پاکستان جیسے مسلم معاشرے میں امام مسجد مرکزی حیثیت رکھنے والا کردار ہے جو پیدایش سے لے کر انسان کے مرنے تک اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ واحد کردار ہے، جو رات دن، گرمی سردی، آندھی طوفان اور بارش اولوں کی پروا کیے بغیر 24 گھنٹے اپنی ڈیوٹی پوری ایمان داری اور جاں فشانی سے ادا کرتا ہے۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی مسجد میں چند منٹ کے لیے بھی باجماعت نماز کی ادائی موخر ہوئی ہو، جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہو کہ اپنے مطالبات کے حق میں امام صاحب ہڑتال پر ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
آج تک امام صاحب نے شہر کی مسجد کمیٹی یا گاؤں کے افراد سے اپنی تنخواہ بڑھانے کے لیے جھگڑا نہیں کیا۔ جو ملا اس پر صبر شکر کیا۔ توکل کی ایسی اعلا مثال آپ کو امام مسجد یا مولوی صاحب کے علاوہ اور کسی کے پاس نہیں ملے گی۔
اگر آپ ماضی میں چلے جائیں، تو متحدہ برِصغیر کے مسلم دور میں مولوی صاحب کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ انگریز کی آمد سے پہلے لفظ ’’مولوی‘‘ معاشرے میں اتنی توقیر کا حامل تھا کہ بہت بڑے علمائے کرام اپنے نام کے ساتھ ’’مولوی‘‘ کا اضافہ بہت فخر سے کیا کرتے تھے۔
انگریز کو مولوی سے شدید نفرت تھی۔ نفرت کے ساتھ ساتھ انگریز مسلمان مولوی سے خوف زدہ بھی تھا۔ انگریز کی مولوی سے نفرت کی ابتدا 1857ء کی جنگِ آزادی میں جامع مسجد دلّی سے جہاد کے اعلان سے شروع ہوئی تھی۔ مولوی نے انگریز سے معرکے کے لیے مسلمانوں کو تیار کیا تھا۔ انگریزوں کی تاریخ پر بھی گہری نظر تھی۔ وہ جانتے تھے کہ 1803ء میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اُن کے خلاف جہاد کا فتوا دیا تھا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کی قیادت علمائے کرام ہی کر رہے تھے۔ بے شمار علمائے کرام نے مولانا فضلِ حق خیرآبادیؒکی قیادت میں انگریز کے خلاف جہاد کا فتوا جاری کیا تھا۔ انگریز افواج اور انتظامیہ اس بات پر متفق تھی کہ شمالی ہند میں مولوی ان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
مولوی کے مقابلے میں دوسرا طبقہ پنجاب کا زمین دار، چوہدری، سردار، نواب اور وڈیرہ تھا، جس نے اپنی وفاداری سے انگریز کے دل میں گھر کرلیا تھا۔ اس دوسرے طبقے نے جہادیوں کے خلاف لڑنے کے لیے انگریز کو افرادی قوت مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقوں میں مسلمانوں کا بے دریغ خون بہا کر انگریز کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو دبانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اسی لیے یہ طبقہ انگریزوں کا منظورِ نظر اور جاگیروں اور مراعات کا حق دار قرار پایا تھا۔
انگریز چلا گیا، مگر اپنے پیروکار کالے انگریز ہم پر مسلط کرگیا۔ مولوی کو آج بھی ہمارے معاشرے میں وہ مقام نہیں ملا جس کا وہ مستحق ہے۔ حالاں کہ مولوی کے بغیر ہمارا گزارا بھی نہیں۔ بچے کی پیدایش پر اس کے کان میں اذان مولوی دے گا، نکاح مولوی پڑھائے گا، نمازِ جنازہ، قل ساتے اور چالیسویں کے موقع پر دعا، برسی اور دینی محافل کا انعقاد مولوی کے وجود کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ہم میں سے اکثر کو اذان بھی نہیں آتی۔ نمازِ جنازہ اور عیدین کی نماز پڑھنے کا طریقہ ہر بار مولوی کی جانب سے ہمیں بتانا پڑتا ہے۔ دینی معاملات سے دوری کا یہ عالم ہے کہ سگا والد یا والدہ فوت ہوجائے، تو ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھا سکتے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
امام مسجد کے نام کھلا خط 
امام مسجد کے نام ایک اور کھلا خط  
قسم کھانے سے متعلق چند اہم مسائل  
فلسفہ حج  
روزے کے سماجی فوائد  
اپنے بچوں کو جتنے بڑے اور برانڈڈ سکول میں مرضی پڑھا لیں، لیکن قرآن کی تعلیم مولوی سے ہی دلوائیں گے، مگر تفریق کا اندازہ لگائیں کہ انگریزی، ریاضی یا کسی سائنس کے مضمون کی ہوم ٹیوشن پڑھانے والے ٹیچر کو 15، 20 ہزار خوشی خوشی دے دیں گے۔ مولوی کو قرآنِ مجید پڑھانے کے لیے ہوم ٹیوشن کی مد میں 2، 3 ہزار دے کر بھی اُس پر احسان چڑھایا جاتا ہے۔
سپیشلائزیشن کا دور ہے۔ پہلے ایک ہی ڈاکٹر ہر مرض کا علاج کرتا تھا۔ اَب ہر مرض کا سپیشلسٹ ڈاکٹر ہے۔ ناک، آنکھ، کان، معدے، گردے، دل، دماغ یا ہڈی کا علاج کرانا ہو، تو سپیشلسٹ کے پاس جائیں۔
دوسری طرف ہمارے مولوی صاحب کو دیکھیں۔ ایک ہی وقت میں درجن بھر ڈیوٹیاں انجام دے رہا ہے۔ مسجد میں پانی کا اہتمام، بجلی کے پنکھے، بلب اور اے سی کا چلانا اور بند کرنا، خرابی دور کرانا، لاؤڈ سپیکر کی خرابی دور کرانا، مسجد کی صفائی، چٹائیاں بچھانا یا بچھوانا، دن میں پانچ وقت اذان دینا، امامت کرانا، رمضان شریف میں نمازِ تراویح پڑھانا، سحری کے وقت جگانا، روزے کا وقت ختم ہونے پر روزہ داروں کو آگاہ کرنا، بچوں کو قرآنِ پاک کی تعلیم دینا، نمازِ جنازہ پڑھانا، نکاح خواں کا کردار نبھانا سمیت کتنے ہی ایسے فرائض ہیں جو مولوی صاحب پوری ذمے داری، ایمان داری اور نیک نیتی سے ادا کر رہا ہے۔ نہ کبھی اسے کہیں پہنچنے میں دیر ہوتی ہے، نہ کسی فرض کی ادائی میں کبھی کوئی رکاوٹ حائل ہوتی ہے، تمام کام اپنے درست وقت پر اور خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہو رہے ہوتے ہیں۔
اب اس کے مقابلے میں ہم مولوی صاحب کے ساتھ اپنے رویے پر غور کریں۔ چند جماعتیں پڑھے ہوئے دانش ور جن کی معلومات کا ذریعہ فیس بک، واٹس اَپ یا گوگل ہوتا ہے، مولوی صاحب کے ساتھ دینی مباحث کر رہے ہوتے ہیں۔ ان دانش وروں سے وضو یا غسل کے فرائض پوچھ لیں، تو بغلیں جھانکنے لگیں گے۔ عام طور پر مولوی صاحب کو انتہائی کم بلکہ ایک مزدور کی اجرت سے بھی آدھی تنخواہ دی جاتی ہے اور اس کی ادائی بھی اکثر اوقات قسطوں میں ہوتی ہے۔ تنخواہ اکٹھی کرنے والی کمیٹی کو بار بار چکر لگوائے جاتے ہیں۔ بعض دیہات میں تو اب بھی مولوی صاحب کو لوگوں کے گھروں سے کھانا اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ کس قدر شرم ناک بات ہے کہ شادی کے موقع پر بینڈ باجے اور ناچ گانے والوں پر ہم لوگ بے تحاشا دولت اُڑا دیتے ہیں، مگر نکاح کے وقت مولوی صاحب کے ساتھ بھاو تاو اور بحث مباحثہ شروع کر دیتے ہیں۔
یاد رکھیے! ہمارے مولوی صاحب بھی اسی معاشرے کے فرد ہیں۔ انھیں بھی زندہ رہنے، اپنی ضروریات پوری کرنے اور اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنے کے لیے روپوں کی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی باقی سب لوگوں کو ہے۔ مہنگائی میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اچھا خاصا کمانے والوں کی قوتِ خرید جواب دے رہی ہے۔ سالانہ 30 سے 40 فی صد مہنگائی ہونا معمول بن چکا ہے، مگر مولوی صاحب کی تنخواہ وہی رہتی ہے۔ اگر کچھ اضافہ کیا بھی جاتا ہے، تو اونٹ کے منھ میں زیرے کے مترادف ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کے سینے میں بھی دل اور دل میں خواہشات ہوتی ہیں۔ اس کا دل بھی چاہتا ہے کہ بیوی بچوں کو نئے کپڑے اور جوتے لے کر دے۔ اچھے کھانے کھلائے۔ اسے برادری اور عزیزوں کی بیاہ شادیوں پر بھی جانا ہوتا ہے اور فوتیدگی پر بھی۔ مولوی صاحب کی ضروریات کو پورا کرنا ہماری ذمے داری ہے۔ اگر وہ درجن بھر سے زائد ذمے داریاں تن دہی سے نبھا رہے ہیں، تو ہمیں بھی ان کی مالی معاونت میں کنجوسی نہیں کرنی چاہیے۔ رمضان کا مقدس مہینا چل رہا ہے۔ آگے عید آ رہی ہے۔ تمام لوگ عید کمانے میں مشغول و مصروف ہیں۔ مناسب تو یہی ہے کہ اپنی نیک کمائی میں سے امام مسجد کے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ نکالا جائے، تاکہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے عمدہ قسم کے کپڑے، جوتے اور عید کی دوسری ضروری اشیا کی خریداری کرسکیں۔
امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ علمائے کرام کو رزق کی فکر سے آزاد کر دو ورنہ انھیں نمازوں میں بھی نماز کی نہیں، اپنے گھر کی فکر ہو گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔