تحریک لبیک جس نے بیس دن پہلے اس وقت جنم لیا جب ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی کوشش کی گئی جس پر ملک بھر سے بھرپور رد عمل دیکھنے کو ملا۔ اس کے بعد ختم نبوت کا قانون دوبارہ اسلامی تعلیمات کے مطابق بحال کر دیا گیا تھا اور اسے ایک طرح سے غلطی کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد وزیر قانون اور دیگر ذمہ داران کو عہدے سے برطرف کر کے ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس پر عمل پیرا نہ ہونے کے باعث مولانا خادم حسین رضوی کی سربراہی میں فیض آباد کے مقام پر اپنے مطالبات منوانے کی غرض سے دھرنا دینے کا اعلان کیا گیا۔ اسے ایک طرح سے دھمکی سمجھا گیا اور حکومت کی جانب سے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا رہا کہ دیگر دھرنوں کی طرح کچھ دن بعد یہ بھی اختتام پذیر ہوجائے گا مگر ایسا نہ ہوا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ دھرنے میں شرکاء کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ یوں مطالبات بھی زور پکڑنے لگے۔ بالآخر بات یہاں تک آ پہنچی کہ مقامی لوگوں کا گزر بسر مشکل ہوگیا جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے مذاکرات اور بعد میں ناکامی کی صورت میں آپریشن کا حکم دے دیا۔
کئی دن کے بے نتیجہ مذاکرات کے بعد آپریشن کا آغاز ہو گیا جس میں آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ یوں کئی شرکا زخمی ہوئے اور جوابی کارروائی میں پتھراؤ کے نتیجے میں کئی پولیس اہلکار بھی شدید زخمی ہوئے۔
آپریشن شروع ہو جانے کے بعد پہلے ٹی وی چینلز کو لائیو کوریج سے روک دیا گیا اور بعد میں پی ٹی وی کے علاوہ تمام نیوز چینلز کو بند کر دیا گیا۔ ایسا ایک بار پہلے مشرف کے دور میں بھی ہوا تھا۔ اس عمل کو ایک جمہوری مملکت کی شان کے خلاف تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے آمریت اور جمہوریت میں حائل فرق مٹ جاتا ہے۔ جمہوریت میں بھی اب وہی کام دہرایا جانے لگا ہے جو آمریت میں ہوتا تھا۔ حکومت کے اس اقدام سے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور اس طرح حالات کشیدگی کی طرف بڑھ گئے ہیں۔
دوسری طرف اول دھرنے اور اب آپریشن کے باعث تعلیمی ادارے، ٹرانسپورٹ سروس اور کاروباری مراکز بند کر دئیے گئے ہیں اور ایک طرح سے دھرنے کی حمایت میں ملک گیر احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں جو ایک بڑی تحریک کو جنم دے سکتے ہیں۔ یہ آگے چل حکومت کا چلنا مزید دشوار کر سکتے ہیں۔ حالات خراب ہونے کے باعث فوج کو بھی طلب کر لیا گیا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حالات کو معمول کے مطابق لانا اب حکومت کے بس کی بات نہیں رہی۔ ملکی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی چیف بھی اپنا یو اے ای کا دورہ مختصر کر کے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔
اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ پُرامن مذاکرات کا آپشن سب سے بہتر تھا۔ کیوں کہ اتنے بڑے دھرنے کو اور خاص کر جب وہ مذہبی امور سے متعلق ہو، طاقت کے استعمال سے کسی صورت بغیر جانی و مالی نقصان کے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
آخری اطلاعات تک موٹر وے اور پنجاب کے مختلف علاقوں کو ملانے والی شاہراہیں بند ہیں، فیض آباد انٹرچینج پر تحریک لبیک کے کارکنوں نے 1 گاڑی اور 5 موٹر سائیکلوں کو جلا دیا ہے۔ احتجاج کی وجہ سے میٹرو سروس دوسرے روز بھی بند رہی۔ دوسری طرف تحریک لبیک کے ترجمان کے مطابق پہلے ایک وزیر کے جانے کا مطالبہ تھا، اب پوری کابینہ کو جانا ہوگا۔
اب دیکھتے ہیں کہ اس تمام تر صورتحال کا حل کیا نکلتا ہے؟قوم دعا ہی کرسکتی ہے اور بس۔
……………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔