سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے، جو بہ راہِ راست ٹیلی کاسٹ کی جا رہی ہے۔
سماعت کے دوران میں معزز وکلا کے دلائل، معزز ججوں کے ریمارکس اور تابڑ توڑ سوالات اور سوشل میڈیا پر نت نئے تبصروں کی بہ دولت مختلف سیاسی جماعتوں میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
پی ٹی آئی حمایتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے معزز ججوں کے ایسے ریمارکس جن سے ان کی جماعت کے موقف کو بہ ظاہر تقویت ملتی نظر آئے، اس کی تشہیر زور و شور سے کی جا رہی ہے، جب کہ پی ٹی آئی مخالف سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے معزز ججوں کے ایسے ریمارکس جس سے پی ٹی آئی/ سنی اتحاد کونسل کے موقف کی بہ ظاہر نفی نظر آئے اس کی تشہیر جاری و ساری ہے۔
باوجود اس کے مخصوص نشستوں کا مقدمہ سیاسی سے زیادہ ’’آئینی و قانونی‘‘ ہے۔
پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور مخصوص نشستوں کے موضوع پر اپنی گذشتہ تین معروضات ’’اندرشیر باہر ڈھیر‘‘ اور ’’سپریم کورٹ فیصلہ کے 20 نکات‘‘ اور ’’مخصوص نشستوں سے محرومی کا ذمے دار کون؟‘‘ میں چند حقائق منظرِ عام پر لانے کی ادنا سی کوشش کی تھی اور یہ عرض کیا تھا کہ پی ٹی آئی نووارد افراد کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے۔
پارٹی کی موجودہ قیادت کی اکثریت وکلا حضرات پر مشتمل ہے، مگرافسوس ایسے سینئر اور فاضل وکلا کے ہوتے ہوئے بھی ہر آئینی و قانونی محاذ پر پی ٹی آئی کو منھ کی کھانی پڑ رہی ہے۔
سپریم کورٹ بہ راہِ راست ٹیلی کاسٹ ہونے والی سماعت کی بہ دولت یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ٹی وی چینلوں کے کیمروں کے سامنے بڑھکیں مارتی پی ٹی آئی قیادت کمرائے عدالت میں آئینی و قانونی سوالات کے جوابات دینے سے قاصر نظر آتی ہے۔ ان فاضل وکلا کو انتخابی نشان کے متعلق الیکشن ایکٹ، 2017ء کے باب نمبر 12 اوراس میں درج دفعات 214 تا 218 اور مخصوص نشستوں کے متعلق آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 106 اور آرٹیکل (6)224 کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ کے باب نمبر 7 اور اس کی دفعہ 104 اور الیکشن رولز 2017ء کی دفعات 92 اور 94 کا مطالعہ کرنے سے کس نے روکے رکھا تھا؟
دیگر متعلقہ مضامین:
مخصوص نشستوں کا حصول
کیا عمران خان دوسرے بھٹو بننے جا رہے ہیں؟
مریم نواز شریف کا نیا روپ
نواز شریف کو اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ لے ڈوبی
اہنے وہ کام جو پیپلز پارٹی کیش نہ کراسکی
مخصوص نشستوں سے محرومی کا ذمے دار کون؟
ان دفعات میں واضح طور پر درج ہے کہ مخصوس نشستیں صرف اُس سیاسی جماعت کو الاٹ کی جاتی ہیں، جو سیاسی جماعت اپنے انتخابی نشان کے تحت انتخابات میں حصہ لے کر اسمبلیوں تک پہنچے۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 206 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو شفافیت سے نشستوں کے لیے لسٹ دینی ہوتی ہے، لیکن اس سے زیادہ اور کیا مضحکہ خیز بات ہوگی کہ ’’سنی اتحاد‘‘ کی طرف سے کسی امیدوار نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ اسی سبب خواتین کی لسٹ موجود نہیں اور نہ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی یعنی خود سنی اتحاد کونسل کے امیدواروں نے قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بہ طور جماعت حصہ نہیں لیا اور حد تو یہ ہے کہ ’’سنی اتحاد کونسل‘‘ کے پارٹی چیئرمین صاحب زادہ حامد رضا نے پارٹی ٹکٹ/ نشان کی بہ جائے بہ طور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا تھا۔
کیا پی ٹی آئی کے فاضل وکلا نے اپنے آزاد ممبران اسمبلی کے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے پہلے آئین و قانون کی مذکورہ دفعات کے مطابق معاملات کو پرکھ لیا تھا، یا پھر شمولیت اختیار کرنا جلدبازی یا جذباتی فیصلہ تھا؟ اِس وقت پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے معزز وکلا کو سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے دوران میں معزز ججوں کی جانب سے انھی سوالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کرہ حکم نامے میں بہت ہی اہم قانونی ضرب المثل کا ذکر کیا گیا تھا کہ "Law is for the vigilant not the indolent.” سادہ الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ یہ طے شدہ بات ہے کہ قانون چوکس شخص کی مدد کرتا ہے نہ کہ بے خبر/ نادان شخص کی۔
بہ حیثیت قانون کے ایک طالب علم، مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ آئینِ پاکستان اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق فروری 2024ء کے انتخابات میں جیت کر پہنچنے والے سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی ممبران کی حیثیت صرف اور صرف آزاد ممبرپارلیمنٹ ہی کی ہے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ آئین و الیکشن قوانین کی روشنی میں حقائق پر مبنی تھا اور قوی امکان یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کا مخصوص نشستوں کا حکم نامہ سپریم کورٹ میں بھی برقرار رہے گا۔
ہوسکتا ہے کہ کچھ معزز ججوں کی جانب سے اختلافی نوٹ بھی آئے کہ نئی قانون سازی تک مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ معطل رکھی جائے، کیوں کہ خیبر پختونخوا میں اپوزیشن جماعتوں کو ان کی عددی قوت کے برعکس زائد مخصوص نشستوں کے ملنے کا امکان ہے۔
یاد رہے سنی اتحاد کونسل عدالتوں میں مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے تگ و دو میں مصروفِ عمل ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس جماعت نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت انتخابات کے انعقاد سے پہلے مخصوص نشستوں کے لیے اپنے امیدوران کی ترجیحی فہرست ہی الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائی تھی۔
کیا ہی بہتر ہوتا اگر سنی اتحاد کونسل کی بہ جائے اسمبلیوں میں اُن جماعتوں میں شمولیت اختیار کی جاتی جن کی اسمبلی میں موجودگی ثابت ہوچکی تھی، جیسا کہ ’’مجلس وحدت المسلمین پاکستان‘‘ یا ’’مسلم لیگ ضیا‘‘ یا ’’جمعیت علمائے اسلام‘‘ تو یقینی طور پر مخصوص نشستوں کے حصول میں اس طرح رسوا نہ ہونا پڑتا۔
بہ طور قانون و سیاست کے طالب علم مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ انتخابی نشان اور مخصوص نشستوں سے محرومی کی ذمے دار خود پی ٹی آئی لیڈرشپ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔