میرے سامنے اس وقت تازہ ترین بجلی کا بِل پڑا ہے، جس کے مطابق گذشتہ ماہ میں کُل 28 صرف شدہ یونٹ کی بجلی کی قیمت فی یونٹ 37.50 روپے کے حساب سے 1057 روپے درج کی گئی ہے، جب کہ ٹیکس وغیرہ اور ’’فیول ایڈجسٹمنٹ‘‘ کی مد میں رقم شامل کرنے کے بعد بل کی واجب الادا کل رقم 2425 روپے بنائی گئی ہے، یعنی ساڑھے سینتیس روپے فی یونٹ قیمت والی بجلی کی ٹیکس شامل کرنے کے بعد فی یونٹ قیمت 86 روپے 60 پیسے بنتی ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
مطلب یہ ہوا کہ بجلی صارف ایک یونٹ بجلی خرچ کرنے پر تقریباً پچاس روپے ٹیکس کی مد میں ادا کرتا ہے۔ یہ صارف کوئی بہت بڑا تاجر، صنعت کار یا کوئی سرکاری افسر نہیں، بلکہ یہ خطِ غربت سے نیچے کم آمدنی والا ایک معمولی آدمی ہے، جو چھابڑی فروش، ریڑھی والا، سر پر سارا دن بٹھل اُٹھا کر مزدوری کرنے والا، بے نظیر انکم سپورٹ کی لائن میں لگی بے کس اور بے بس خاتون، گھر سے پکوڑے سموسے بنوا کر گلیوں میں بیچنے والا غریب بچہ، سائیکل پر مالٹے، امرود بیچنے والا خمیدہ کمر بوڑھا اور ان جیسے ہزاروں پیشوں سے وابستہ نادار اور مسکین لوگ ہیں۔
متمول لوگ، سرکاری افسران، بیورو کریٹ، جج، اشرافیہ، عوامی نمایندے اور بڑے لوگ تو اپنی جیب سے بجلی، گیس اور پٹرول کے بل ادا ہی نہیں کرتے۔ یہ سب تو سرکاری خزانے پر پلنے والے وہ سانڈ ہیں، جو غریبوں کی خون پسینے کی کمائی پر پُرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی عیاشی کے لیے غریب آدمی بجلی کے بل پر 14 قسم کے ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ کسی جج نے واپڈا سے پوچھنے یا کسی عوامی نمایندے نے اسمبلی میں سوال اُٹھانے کی کبھی ہمت ہی نہیں کی کہ واپڈا کی طرف سے بجلی کے بِل پر یہ ٹیکس کیوں لگائے جاتے ہیں؟
ایک انتہائی غریب شخص سے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور وِد ہولڈنگ ٹیکس کیوں وصول کیا جاتا ہے؟ فاضل ٹیکس اور مزید فاضل ٹیکس ایسے کون سے ٹیکس ہیں، جو عام صارف سے وصول کیے جا رہے ہیں۔ جب میٹر صارف کا اپنا خریدکردہ ہے، تو اس کا کرایہ کیوں وصول کیا جا رہا ہے؟ بجلی کا بِل ماہانہ بنیادوں پر وصول کیا جاتا ہے۔ ہر ماہ ’’فیول ایڈجسٹمنٹ‘‘ کے نام پر ’’جگا ٹیکس‘‘ باقاعدگی سے وصول کیا جاتا ہے، تو پھر ’’کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ ٹیرف‘‘ کیا ہے؟
کسی وکیل کو بھی آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ پورے ملک کے غریب عوام کی بھلائی کے لیے کسی عدالت میں آواز اُٹھائے۔ عام اور غریب آدمی کو پیسنے کے لیے حکومت، محکمے، اشرافیہ، عدلیہ اور عوامی نمایندے ایک صفحے پر ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
واپڈا کی نج کاری وقت کی اہم ترین ضرورت
بجلی بِل، ڈراونا خواب
ایم پی اے فضل حکیم خان یوسف زئی کے نام کھلا خط
آج کی نوجوان نسل کی پیدایش سے بھی پہلے کا ذکر ہے کہ پاکستان میں پی ٹی سی ایل نامی کمپنی کی بدمعاشی پورے عروج پر تھی۔ ملک میں ڈائریکٹ ڈائلنگ کی سہولت صرف بڑے شہروں میں میسر تھی، وہ بھی صرف اپنے شہر کی حد تک۔ دوسرے شہر بات کرنے کے لیے کال بُک کروانا پڑتی تھی۔ اس میں بھی یہ بدمعاشی کی جاتی تھی کہ کم از کم تین منٹ کی کال بُک کی جاتی تھی۔ آپ کی بات دس سیکنڈ میں مکمل ہوجاتی، تب بھی آپ کو تین منٹ کال کے چارجز ادا کرنا پڑتے تھے۔ کال کے ریٹ بھی ہوش رُبا تھے۔ لاہور سے کراچی یا اسلام آباد کے لیے 3 منٹ کی کال کے 150 روپے چارج کیے جاتے۔ یہ آج سے 35، 40 سال پہلے کی بات ہے۔ تصور کریں کہ اُس وقت کے ڈیڑھ سو روپے کی قدر کتنی ہوگی…… آج کے دس ہزار روپے کے برابر۔
اُس دور میں ٹیلی فون کا کنکشن لگوانے میں کامیابی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔ اس کام کے لیے کئی ماہ اور بعض اوقات ایک سال سے بھی زاید عرصہ انتظار کرنا پڑتا تھا۔ پھر 1990ء کے آخری وسط میں ملکِ عزیز میں پی ٹی سی ایل ہی کی طرف سے موبائل فون سروس کا آغاز ہوا۔ یہ بہت مہنگی سروس تھی۔ طرفہ تماشا یہ کہ موبائل فون پر کال سننے والے کو بھی نصف کال کے چارجز ادا کرنا پڑتے، یعنی کال کرنے والے کو سو روپے ادا کرنا پڑتے، تو دوسری طرف سننے والے کو بھی 50 روپے دینا پڑتے۔ پھر ملک میں غیر ملکی کمپنیوں نے موبائل فون سروس شروع کر دی اور اب یہ حال ہے کہ آپ پوری دنیا میں جب چاہیں براہِ راست آڈیو یا ویڈیو کال واٹس ایپ، میسنجر، سکائپ وغیرہ پر تقریباً مفت کر لیتے ہیں، اور وہ بھی گھنٹوں کے حساب سے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ہر چیز مہنگی ہوتی رہی ہے۔ صرف ٹیلی فون سروس واحد چیز ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ سستی ہوئی ہے۔ موبائل کمپنیوں کی سستی ترین سروس کی وجہ سے اَب پی ٹی سی ایل کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ وہ منتیں کرتے ہیں، مگر لوگ اُن کا کنکشن لگوانے کو تیار نہیں۔
پی ٹی سی ایل کے بعد اب بہت جلد واپڈا کی باری آنے والی ہے، جو گلے گلے کرپشن میں دھنس کر صارفین کی کھال کند چھری سے اُتارتا رہا ہے۔ حکومت کے لیے یہ محکمہ سب سے زیادہ کماؤ پوت بنا ہوا ہے۔ دل چاہے، تو ایک ماہ میں تین بار بجلی کی قیمت بڑھا کر غریب لوگوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر سوموٹو لینے والی عدالتوں یا جج صاحبان کو اس طرف توجہ دینے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ جن کو بغیر حساب کتاب کے مفت بجلی، گیس اور پٹرول مل رہا ہو، اُن کے دل میں عوام کا درد کیسے جاگ سکتا ہے؟ آج بڑے افسران، منتخب نمایندوں اور جج صاحبان سے مفت بجلی کی سہولت واپس لے کر دیکھ لیں۔ حکومت کواس کی قیمت بڑھاتے ہوئے لگ پتا جائے گا۔ عوام تو مجبور اور بے وقعت ہیں، اُن کی کون سنتا ہے؟ اب امید بندھ چلی ہے کہ پی ٹی سی ایل کے بعد واپڈا بھی تیزی سے زوال کی جانب اپنا سفر شروع کرنے والا ہے۔ ملک بھر میں سولر انرجی کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ لوگ دھڑا دھڑ اپنے گھر، دفاتر اور ٹیوب ویل سولر انرجی پر منتقل کر رہے ہیں۔ سکول، کالج اور مساجد بھی اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی طرف گام زن ہیں۔
دوسری طرف 120 روپے فی واٹ تک بکنے والے سولر پینل کی قیمت 38 روپے فی واٹ تک گر چکی ہے۔ اس میں مزید کمی کی توقع کی جا رہی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق چین سے سولر سسٹم درآمد کرنے والی روایتی کمپنیوں سے ہٹ کر بھی بہت سی کمپنیوں نے سولر سسٹم کی بڑے پیمانے پر درآمد کر کے ان روایتی کمپنیوں کی اجارہ دارہ کو ختم کر دیا ہے۔ شنید ہے کہ ملکی ضروریات سے پانچ گنا زاید سامان چین سے درآمد ہو کر ملک میں آ چکا ہے۔ روایتی درآمد کنندگان نے ملی بھگت سے اپنا سامان ویئر ہاؤسز میں سٹاک کرکے قیمتیں بڑھانے کی کوشش کی تھی، مگر غیرروایتی درآمد کنندگان نے اُن کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اُن کے پاس ویئر ہاؤسز نہیں، اس لیے وہ اپنا مال اُونے پونے منافع پر نکال رہے ہیں۔
ایک اور انقلاب سولر پیپر شیٹ کی ایجاد سے برپا ہوگیا ہے۔ یہ شیٹ سولر پینل کی نسبت سستی، ہلکی پھلکی، کم وزن اور زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ چھت کے علاوہ دیوار پر بھی نصب ہو جاتی ہے۔ فلیکس ایبل ہے۔ اس کے لیے بڑے بڑے فریم بنوانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ فولڈ کر کے جہاں مرضی خصوصاً پکنک سپاٹس پر لے جا سکتے ہیں۔ اس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کیوں کہ اس کی قیمت عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔ چین سے درآمدشدہ انورٹر اس وقت مہنگے ہیں، لیکن ہم پاکستانی جگاڑ لگانے میں ماہر ہیں۔ جلد ہی مقامی طور پر عام میکینک بھی آپ کو انورٹر تیار کرتے نظر آئیں گے۔
وہ دن دور نہیں جب عوام کی چمڑی ادھیڑنے والا واپڈا زمین بوس ہوجائے گا۔ پی ٹی سی ایل کی طرح واپڈا والے بھی گھر گھر دروازہ کھٹکھٹا کر کنکشن لگوانے کے لیے منتیں کریں گے، لیکن ان کا کنکشن لینے کو کوئی تیار نہ ہو گا۔ واپڈا کی لوٹ مار کا یہ آخری سال ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔