چوں کہ برطانیہ میں انتخابات کے دِن عام تعطیل نہیں ہوتی اور حکومت کے تمام کام معمول کے مطابق رواں دواں رہتے ہیں، اس لیے الیکشن کی ڈیوٹی کا کام تعلیم یافتہ عام لوگوں یا پروفیشنلز سے لیا جاتا ہے۔ کیوں کہ لوکل گورنمنٹ اور مرکزی حکومت کے تمام ملازمین اپنی معمول کی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔
برطانیہ کے عام انتخابات کے لیے جب 4 جولائی 2024ء کی تاریخ کا اعلان کیا گیا، تو انتخابات سے ایک مہینا پہلے مجھے اور میری دو بیٹیوں کو الیکشن میں ڈیوٹی کرنے کی پیش کش ہوئی۔ مَیں نے اس وجہ سے پیش کش قبول کی، تاکہ یہاں کے الیکشن کے بارے میں کچھ جان کاری حاصل کروں اور میری دو بیٹیوں نے بہ وجہ گھریلو اور پیشہ ورانہ مصروفیات کے یہ پیش کش قبول نہیں کی۔
الیکشن کے عملے کی تربیت انتخابی عمل کے انتظار و انصرام اور شفافیت میں اہم کردار کرتی ہے۔ یہ عمل دنیا کے ہر ملک میں ہر الیکشن کا لازمی حصہ ہوتا ہے اور یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام عملہ انتخابی طریقۂ کار اور الیکشن سے متعلق قوانین کو جانے اور پھر اس جان کاری اور تربیت کو استعمال کرتے ہوئے الیکشن کی تمام سرگرمیوں کو موثر طریقے سے نمٹائے۔
ٹریننگ میں لوگوں کی ذاتی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔ اس لیے ٹریننگ کے لیے تین دن مختص کیے گئے تھے اور ہر دِن میں ٹریننگ کے مختلف سیشن کے لیے مختلف اوقات رکھے گئے تھے، تا کہ عملے کا ہر شخص اپنی سہولت کے مطابق مناسب وقت پر ٹریننگ حاصل کرسکے۔ الیکشن کے تمام عملے سے برقی مراسلوں کے ذریعے وقت اور تاریخ کے متعلق پوچھا گیا تھا کہ اپنا موزوں اور مناسب وقت کونسل کو بتا دیں۔ الیکشن کے انتظامات میں حصہ لینے والے عملے نے اپنی اپنی موزوں تاریخ اور مناسب وقت کے متعلق کونسل کو اطلاع دی تھی۔
چوں کہ انسان کو کسی بھی وقت جسمانی اور سماجی مسائل پیش آسکتے ہیں، ان حالات کا احساس کرتے ہوئے انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے ایک بار پھر برقی مراسلوں کے ذریعے پولنگ سٹاف کے ہر فرد سے دریافت کیا گیا کہ آپ ڈیوٹی کرسکتے ہیں یا نہیں؟
چار جولائی کوپولنگ سٹیشن منظم کرنے کے بعد پریزائڈنگ آفیسر نے مجھے سفید کارڈ بورڈ سے بنی ہوئی ایک پرائیویسی باکس کو مخصوص جگہ پر لگانے کو کہا۔ یہ باکس تینوں اطراف سے بند اور ایک طرف سے کھلا ہوا تھا۔ اس باکس میں ایک طرف مستطیل نما سوراخ بھی کیا گیا تھا اور اس میں مرد یا خاتون آسانی سے کھڑی ہوسکتی تھی۔ یہ باکس ان خواتین کے لیے تھا، جو غیر رشتہ دار لوگوں سے پردہ کرتی ہیں۔ اگر خاتون چاہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ دکھانا نہیں چاہتی، تو وہ اس مخصوص باکس میں اپنا چہرہ الیکشن کے کسی سٹاف ممبر کو سوراخ میں دکھا کر اپنی شناختی اسناد کی تصدیق کراسکتی ہے۔ دل چسپ بات یہ دیکھنے میں آئی کہ اس سہولت کو صرف ایک پشتون خاتون نے استعمال کیا۔ حالاں کہ ہمارے شہر پرسٹن میں تقریباً 62 فی صد مسلمان خواتین سورۂ احزاب کی آیت نمبر 59 کے مطابق پردہ کرتی ہیں، لیکن ان سب نے عام شہریوں کی طرح اپنی شناختی اسناد کی تصدیق کی تھی۔
اس طویل تمہید کے ذریعے مجھے اپنے قارئین کو یہ بتانا ہے کہ ریاستِ برطانیہ لوگوں کے مذہبی اور ثقافتی عقائد کا کتنا احترام کرتی ہے۔ اس باکس میں ایک آئینہ بھی لٹکا دیا گیا تھا۔ مَیں یہ جان کر بہت حیران ہوا کہ یہ خواتین کو اپنے سکارف کو واپس اپنی پرانی حالت میں باندھنے کے لیے تھا، یعنی وہ آئینے میں دیکھ کر اپنا سکارف دوبارہ درست کرسکتی ہیں۔ برطانیہ کی ریاست نہ صرف لوگوں کے مذہبی عقائد کا خیال رکھتی ہے، بل کہ انسان کی شخصی خوب صورتی اور بناؤ سنگھار کے حق کو بھی تسلیم کرتی ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ موجودہ عام انتخابات سے قبل ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ سٹاف کو شناختی سند دکھانا ضروری نہیں تھا، لیکن یہ قانون بعد میں پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا کہ آیندہ عام انتخابات میں ووٹر کو اپنی شناخت کرانا پڑے گی، جس کا آغاز 2023ء کے موجودہ عام انتخابات سے کیا گیا۔
ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہریت رکھنے والی خاتون نے اپنی شناختی سند کی تصدیق کے بعد نہ صرف اپنے لیے، بل کہ اپنی بہن کے لیے بھی بیلٹ پیپر کا مطالبہ کیا۔ مجھے یہ بہت عجیب لگا۔ جب مَیں نے پریزائڈنگ آفیسر سے استفسار کیا، تو اُس نے کہا کہ پراکسی ووٹ کی لسٹ ہمارے پاس موجود ہے۔ اِس میں اُس کا نام چیک کریں اور اِس کے مطابق کام کریں۔ چیک کرنے کے بعد ہم نے اُس خاتون کو اُس کا اور اُس کی بہن کا بیلٹ پیپر دے دیا۔ یہاں ہر کوئی اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے کسی دوسرے کو بھی نام زد کرسکتا ہے۔ اِس کا ایک تحریر شدہ طریقۂ کار ہے، جس کے مطابق لوکل گورنمنٹ کو پہلے سے بتانا پڑتا ہے۔
اگر کوئی سیاسی پارٹی چاہے، تو وہ اپنا پولنگ ایجنٹ بٹھا سکتی ہے، لیکن کسی سیاسی پارٹی نے پولنگ ایجنٹ تعینات نہیں کیا تھا۔ یہ سیاسی پارٹیوں کا الیکشن کی شفافیت پر اعتماد کا ثبوت ہے۔
پولنگ سٹیشن پر پولیس یا رائل آرمی کا کوئی بندہ موجود نہیں تھا۔ البتہ 15 گھنٹوں میں ایک دفعہ ایک خاتون پولیس آفیسر حالات کو چیک کرنے کے لیے آئی تھی اور سب کچھ درست سمجھ کر 2 منٹ کے بعد چلی گئی تھی۔
بہت دل چسپ بات مَیں نے یہ دیکھی کہ سارا انتظام لوکل گورنمنٹ کر رہی تھی اور مجھے بتایا گیا تھا کہ تمام لوکل اور پارلیمانی انتخابات کے سب انتظامات لوکل گورنمنٹ ہی کرتی ہے۔ مرکزی حکومت، فوج، پولیس اور عدلیہ کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔
مَیں سوچ رہا تھا کہ ووٹ ڈالنے کا وقت جب ختم ہوگا، تو ہم ووٹوں کی گنتی شروع کریں گے، لیکن جب پولنگ کا ٹائم ختم ہوا، تو فوراً بیلٹ باکس کو سیل کیا گیا اور پھر تمام نوٹس اتار دیے گئے۔ خاتون پریزائڈنگ آفیسر سارے نوٹس اور دوسری ضروری سٹیشنری اپنے ساتھ لے کر اپنے کار کی طرف چل پڑیں۔ مَیں نے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہی ہیں؟ تو اُنھوں نے جواب دیا کہ مجھے ٹاؤن ہال میں بیلٹ باکس پہنچانے ہیں۔ مَیں نے پھر پوچھا کہ کون اس کی گنتی کرے گا؟ شاید اُس وقت اُس کو یہ اندازہ ہوا کہ مجھے اس سسٹم کا علم نہیں۔ وہ ایک پاؤں کار کے اندر اور ایک باہر رکھتے ہوئے اپنے ایک مخصوص انداز میں کہنے لگی کہ گنتی کے لیے دوسرے لوگوں کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ پوسٹل بیلٹ کی گنتی کے لیے علاحدہ لوگ ہائر کیے گئے ہیں۔ پھر وہ مصافحہ کرکے کار میں بیٹھ گئیں۔ پھر کار کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے اُنھوں نے سوال کیا کہ آپ نے یہاں اور پاکستان کی پولنگ میں کچھ فرق محسوس کیا؟
مَیں تو سارا دن اپنے ملک کے الیکشن قوانین، سیاسی پارٹیوں اور سیاسی ورکروں کے رویوں کا برطانیہ کے قوانین اور لوگوں کے رویوں کا موازنہ کر کرکے تھک چکا تھا اور مایوسی، نااُمیدی اور بدبختی کے احساس نے مکمل جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔ اِن حالات میں اُس خاتون کے سوال سے آنکھوں میں اُترتے آنسوؤں کو جذب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مَیں نے جذبات سے مخمور لہجے میں کہا: ’’ہم بھی ایک دن ایسا کرکے دکھائیں گے۔‘‘ میرا جواب سن کر اُنھوں نے اپنی گاڑی کا شیشہ بند کیا اور یہ کہتے ہوئے اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئی: "We hope see you in the next election.”
یہ برطانیہ والے ہماری طرح کے انسان ہیں اورہماری طرح دماغ رکھتے ہیں۔ ہم بھی اُن کی طرح دماغ کو مثبت طریقے سے استعمال کرکے اُن سے بہتر قوانین بنا سکتے ہیں اور پھر اُن کو اپنے ملک اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔