بچوں کو روبوٹ نہ بنائیں

Blogger Rafi Sehrai

گذشتہ دس بارہ سال سے تعلیمی میدان میں ایک عجیب ریس لگی ہوئی ہے۔ نمبروں کی بھوک نے بچوں کو روبوٹ بنا کر رکھ دیا ہے۔ رشتہ داروں میں مسابقت کی دوڑ نے عجیب ہنگام مچا رکھا ہے۔ بچوں کو ٹارگٹ دیا جاتا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، چچا کی بیٹی یا ماموں کا بیٹا تم سے آگے نہ نکلنے پائے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض والدین باقاعدہ ایپروچ کرکے چھوٹے بچوں کے مارکس بڑھواتے ہیں۔ ٹیچرز کو تحائف دیے جاتے ہیں۔ اُنھیں مارکس زیادہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر پوری برادری اور خاندان میں بچے کی ذہانت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ایک اور رواج بچے کو تین تین جگہ ٹیوشن پڑھانے کا چل نکلا ہے۔ مولوی صاحب قرآن مجید کی ہوم ٹیوشن پڑھانے کے لیے گھر میں آتے ہیں۔ چھوٹے بچے بھی سکول کے بعد کسی اکیڈمی میں دو سے تین گھنٹے پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد شام کو ہوم ٹیوشن کے لیے ٹیچر کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ بچوں کو مشین بنا دیا گیا ہے۔ کھیل کود کو وقت کا زیاں اورتعلیم کو بہتر مستقبل کا ضامن قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بات والدین کو سمجھانے والا کوئی نہیں کہ پڑھائی کے لیے صحت مند دماغ کی ضرورت ہوتی ہے اور صحت مند دماغ کے لیے جسم کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔ آؤٹ ڈور کھیل رہے ایک طرف، بچوں کو تو گھر میں لڈو کھیلنے کا وقت بھی نہیں ملتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی تھکاوٹ کی نسبت ذہنی تھکاوٹ انسان کی صحت پر برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ جسمانی مشقت کے مقابلے میں ذہنی مشقت انسان کو جلد تھکا دیتی ہے۔ ہمارے ہاں والدین اس طرف بالکل ہی توجہ نہیں دیتے۔ ہر وقت کتابی کیڑا بنے رہنے کی وجہ سے بچے اِرد گرد کے حالات و واقعات سے بھی بے خبر ہو کر آہستہ آہستہ ڈھیر سارے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نظر کی کم زوری، کمر کی ہڈی کا ٹیڑھا پن، مستقل سر درد اور چڑچڑاپن عام قسم کے عوارض ہیں جن میں بچوں کی اکثریت مبتلا ہو رہی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک دوست کا بیان کردہ واقعہ ملاحظہ کرتے جائیں: ’’شکیل صاحب میرے کولیگ ہیں۔ چند ہفتے پہلے ایک شام مجھے کہنے لگے: ’یار مجھے گھر جلدی جانا ہے اور وین دیر سے پہنچائے گی۔ اگر وقت ہے، تو مجھے گھر چھوڑ دو!‘ مَیں نے حامی بھر لی۔ راستے میں اُنھوں نے بتایا کہ دراصل بیٹی کا ہوم ورک لوڈ کافی ہے، اس لیے جلدی جانا ہے اُس کی مدد کرنا ہے۔ گھر پہنچنے پر اُنھوں نے اصرار کیا کہ کھانا کھا کر جائیں اور بیٹھک کا دروازہ کھول دیا۔ چند لمحوں بعد وہ فریش ہو کر اپنی بیٹی کے ہم راہ تشریف لائے، جس کی ہوم ورک میں اُنھوں نے مدد کرنا تھی کہ ساتھ ہی یہ کام بھی شروع ہو جائے۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
ریاستِ سوات کا نظامِ تعلیم 
جرمنی کا نظامِ تعلیم  
یہ ہمارا فرسودہ نظامِ تعلیم  
سرکاری تعلیمی اداروں کے نتائج خراب کیوں؟
سی ایس ایس رزلٹ، تعلیمی زبوں حالی کا منھ بولتا ثبوت  
اب یہاں یہ عقدہ کھلا کہ سکول کا ہوم ورک نہیں، بل کہ بیٹی سکول سے قریباً دو بجے گھر پہنچتی ہے اور کھانا کھانے کے بعد تین بجے اکیڈمی پڑھنے جاتی ہے۔ اکیڈمی سے شام سات بجے چھٹی ہوتی ہے۔ گھر پہنچنے میں ساڑھے سات بج جاتے ہیں اور اس کے بعد سکول کا ہوم ورک کرنا ہوتا ہے۔ پھر اکیڈمی کا ہوم ورک اوراس کے بعد کچھ دیر اسٹڈی۔ اگر اگلے دن اکیڈمی یا سکول میں کوئی ٹیسٹ ہو، تو اس کی تیاری کی جاتی ہے۔
جس وقت ہم یہ گفت گو کر رہے تھے تو رات کے قریب 9 بجے کا وقت تھا، یعنی بیٹی نے ابھی اسٹڈی کرنا تھی۔ رات کا کھانا کب کھایا جاتا ہے اور بیٹی نے سونا کب تھا یہ نہیں معلوم۔
شکیل صاحب نے کئی طرح کے کھانے میز پر چُن دیے لیکن یقین جانیں میں بہ مشکل چند نوالے مروّتاً ہی حلق سے نیچے اتار پایا۔ شکیل صاحب کی زبان فخر سے تیز تیز چل رہی تھی۔ میری چھٹی جماعت کی بیٹی نے فُلاں فُلاں پوزیشن لے رکھی ہے۔ فُلاں فُلاں جگہ ٹیسٹ میں انعام جیتا ہے، لیکن چہرے پر لڑکپن کی تمام شوخی سے عاری معصوم بچی مجھے ایک ایسی مشین لگ رہی تھی جسے ڈیڑھ سو فی صد کی کپیسٹی پر چلایا جا رہا ہے اور مشین کے استعمال کنندہ لہک لہک کر سب کو بتا رہے ہیں کہ بھائی جان اس ماڈل نے تو تباہی پھیر دی ہے۔
گھر سے نکلتے ہوئے مَیں نے سوال کیا کہ شکیل صاحب پریشانی کا حل کیا ہے؟ تو کہنے لگے، یار! حل تو سوچ لیا ہے۔ آج کل ہوم ٹیوٹر دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ بیٹی کے لیے کوئی رات کو ہوم ٹیوٹر رکھ لوں گا۔ کچھ پڑھا بھی دے گا اور ہوم ورک میں ہیلپ بھی کروا دے گا۔ مَیں خاموشی سے ہاتھ ملا کر شکیل صاحب کے گھر سے نکل آیا، لیکن ایک سوال پورا راستہ میرے ذہن میں کلبلاتا رہا کہ اگر ہوم ٹیوٹر نے بھی کوئی ہوم ورک دے دیا، تو شکیل صاحب کیا کریں گے؟‘‘
یہ صرف شکیل صاحب کا مسئلہ نہیں۔ اس کا ذمے دار پاکستان کا وہ تعلیمی نظام ہے، جس میں ہم والدین چاہتے ہیں کہ بچے کو بیلن میں گنے کی طرح ٹھونس کر اس کو دو دو بار گھسیڑیں کہ آخری بوند تک رَس کو نچوڑ سکیں۔
تعلیمی ادارے تو کاروباری گروپ ہیں۔ ان کے لیے تو آپ کی اولاد ایک گاہک ہے۔ ہر تاجر کی طرح وہ گاہک حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ کی اولاد آپ کا تو خون ہے۔ اس کو کیوں آپ کوہلو میں نچوڑوانا چاہتے ہیں؟
بات کچی جماعت سے پکی جماعت میں جانے سے شروع ہوئی تھی۔ اب پکی (پہلی جماعت) سے پہلے پہلے تین جماعتین بن چُکی ہیں: پلے گروپ، نرسری گروپ اور پریپ۔ میری ایک عزیزہ جو ایک اعلا اور برینڈڈ ادارے میں پڑھاتی ہیں، نے نئی بات بتائی کہ ہماری شاخ میں تو ایجوکیشن مزید ایڈوانس ہے۔ وہاں ’’ٹوڈلرز‘‘ نامی کلاس ہے، جس میں آٹھ ماہ کا بچہ بھی اہل ہے۔ خدا کا خوف کرو ایسا ظلم تو بھٹے پر کام کرتے بچوں کے ساتھ بھی نہیں ہو رہا۔ کیوں کہ اس کو تو ہر کوئی ظلم کہتا ہے۔ سیکڑوں این جی اُوز اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں…… لیکن شاید اِس ظلم کو خود این جی اُوز کے مالکان سکول کھول کر کر رہے ہیں۔
خدارا! اپنے بچوں پر رحم کیجیے۔ ان پر ترس کھائیے۔ انھیں روبوٹ نہ بنائیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ روبوٹ ہی کی طرح جذبات و احساسات سے عاری ہو جائیں۔ یقین جانیے یہ تعلیمی مشقت ’’چائلڈ لیبر‘‘ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے