ضلع اَپر سوات کے قیام کی بہ جائے تحصیلِ بحرین کی تقسیم؟

Blogger Zubair Torwali

باوثوق ذرائع کی خبر تو نہیں، تاہم افواہ ضرور ہے اور اس پر یقین اس لیے آتا ہے کہ گذشتہ بلدیاتی انتخابات کے وقت ایسے مشورے انفرادی سطح پر بااثر افراد سے کیے گئے تھے کہ موجودہ تحصیل بحرین کو دو تحصیلوں میں تقسیم کیا جائے۔ شاید اب بھی کہیں بلدیاتی الیکشن قریب ہیں، اس لیے ایسی باتوں پر پھر توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ تاہم تحصیل کی تقسیم سے پہلے وہ وعدے ایفا کیے جانے چاہئیں، جو سابق وزیرِاعلا پرویز خٹک نے مدین ہی میں میاں شرافت علی صاحب کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے وقت کیے تھے کہ ضلع سوات کو کم از کم دو ضلعوں (اَپر سوات اور لوئر سوات) میں تقسیم کیا جائے گا۔ اس کے بعد چوں کہ یہاں اَپر سوات ہی سے محمود خان صاحب وزیرِ اعلا بن گئے۔ وہ چوں کہ اُس وقت کے ایم این اے ڈاکٹر حیدر علی کی مذکورہ تجویز کے مخالف تھے، لہٰذا وہ معاملہ کٹائی میں پڑگیا۔ واضح کرتا چلوں کہ ڈاکٹر حیدر علی صاحب نے اَپر سوات ضلع کے بارے میں خوازہ خیلہ میں کئی جرگے کیے تھے، تاہم سوات ہی سے وزیرِ اعلا ہونے کی وجہ سے اَپر سوات ضلع نہ بن سکا۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
سوات کی آبادی 25 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے اور مینگورہ شہر سے سیدوشریف جانا عذاب بن چکا ہے۔ ایسی ٹریفک اور رش کہ بندے کو کئی بار سوچنا پڑتا ہے کہ مینگورہ یا سیدو شریف کسی کام کے لیے جایا جائے کہ نہیں؟ کوہستان کی کل آبادی 8 لاکھ سے زیادہ نہیں اور وہاں تین ضلعے بنائے گئے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
جنت نظیر وادئی بحرین، سوات 
بحرین سوات میں علمائے کرام کی سادگی  
تحصیلِ بحرین سوات کی ترقیاتی عرض داشت  
کڑھا پل (درولئی) اور کائٹ منصوبہ  
اسی طرح چترال کی کل آبادی 7 لاکھ تک ہے اور وہاں دو ضلعے بنائے گئے ہیں۔ اچھا کیا گیا ہے کہ دونوں علاقوں میں انتظامی سہولتیں تیز ہوئی ہوں گی۔ اس حساب سے سوات کو 7 ضلعوں میں تقسیم ہونا چاہیے، مگر یہاں لوگ اس کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ اُن کی منطق سمجھ میں نہیں آتی۔ وادئی سوات اگر انتظامی یونٹو ں میں تقسیم ہوتی بھی ہے، تو یہ وادئی سوات ہی رہے گی۔
گذشتہ سالوں میں یہ بھی سننے کو ملا کہ اَپر سوات کے لیے ڈپٹی کمشنر اور دوسرے انتظامی سربراہوں کی تعیناتی بھی ہوچکی ہے۔ اس کی مزید تفصیلات کا مجھے معلوم نہیں، تاہم ’’اَپر سوات ترقیاتی مقتدرہ‘‘ (اَپر سوات ڈیولپمنٹ اتھارٹی) کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے اور اس کا زیادہ تر فوکس سیاحت ہے۔ اس لیے اس میں ملم جبہ کو بھی بعد میں شامل کیا گیا۔
موجودہ دور میں موقع ہے کہ اس اَپر سوات ضلع کو مکمل کیا جائے۔ کیوں کہ صوبے کے وزیرِ اعلا جنوب سے ہیں اور اُن کا کسی سے اِس میں بہ راہِ راست کوئی مفاداتی تنازع نہیں ہوگا۔ بہتر یہی ہوگا کہ اس اپر سوات ضلعے کا ہیڈ کوارٹر باغ ڈھیرئی ہو اور اس کی زیریں سرحد ایک جانب گاشکوڑ اور دوسری طرف مٹہ خوڑ ہو۔
تحصیل بحرین کی تقسیم کی بہ جائے یہاں کا موجودہ صوبائی حلقہ بھی اسی تحصیل کی حدود تک لایا جائے۔ اگر کسی بھی صورت اس تحصیل کو اپنی مرضی سے تقسیم کرنا ہو، تو وہ شاید علاقے کے فائدے میں نہ ہوگا کہ اس سے خدشہ ہے ایک کمیونٹی تحصیل کے اندر ہی دو تحصیلوں میں تقسیم ہوجائے گی۔
مَیں تحصیلِ بحرین کی تقسیم کے حق میں نہیں ہوں، تاہم اگر اس کو تقسیم کرنا ہی ہے، تو ایک تحصیل کی تین تحصیلیں بنانی پڑیں گی۔ زیادہ ترجیح اَپر سوات ضلعے کا قیام اور صوبائی حلقے پی کے 3 کی حدود کو تحصیلِ بحرین کی حدود تک لانے پر ہونی چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے