1942ء میں جب کانگرسی اصحاب کے ساتھ راقم الحروف بھی نظر بند کر دیا گیا، تو جیل میں سوائے کتابیں پڑھنے کے دوسرا کوئی کام نہ تھا۔ تو دہلی کے ایک کانگرسی بزرگ شری برج کرشن جی چاندی والا (جو مہاتما گاندھی کے سچے بھگت اور جو غالباً دہلی کے تمام کانگریسیوں سے زیادہ نیک ہیں اور پبلک کے بے غرض خادم ہیں)، نے ایک چھوٹی سی کتاب ’’منگل پر بھات‘‘ دی، جو مہاتما گاندھی کی تصنیف ہے۔
یہ کتاب انسان کے کریکٹر کو بلند کرنے کے اعتبار سے ایک لاجواب تصنیف ہے۔ شاید 16 یا 20 صفحے کا چھوٹا سا پمفلٹ ہے کہ جس کے ایک ایک صفحہ، ایک ایک سطر، ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف پر جواہرات قربان کیے جاسکیں۔
سردار دیوان سنگھ مفتون کی دیگر تحاریر:
دیوان سنگھ مفتون کی ایک پرانی تحریر
جہالت میں ڈوبے ہوئے لوگ
محبت جگانے کا راز
وضع داریاں
معقولیت باعثِ اطمینان
دریاوں کے پانی کا مہمان نوازی پر اثر
عورت اور بناو سنگار
اس تصنیف میں ایک جگہ لکھا ہے کہ پبلک لائف اختیار کرنے والے شخص کو شادی نہ کرنی چاہیے…… اور اگر اُس کی شادی ہو چکی ہو، تو پھر بھی اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کو بہن کے برابر سمجھے۔ اور میاں بیوی سے دنیاوی تعلقات نہ رکھے (یعنی گھر والوں کی خاطر پبلک فرائض میں کوتاہی نہ برتے، اہلِ خانہ کی لذتوں کی خاطر لالچ اور رشوت خوری و غداری سے خود کو بچائے۔)
زندگی کے طویل تجربہ کے بعد میری رائے یہ ہے کہ انسان کی ترقی کے راستہ میں بیوی، بچے اور روپیا ایک لعنت ہیں۔ بیوی بچوں اور روپیا کے باعث انسان جرات اور شجاعت سے محروم ہو کر خطرات کا مقابلہ نہیں کرسکتا، اور وہ لوگ خوش نصیب ہیں جو اگر پبلک لائف اختیار کریں، تو اُن کے بیوی بچے نہ ہوں اور وہ روپیا سے محروم ہوں۔ اورشادی صرف اُن لوگوں کو کرنی چاہیے جو کلرک ٹائپ کے ہوں۔ اور جن کی زندگی کا مقصد کھانا، پہننا، شادی کرنا، بچے پیدا کرنا ، بچوں کو کھلانا، ملازمت کرنا اور اگر اُن کا افسر مسکرا دے، تو خوش ہو جانا…… اور اگر اس کی پیشانی پر شکن پڑ جائیں، تو رات کو نیند نہ آنا ہو۔
دیوان سنگھ مفتون
ایڈیٹر ’’ریاست‘‘ اخبار
دہلی 1960ء
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔