قارئینِ کرام! عید سے ایک ہفتہ قبل 3 اپریل کو مَیں اپنے کالم بہ عنوان ’’اک زرداری سب پہ بھاری‘‘ میں پیش گوئی کرچکا ہوں کہ عید کے بعد پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل ہوجائے گی۔ اسی کالم میں، مَیں نے جناب اسحاق ڈار کے ڈپٹی وزیرِ اعظم بننے کی پیش گوئی بھی کی تھی، جسے یار لوگوں نے میری خواہش سے تعبیر کیا تھا، لیکن میری یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔ 28 اپریل بہ روزِ اتوار کو کابینہ ڈویژن نے ڈپٹی وزیرِ اعظم کے طور پر جناب اسحاق ڈار کے تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق وہ تا حکمِ ثانی ڈپٹی وزیرِ اعظم رہیں گے۔ یہ تا حکمِ ثانی حکومت کی مدت تک طویل بھی ہو سکتا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
میرے ایک شاگرد ایڈوکیٹ بلال ملک نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’’آئین میں ڈپٹی وزیرِ اعظم کے تقرر کا کوئی ذکر نہیں۔ قانونی طور پر اس عہدے کی اہمیت نہیں ہوگی۔ یہ تقرر آئینی نہیں بلکہ انتظامی ہے۔‘‘
بہ ہرحال حقیقت یہ ہے کہ جناب اسحاق ڈار ڈپٹی وزیرِ اعظم بن چکے ہیں۔ البتہ نوٹیفکیشن میں ڈپٹی وزیرِ اعظم کا کردار واضح نہیں کیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اُنھیں کوئی مخصوص ذمے داریاں سونپ دی جائیں۔ کیوں کہ ملک میں وزیرِ اعظم کی عدم موجودگی میں ایکٹنگ وزیرِ اعظم کے فرائض ادا کرنے کے لیے تو اُنھیں نہیں لایا گیا ہوگا اور نہ وہ اس قسم کی ذمے داری قبول کرنے کی ہامی ہی بھر سکتے ہیں۔
اسحاق ڈار کے تقرر کو لے کر بہت سی چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ چوں کہ وہ اقتصادی اُمور کے ماہر ہیں اور میاں نواز شریف کی شدید خواہش کے باوجود وہ وزیرِ خزانہ نہیں بنائے جاسکے، لہٰذا وزارتِ خزانہ پر نظر رکھنے کے لیے اُنھیں یہ عہدہ دیا گیا ہے۔ وہ اس وزارت بلکہ تمام وزارتوں کے امور میں مداخلت کرسکیں گے۔
اسحاق ڈار پہلی دفعہ 1998ء میں نواز لیگ کی حکومت میں وزیرِ خزانہ بنے تھے۔ 2013ء سے 2018ء کی نواز لیگ حکومت میں بھی وہ وزیرِ خزانہ رہ چکے ہیں۔ اُس دور میں میاں نواز شریف کے بعد وہ سب سے زیادہ بااختیار وزیر سمجھے جاتے تھے۔ متعدد بار وزیرِ خزانہ بننے والے اسحاق ڈار اس مرتبہ یہ عہدہ نہ لے سکے۔ اُنھیں ایک اور طاقت ور اور اہم وزارت سونپی گئی ہے، یعنی وہ وزیرِ خارجہ بنا دیے گئے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
آخری موقع
قسمت کے دھنی
مریم نواز اور تتے توے پر جلتی مخلوق
ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اور امریکی خفگی کی اصل وجوہات
ایک اور طبقے کا کہنا ہے کہ چوں کہ اسحاق ڈار اپنے پارٹی لیڈر میاں نواز شریف کے سب سے زیادہ قریب اور انتہائی معتمد ساتھی ہیں، لہٰذا میاں نواز شریف نے پنجاب کے بعد مرکز میں بھی اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اُنھیں یہ عہدہ دلوایا ہے۔ اگر واقعی یہ بات سچ ہے، تو پھر یہ بڑا خطرناک فیصلہ ہے۔ کیوں کہ میاں نواز شریف کے پنجاب اور وفاق میں بہت زیادہ کردار کی وجہ سے اُن کی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات خراب بھی ہوسکتے ہیں۔ میاں شہباز شریف کی مفاہمانہ پالیسی کے برعکس جناب اسحاق ڈار جارحانہ مزاج کے حامل ہیں۔
ایک تاثر یہ بھی دیا جا رہا ہے کہ شاید شہباز شریف اکیلے حکومت نہیں چلاسکتے۔ اُن کا بوجھ بانٹنے کے لیے جناب اسحاق ڈار کو لایا گیا ہے کہ چوں کہ میاں شہباز شریف کی بہت زیادہ مصروفیات کی وجہ سے وہ پارٹی کے ایم این ایز اور سینیٹرز کے علاوہ سرکردہ کارکنان کو وقت نہیں دے پاتے، اس لیے اُنھیں ’’اکاموڈیٹ‘‘ کرنے اور اُن کے کام کروانے کے لیے اسحاق ڈار کو لایا گیا ہے۔
اس کے لیے یہ دلیل بھی دی جا رہی ہے کہ 2024ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے انتخابی سیل کے سربراہ جناب اسحاق ڈار تھے۔ وہ ذاتی طور پر پارٹی کے تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز کے علاوہ ہارنے والے امیدواروں کو بھی جانتے ہیں، لہٰذا وہ اُن کے اُمور کو بہتر انداز میں دیکھ سکیں گے۔
ان سب توجیہات کے برعکس راقم اپنے گذشتہ کالم کی دوسری پیش گوئی پر ابھی تک قائم ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ڈپٹی وزیرِ اعظم بننے کے بعد جناب اسحاق ڈار خارجہ امور پر کماحقہ توجہ دے پائیں گے۔ زود یا بدیر اُنھیں وزارتِ خارجہ چھوڑنی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ وزارتِ خارجہ کا عہدہ جناب بلاول بھٹو زرداری کو دیا جائے گا۔ وہ پہلے بھی اس عہدے پر رِہ چکے ہیں۔ کوئی کم طاقت ور وزارت وہ قبول نہیں کریں گے۔ اُن کے شایانِ شان دوسری بڑی وزارت داخلہ امور کی ہے۔ اُس وزارت پر ایک تگڑی ہستی جناب محسن نقوی تعینات ہیں، جنھیں وزیرِ اعظم اُن کے عہدے سے ہٹانے کا رسک نہیں لے سکتے۔ اب دو ہی آپشنز باقی تھے کہ بلاول بھٹو کو وزیرِ خارجہ بنایا جائے، یا ڈپٹی وزیرِ اعظم کا عہدہ اُنھیں دیا جائے۔ اِس صورتِ حال میں سارا منظر واضح ہو جاتا ہے کہ جناب اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیرِ اعظم کا عہدہ جناب بلاول بھٹو کو وزیرِ خارجہ بنانے کے لیے دیا گیا ہے۔ کیوں کہ اسحاق ڈار کے لیے دیگر دو بڑی وزارتوں یعنی داخلہ اور خزانہ کا حصول ممکن نہ تھا، اور اُن وزارتوں سے ہٹ کر باقی وزارتیں اُن کے شایانِ شان نہیں۔ لہٰذا اُن کے لیے ڈپٹی وزیرِ اعظم کا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے۔
قبل ازیں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں جناب پرویز الٰہی بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں، تاہم اُن کا یہ عہدہ علامتی ہی تھا۔ اس منصب پر رہ کر سوائے پروٹوکول انجوائے کرنے کے ان کا کوئی کام نظر نہیں آتا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
