تہذیب یا بربریت؟

Blogger Hamza Nigar

جرمن فلسفی ’’والٹر بِنیامن‘‘ نے کہا تھا کہ تہذیب کی ہر یادگار، بربریت کی یادگار ہے۔
اپنے آپ کو باقی دنیا کے لوگوں سے مختلف سمجھنے کو تہذیب کا نام دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تہذیب انفرادیت اختیار کرگئی اور ان اصولوں کو جن کے اوپر تہذیب بنی ہے، اس کے ماننے والوں کو مہذب کا درجہ ملا۔ کولونیل دور میں مقامی لوگ جو انگریزی چال چلن کرتے اُنھیں ’’بابو‘‘ کہتے تھے۔ یہی بابو اپنے آپ کو اپنے ہم وطنوں سے الگ اور تہذیب یافتہ تصور کرتے۔ یوں تہذیب ایلیٹ کلاس کے لیے شناخت اور باقی طبقات کے لیے اذیت بن گئی۔
حمزہ نگار کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/hamza/
ہندوستان میں قدیم تہذیبیں آباد تھیں۔ تہذیبوں کی یہ تاریخ 9000 قبلِ مسیح تک جاتی ہے…… جن میں مہر گڑھ کی تہذیب سب سے پرانی ہے، جس کے کھنڈرات بلوچستان میں پائے گئے ہیں۔ وادئی سندھ کی تہذیب بھی 5000 سال پرانی ہے۔ یہ تہذیبیں کیسے وجود میں آئیں، ان تہذیبوں سے پہلے یہاں کون لوگ تھے اور ان کا بود و باش کیا تھا؟ اس کی کوئی تاریخ موجود نہیں۔
افغانستان میں 5000 قبلِ مسیح وادئی ہلمند کی تہذیب تھی۔ چین میں ہزاروں برس پرانی تہذیبیں آباد تھیں۔
بعد میں آنے والی تہذیب اپنے جوہر میں متشدد ہے۔ ہندوستان میں جب آرین آئے، تو یہاں کے مقامی لوگ (دراوڑی) کو مغلوب کیا۔ اپنے ساتھ سنسکرت اور ہندواِزم لانے والے آرین یہاں کے مقامیوں کو یہ اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ سنسکرت میں وید پڑھیں۔ ورن (مطلب رنگ) کی بنیاد پہ یہاں پہ ’’جاتی نظام‘‘ (Caste System) بن گیا۔ جس میں آرین برہمن، کشتری، ویش بنے اور باقی شودر اور دِلت۔
آرین کی یہ تہذیب ہندوازم اور سنسکرت زبان کا اشتراک تھی، جس سے مقامی لوگ محروم تھے۔ اگر کوئی کہے کہ ہندوستان کی وجہ سے دنیا کو مہا بھارت، رامائن، منوسمرتی یا پھر والمیکی، وتسیا، کالی داس اور کوٹلیہ چانکیہ ملے، تو ضرور ملے ہوں گے…… لیکن یہاں کہ اپنے مقامی دراوڑیوں کو کچھ نہیں ملا۔ قدیم ہندوستان کو آریہ ورتہ یا برہما راشترا کے نام سے جانا جاتا تھا، جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ہندوستان صرف برہمن/ آرین کی ایک بڑی بستی تھی۔ وہ تو بھلا ہو گوتم بدھ کا جنھوں نے سنسکرت پہ پنڈت کی اجارہ داری ختم کی۔
تقسیمِ ہند کے بعد بھارت کا پہلا وزیرِ قانون بھیم راؤ امبیدکر تھا، جس کو بھارت کے آئین کا معمار بھی کہا جاتا ہے۔ سیکولر آئین کے باوجود دِلت رہنما اپنے 3 لاکھ دِلت ساتھیوں کے ساتھ بدھ مت پیروکار بن گیا۔ وجہ برہمن اور نچلے طبقات کے بیچ نہ ختم ہونے والا نا ہم وار رشتہ تھی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
دین، تہذیب اور ثقافت (قاضی فضل اللہ) 
تاریخ دشمنی (ڈاکٹر سلطانِ روم)  
تہذیبوں کا تصادم اور مکالمہ (زبیر توروالی)  
برصغیر کی تہذیب پر مسلمانوں کے اثرات (عبد المعین انصاری) 
گاندھی جی ساری عمر رام راجیہ کے خواب دیکھتے رہے، لیکن برہمن کی اجارہ داری پہ خاموش ہی رہے۔ ہندوستان کے شمال مشرق کے رہنے والو کو بھی "Chinki” کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے خط و خال میں چائنیز سے ملتے ہیں۔ شمال مشرق کے سات صوبوں میں جن میں میغالیہ، منی پور، میزورام، ناگا لینڈ، اروناچل پرادیش، تری پورہ اور آسام آتے ہیں…… یہ علاقے بھی وید تہذیب سے باہر ہی سمجھے جاتے ہیں۔
ہندوستان میں آرین اور دراوڑیوں کی یہ تقسیم اب بھی ہے۔ آج دیکھا جائے، تو شمالی ہندوستان جہاں آرین نسل کے لوگ ہیں، وہ متشدد ہیں۔ جو ہزاروں برس دِلت کے ساتھ ہوا، وہ آج مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، جب کہ جنوبی ہندوستان پُرامن اور روادار ہے۔ ہندی والے شمالی ہندوستان کے برہمنوں سے زیادہ روادار ہیں۔ یہاں کے تیلگو، ملیالم اور تامل بولنے والے دراوڑی نسل سے ہیں۔
ہندوستان میں ایک نوجوان جو ’’ڈولی چائے والے‘‘ کے نام سے مشہور ہے، جس کے پاس بل گیٹس چائے پینے رُکا تھا اور راتوں رات مشہور ہوا تھا، لیکن چوں کہ یہ نوجوان دِلت ہے، اس لیے اس کو چپری (Derogatory Term) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جب کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ماضی میں چائے بیچنے کو "Glamourise” کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ مودی صاحب ایک برہمن خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہندوستان کے علاوہ باقی دنیا میں بھی تہذیبوں کے نام پہ لوگوں کو مغلوب کیا گیا۔ یورپین تہذیب کے نام پہ دنیا کے کئی خطوں کو یورپی لوگوں نے آباد کیا۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور امریکہ میں آنے والے یورپین لوگ اپنی تہذیب کی وجہ سے خود کو بر تر اور وہاں کے اصل باشندوں کو کم تر سمجھتے تھے۔ 55 لاکھ کے قریب مزدوروں کو افریقہ سے امریکہ بھیجا گیا، جن کو ’’غلام‘‘ کا درجہ ملا۔ یہ تہذیب کپڑوں سے لے کے کھانے کی میز پر ’’فورک اینڈ نائف‘‘ تک جاتی تھی۔ آج بھی اگر کوئی ہاتھ سے چاول کھاتا ہے، تو اس سے کراہت محسوس کی جاتی ہے۔ یہ وہ احساسِ کم تری ہے، جو مغلوب اقوام میں ’’انجیکٹ‘‘ کی گئی ہے۔
یورپین کے آنے سے پہلے لاطینی امریکہ میں تین بڑی تہذیبیں تھیں، جن میں "Incas”, "Maya”اور "Aztecs” آتے ہیں۔ یہاں آنے کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی زبان کی جگہ ہسپانوی اور انگریزی زبان نے لی۔ نہ صرف اُن کی زبان اور رہن سہن گیا بلکہ اُن کو لوٹا گیا اور پھر مغلوب بھی کیا گیا۔ یہ سب کچھ یورپی تہذیب کے نام پہ ہوا۔ آج بھی لاطینی امریکہ میں ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے اور جو انگریزی امریکہ میں بولی جاتی ہے، وہ وہاں کی ریڈ انڈین کی زبان تھی ہی نہیں۔
تہذیب اور کلچر کا فرق صرف شہری اور دیہی کا نہیں۔ دنیا کا کوئی کلچر "Oppressive” نہیں۔ ہم کلچر میں مہمان نوازی، بھائی چارے اور انسانوں کو جوڑتے دیکھتے ہیں، جب کہ تہذیب انسانوں کو تقسیم کرتی ہے۔ یورپی اور ایشیائی اقوام میں تقسیم ’’جغرافیائی‘‘ نہیں بلکہ ’’تہذیبی‘‘ ہے۔
امریکی سکالر "Samuel Hungtinton” تو تہذیبوں کے تصادم کی بات بھی کرتا ہے۔ یہ تصادم تب آتا ہے، جب ایک تہذیب پوری دنیا پہ حاکمیت کا دعوا کرے۔
تہذیب صدیوں کا نچوڑ ہوتی ہے، لیکن اگر کسی تہذیب سے کچھ اقوام مغلوب ہوتی ہیں، تو وہ تہذیب نہیں بربریت ہوتی ہے۔ چاہے وہ مغلوب قوم ہندوستان کے دراوڑی ہو یا امریکہ کے ریڈ انڈین یا پھر افریقی۔
وہ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ پوری انسانی تاریخ تین الفاظ میں بیان ہوسکتی ہے: "civilisation, Colonisation and Exploitation” تہذیب سے شروع ہونے والی کہانی بالآخر استحصال پہ جا کر ختم ہوجاتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے