مینگورہ شہر میں جب تعلیم کا شعور دوسری بار اُجاگر ہوا، تو اس میں مادیت نمایاں تھی۔ سائنس کی مدد سے ڈاکٹر بننا، ورنہ انجینئر بننا تو طے تھا…… اور جس نے نہیں پڑھنا، یا گھر والوں کو زیادہ معلومات نہیں تھی، وہ آرٹس لینے لگے۔ پھر سب سے بڑا معرکہ دسویں کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنا ہوتا۔
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
ٹیوشن ایک لازمی ہتھیار بنا اور چینہ ڈاگ مینگورہ ایک طرح سے میدان۔ تب چینہ ڈاگ میں غوری چینہ کے ساتھ ایک جوتوں کی دُکان کے علاوہ کسی قسم کی جوتوں، کپڑوں کی دُکانیں نہیں تھی۔ خواتین خریداری کے لیے سیدو بابا مارکیٹ جاتیں۔
غوری چینہ سے حاجی بابا کی طرف جاتے ہوئے ایک بیکری کے اوپر ایک بیٹھک نما کمرے میں زمین پر ترتیب سے ہر چیز سجی ہوتی۔ بارعب، با وقار، انتہائی کم گو، لائق استاد عصر سے رات گئے بیٹھتے اور گروہ در گروہ طلبہ ٹیوشن لینے جاتے۔
اُستاد صاحب جانے والوں کو رخصت کرتے اور آنکھ کے اشارے سے آنے والوں کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے۔ سائنس کے مضامین پر اُن کو اچھا خاصا عبور تھا۔
غصہ کرتے تو نہ چیختے نہ مارتے، بلکہ اتنی باتیں سناتے کہ سننے والا ہلنے جلنے کے قابل نہ رہتا۔ پروٹوکول کو بالکل پسند نہ کرتے، سنجیدہ رہتے اور کبھی ہنسنا ہوتا، تو یوں ہنستے کہ آنکھیں بند کردیتے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
بزوگر حاجی صاحب
ملوک حاجی صاحب، ایک سچا دوست
صنوبر اُستاد صاحب
کچھ ناخواندہ ماہرِ تعمیرات عبید اُستاد کے بارے میں
عبدالروف طوطا اور ڈاکٹر نجیب صاحب سے جڑی یادیں
جی ہاں بات ہو رہی ہے اکرم استاد صاحب (مرحوم) کی، جنھوں نے پہلے نشاط چوک میں موجودہ ’’پنجاب بیکری‘‘ کے اوپر ٹینٹ لگا کر ٹیوشن دینا شروع کیا۔ اُس وقت اُس جگہ امیر بدابدا کا ہوٹل تھا۔ بعد میں چینہ مارکیٹ منتقل ہوئے، جو ایک پُرسکون اور رش سے دور جگہ تھی۔
اکرم اُستاد صاحب (مرحوم) کے دادا شفیع چاچا مینگورہ سے جامبل کوکارئی ’’گٹو‘‘ (پرانی گاڑیوں کی ایک قسم) چلاتے تھے۔ پھر اُن کے والد صاحب عبدالغفار استاد (مرحوم) اپنے وقت کے بہترین ڈرائیور تھے۔
اکرم استاد صاحب کے بھائی محمد نسیم نے خوب محنت مزدوری کی۔ کھیر کا سٹال لگاتے تھے۔
اکرم استاد صاحب کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ وقت نکال کر پڑھتے۔ غریبی اور محنت کشی نے اجازت نہیں دی اور استاد کے منصب پر فائز ہوگئے۔ کریم بخش اُن کے چھوٹے بھائی بھی بھائی نسیم کے ساتھ محنت کرتے۔ بعد میں اُن کو بھی پڑھنے کا شوق ہوا۔ پڑھ لکھ کر وہ بھی شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ آخری وقت تک ’’خوڑ جمات‘‘ (خوڑ مسجد) اختر قصاب کی بیٹھک میں ٹیوشن دیتے رہے۔
اکرم استاد صاحب کے شاگردوں میں اکثریت ڈاکٹروں اورانجینئروں ہی کی ہے اور جو ڈاکٹر اور انجینئر نہ بن سکے، اُنھوں نے معاشرے میں ممتاز مقام حاصل کیا۔
اکرم اُستاد صاحب (مرحوم) خوددار انسان تھے۔ مناسب اور برائے نام معاوضہ لیتے تھے اور اگر ٹیوشن میں خود چھٹیاں کرتے، یا طالبِ علم کسی وجہ سے زیادہ چھٹیاں کرتے۔ فالتو چھٹیوں کے تناسب سے فیس واپس کر دیتے۔ رکھ رکھاو اور بڑے رکھ رکھاو والے انسان تھے، لفافے میں رسید دیتے، لفافے میں فیس لیتے اور لفافے ہی میں واپس کرنا ہوتا تو واپس کرتے ۔
مرحوم جماعت نہم و دہم کے طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے۔ مَیں (راقم) اور جہان عالم آٹھویں جماعت میں تھے، جب جہان عالم کے والد (مرحوم طوطا) مجھے اور جہان عالم کو اُن کے پاس لے گئے، اور داخل کروایا۔ ہم ایک سال تک ان سے پڑھتے رہے ۔
لنڈیکس کی شان اور ہمارے محسن ایک طویل عرصے تک حاجی بابا سکول مینگورہ نمبر 2 اور ٹیوشن پڑھاتے اصلی معنوں میں قوم کی تعمیر کرتے رہے۔ اللہ تعالا ان کی قبر نور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔