگر یہ 22 کروڑ ہجوم قوم بن جائے، سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرے اور چند مطالبات حکومت کو پیش کرے اور اُن سے اپنے مطالبات منوالیں، تو کوئی بھی شخص بجلی اور گیس کے بِلوں سے تنگ آکر بیوی بچوں سمیت خود کشی نہیں کرے گا۔
فرض کریں کہ 24 کروڑ میں سے 10 لاکھ لوگ بھی سڑکوں پر نکل کر غیور بنگالیوں کی طرح دھرنا دے بیٹھیں اور یہ مطالبات کریں کہ
٭ ایمبولینس، فائر بریگیڈاور فورسز کے علاوہ تمام سرکاری لوگوں (مع وزرا، جج، وزیرِ اعظم) سے سرکاری گاڑیاں واپس لی جائیں اور ان سب کی تنخواہ میں 20 تا 50 ہزار الاؤنس (ٹرانسپورٹ کی مد میں) شامل کیا جائے۔ اُن تمام گاڑیوں کو نیلام کرکے اُس سے ملنے والی رقم آئی ایم ایف کو واپس کی جائے۔ آئی ایم ایف کا قرضہ ختم کیا جائے اور مطالبہ کیا جائے کہ حکومتِ پاکستان کسی ملک سے قرضہ نہیں لے گا۔ تمام سرکاری لوگ ذاتی گاڑیوں میں دفتر آئیں گے۔ اس سے ماہانہ تیل کی مد میں اربوں روپے کی بچت ہوگی۔ یوں حکومت کو پابند بنایا جائے کہ وہ کوئی گاڑی نہیں خریدے گی۔
٭ فورسز کے تمام افسران کے پاس صرف سرکاری ڈیوٹی کے لیے گاڑی ہوگی اور کوئی آفیسر سرکاری گاڑی ذاتی کام یا گھر آنے جانے کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔
٭ تمام سرکاری دفاتر بہ شمول وزیرِ اعظم ہاؤس سے ائیر کنڈیشن اُتار کر اسے فروخت کردیں۔ نیز سرکاری دفاتر میں ائیر کنڈیشن اور ہیٹر چلانے پر پابندی لگا دی جائے۔ اگر واقعی ایسا کیا گیا، تو پاکستان میں بجلی کی طلب پوری ہوجائے گی اور عوام کو لوڈ شیڈنگ سے نجات مل جائے گی۔
٭ پی آئی اے، سٹیل مل، ریلوے اور واپڈا سمیت نقصان میں چلنے والے تمام اداروں کو فروخت کیا جائے۔
٭ آئی پی پیز کے تمام معاہدے منسوخ کیے جائیں اور جن لوگوں نے یہ معاہدے کیے ہیں، اُن سے تمام نقصان واپس لیا جائے۔
٭ گریڈ 1 سے 18 تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر ٹیکس آدھا کیاجائے۔
٭ تمام ترقیاتی کاموں پر دس سال کے لیے پابندی لگادی جائے اور جو کام ضروری ہو، اُس کو ’’پی پی پی‘‘ (پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ) کے ذریعے کیا جائے۔
٭ ایک ویب سائٹ بنائی جائے، جس میں سکیل 1 سے وزیرِ اعظم تک تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور اثاثہ جات شائع کیے جائیں اور وزیرِ اعظم تک ہر ملازم ہر سال اپنے اثاثہ جات کو اَپ ڈیٹ کیا کرے۔ اگر ایسا ممکن بنایا گیا، تو کرپشن کافی حد تک کم ہو جائے گی۔
اگر پاکستان میں رہنے والا ’’ہجوم‘‘ غیور بنگالیوں کی طرح نکل کر حکومت سے یہ چند جائز مطالبات منو الے، تو یقین کریں کہ آیندہ چند سالوں میں پاکستان ’’کرپشن فری‘‘ ہوجائے گا۔ مہنگائی ہوگی، نہ لوڈ شیڈنگ اور عوام خوش حال ہوجائیں گے۔ روزانہ لاکھوں افراد پھر اس جہنم نما ریاست سے نکلنے کے لیے پاسپورٹ نہیں بنوائیں گے۔
جاتے جاتے ایک مشہور کہانی پڑھتے جائیں۔ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک ملک کا بادشاہ تھا، جس کو اپنی قوم کی بہت فکر تھی۔ اس ملک کے عوام بھی پاکستانیوں کی طرح سورہی تھی۔ ایک دن بادشاہ نے اپنے ایک وزیر سے پوچھا کہ میری قوم کیسے جاگے گی؟ وزیر نے جواباً مشورہ دیا کہ ہمارے ملک کے لوگ صبح دریا پر جس پل سے گزر کر کام کے لئے جاتے ہیں، تو وہاں پر دو سپاہیوں کو کھڑا کیا جائے۔ وہ سپاہی پل پر آنے جانے والے ہر شخص کو دو، دو جوتیں ماریں اور کہیں کہ یہ بادشاہ کا حکم ہے۔ اس طرح ایک دن یہ لوگ اس حوالے سے پوچھنے ضرور آئیں گے۔بادشاہ سلامت کو مشورہ پسند آیا اور اگلے دن سے لوگوں کو جوتے مارنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
یوں وقت گزرتا گیا۔ ایک دن ملک کے عوام بادشاہ کے محل کے سامنے جمع ہوگئے۔ بادشاہ، لوگوں کا شور سن کر خوش ہوگی
ا کہ میرے ملک کے لوگ جاگ گئے ہیں۔ بادشاہ خوشی خوشی محل کی بالکونی میں چلاگیا اور لوگوں سے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے، تو ہجوم میں سے جواب آیا کہ بادشاہ سلامت! آپ نے فُلاں پل پر ہمیں جوتے مارنے کا حکم دیا ہے، لیکن وہاں صرف دو سپاہی موجود ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے کام پر جانے کے لیے دیر ہوجاتی ہے۔ اگر آپ جوتے مارنے کے لیے سپاہیوں کی تعداد بڑھادیں، تو یہ آپ کا ہم پر احسان ہوگا۔
بادشاہ یہ سن کر حیران ہوگیا۔
قارئین! ہمارا حال بھی مذکورہ ہجوم سے کم نہیں،اس لیے ہم بنگالی نہیں بن سکتے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔