ترجمہ: ڈاکٹر ابوالخیر کشفی
700 سال قبل لکھی گئی ابنِ خلدون کی یہ تحریر گویا مستقبل کے تصور کا منظر نامہ ہے :
٭ مغلوب قوم کو ہمیشہ فاتح کی تقلید کا شوق ہوتا ہے۔ فاتح کی وردی اور وردی پر سجے تمغے، طلائی بٹن اور بٹنوں پر کندہ طاقت کی علامات، اعزازی نشانات، اس کی نشست و برخاست کے طور طریقے، اس کے تمام حالات، رسم و رواج، اس کے ماضی کو اپنی تاریخ سے جوڑ لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ حملہ آور فاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جس طاقت ور سے شکست کھاتے ہیں، اس کی کمال مہارت پر آنکھیں بند کرکے یقین رکھتے ہیں۔
محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دست بردار ہو جاتا ہے۔ ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔
جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں، تو اُن میں نجومی، بھکاری، منافق، ڈھونگ رچانے والے، چغل خور، کھجور کی گٹھلیوں کے قاری، درہم و دینار کے عوض فتوا فروش فقیہ، جھوٹے راوی، ناگوار آواز والے متکبر گلوکار، بھد اُڑانے والے شاعر، غنڈے، ڈھول بجانے والے، خود ساختہ حق سچ کے دعوے دار، زائچے بنانے والے، خوشامدی، طنز اور ہجو کرنے والے، موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہوجاتی ہے۔
ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں، مگر یقین کوئی نہیں کرتا، جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا، وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے۔ اہلِ ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں۔ نظم و نسق ناقص ہوجاتا ہے۔ گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے۔ ایمان داری کو جھوٹ کے ساتھ، اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے ۔
جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں، تو ہر سو دہشت پھیلتی ہے اور لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں۔ بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں۔ دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے۔ باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے۔ مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملن سار چہرے سطح سے غائب ہوجاتے ہیں۔ حوصلہ افزا خواب نایاب ہوجاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں۔ عقل مند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے۔ لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
مبلغین کے شور شرابے میں دانش وروں کی آواز گم ہوجاتی ہے۔ بازاروں میں ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے اور وابستگی کی بولیاں لگ جاتی ہیں۔ قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہوجاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔
بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رِہ جاتا ہے اور وہ ہے ہجرت، ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے۔ تارکینِ وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے۔ لوگوں کا کل ساز و سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے۔ چراگاہیں ویران ہونے لگتی ہیں۔ وطن یادوں میں اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں۔ (مقدمہ ابن خلدون سے مقتبس)
ابنِ خلدون! خدا آپ پر رحم کرے۔ کیا آپ ہمارے مستقبل کی جاسوسی کر رہے تھے؟ آپ 7 صدیاں قبل وہ دیکھنے کے قابل تھے، جو ہم آج تک دیکھنے سے قاصر ہیں۔ (مترجم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔