ہمارے معاشرے میں شہید مختیار جیسے چند لوگ ہی ہوتے ہیں، جو مخلص، ملنسار، صاف نیت اور مہذب ہوتے ہیں۔
ان سے جب میری پہلی ملاقات اُن کی دکان میں ہوئی، تو مَیں اُن کو نہیں جانتا تھا، مگر مجھے حیرت ہوئی کہ وہ مجھے اچھی طرح جانتے تھے۔ پہلی ملاقات میں بڑی اپنائیت سے ملے۔ مجھے اپنا تعارف کرانا پڑا کہ شاید وہ کسی کی غلط فہمی میں مجھے کوئی اور سمجھ بیٹھے ہیں۔
چشمہ لگائے ایک عرصہ ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل احمد صدیقی صاحب سے مَیں نے ایک دفعہ کہا، میری ناک پر نیل پڑجاتا ہے۔ اُنھوں نے کہا، ہاں! یہ المیہ ہے۔ قصور آنکھ کا ہوتا ہے اور شامت ناک اور کان کی آ جاتی ہے۔
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
مختیار سے بھی مَیں اسی سلسلے میں ملا، تاکہ کوئی مناسب فریم مل جائے، مگر تاثر یہ ملا کہ وہ مجھے کوئی اور سمجھ بیٹھے ہیں۔ اُنھوں نے تصحیح کی کہ نہیں۔ تحصیل دار صاحب ( میرے والد صاحب) سے تقریباً روز ملاقات ہوتی ہے اور وہ میرے بارے میں بات کرتے ہیں۔یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔
اُنھوں نے کہا کہ لاٹ کے فریم ہوتے ہیں، وہ دے دیتا ہوں۔
مَیں ان کی بات نہیں سمجھ پایا، مگر اُنھوں نے دے دیے۔ اُن میں سے ایک پر ’’سی ڈی‘‘ (CD) لکھا ہوا تھا۔ ساتھ ہی کوٹنگ والے شیشے لگانے کا کہا۔ مگر مَیں نے جواباً کہا کہ میرا مسئلہ یہ ہے کہ ان چشموں کے ملنے میں دن لگنے ہیں، اور مَیں کل صبح سوات سے چلا جاؤں گا۔
مختیار (مرحوم) مسکرائے اور کہا: آپ پاکستان ہی میں کہیں ہوں گے ناں! جس دن چشمہ فائنل ہوگا مَیں فون کر دوں گا اور اُس کے اگلے دن آپ جہاں کہیں بھی ہوں گے، اسی پتے پر کورئیر کر دوں گا۔
واقعی مَیں فیصل آباد یا سرگودھا میں تھا شاید کہ چشمہ مجھے مل گیا، جو بہت ہی شان دار تھا۔ ایک دن میں لاہور میں تھا کہ ایک شیشہ کہیں ٹوٹ گیا۔ وہاں ایک لڑکے سے مَیں نے کہا، یار! ذرا گنگا رام مارکیٹ میں جانا۔ وہاں بڑی مارکیٹ ہے۔ ساتھ ہی کہا، یہ فریم سیکنڈ ہینڈ ہے…… کہیں سے تقریباً مفت ملا ہے۔ لڑکے کا نام مصطفی تھا۔ باکمال اور تیز لڑکا تھا، مگر تھا لاہور کا…… جہاں سب کا خیال ہے کہ بندے تیز اور دھوکے باز ہوتے ہیں۔ مصطفی کو مَیں نے یقین دلایا کہ مفت میں ہوسکتا ہے، ورنہ کچھ پیسے سے کام چلا لو۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کچھ باجکٹہ (بونیر) کے سید کریم خان کے بارے میں  
باچا خان کے ساتھ میرے سفر کی یادداشت  
کچھ ناخواندہ ماہرِ تعمیرات عبید اُستاد کے بارے میں  
والئی سوات کے پرائیویٹ سیکرٹری پُردل خان لالا 
بزوگر حاجی صاحب  
جب مصطفی چشمہ ٹھیک کرا کر گلبرگ مجھے واپس دینے آیا، تو ایک زبردست انداز میں پوری روداد سنائی۔ اُس نے کہا کہ مَیں نے گھوم پھر کر قدرے شریف، ملنسار اور مہربان سا دُکان دار دیکھا۔ اس کے گاہک کے ساتھ سلوک کو چیک کیا اور پھر غربت، بے کسی اور مسائل کی کہانی بیان کی۔ اس کے بعد کہا کہ ایک جاننے والا غریب الوطن ہے، سفر میں چشمے ایک شیشہ ٹوٹ گیا ہے، اسے بدلوا دیں اور بھلائی کرکے مناسب دام بتائیں۔ دُکان دار بہت متاثر ہوا۔ کہا کہ تم نیکی کر رہے ہو، مجھے بھی بھرپور کرنے دو۔
مگر جیسے ہی چشمہ کیس سے نکلا، دُکان دار کی آنکھوں میں چمک آگئی اور لہجہ بھی بدل گیا۔ کہا، بھئی! یا تو آپ بہت ہی پہنچی ہوئی چیز ہیں، یا جس کا چشمہ ہے، اُس نے آپ کو اُلو سمجھ لیا ہے۔ ارے بھئی، یہ کرسچن ڈائر کا چشمہ ہے اور اس میں ملٹی کوٹیڈ شیشہ لگا ہے۔ ایک عام شخص کے پاس یہ ہو ہی نہیں سکتا۔
مصطفی کہنے لگا، مَیں ہنس سکا، نہ رو سکا کہ مجھے صحیح طور لگ نہیں رہا تھا کہ مَیں بے وقوف بنانے آیا ہوں، یا بے وقوف بن کر آیا ہوں؟
جب مَیں سوات آیا، تو مختیار صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ لمبا عرصہ استعمال کرتے ہوئے صرف تین لوگ اس برانڈ کو پہچان کر مجھ سے متاثر ہوئے۔ ایک گنگا رام کا دُکان دار، دوسرا کراچی میں ایک شخص اور تیسرا جہاز میں…… یعنی فضا میں ساتھ سیٹ پر بیٹھا چشمہ لگائے ایک خاموش طبع اور جذبات سے عاری شخص جو مجھے بار بار یوں دیکھتا کہ مجھے الجھن ہونے لگتی اور میں کھڑکی میں باہر دیکھنے لگتا۔ آخر میری اُلجھن کو ختم کرتے ہوئے 40 ہزار فٹ کی اونچائی پر اس نے کہا کہ کیا میں آپ کا چشمہ دیکھ سکتا ہوں؟ یہ سن کر مَیں ایک لاکھ فٹ کی اونچائی پر پہنچ گیا۔
میرے والد صاحب کو آنکھوں کا آپریشن کرانا تھا۔ یہ مجھے مختیار نے ہی کہا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ پنڈی میں کرائیں، تو بہت اچھا ہوگا۔ میری ملازمت اور مجبوری کو دیکھتے ہوء کہا کہ مَیں ساتھ دیتا ہوں۔ یوں مَیں، میرے والد صاحب، مختیار (مرحوم) اور میری بہنوئی احمد شاہ پنڈی گئے…… اور سب سے بہترین سرجن سے آپریشن کروایا۔ ایک رات ٹھہرے۔ اگلے دن پٹی کھلی اور گھر آگئے۔ یوں بہت کم پیسے لگے اور کامیاب آپریشن ہوا۔ میرے والد صاحب سے عقیدت تھی، اس کی وجہ سے وہ ساتھ گئے اور بڑی خدمت کی۔
مختیار (مرحوم) بہت ہی پریکٹیکل انسان تھے۔ اُن کی بے وقت وفات کا واقعہ سنا، تو بہت افسوس ہوا۔ کچھ لوگ زندہ رہنے کے لیے ہوتے ہیں، مگر موت ان کو گلے لگا لیتی ہے۔ لائق انسان تھے۔الشفاء آئی ہسپتال اور امانت آئی ہسپتال میں ان کی بہت عزت تھی۔ کئی ڈاکٹروں سے میرا معائنہ کروایا۔ سب نے کہا، اچھا ہے کہ شروع سے چشمہ لگا رہے ہو۔ نظر ایک جگہ ٹھہری ہوئی ہے، مزید کم نہیں ہو رہی۔
جاتے جاتے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا مختیار (مرحوم و مغفور) کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔