ڈاکٹر شاہد اقبال کا سفرنامہ ’’لپکے لاء‘‘ (تبصرہ)

Blogger Hanif Zahid Borewala

’’سفر نامہ‘‘ ہم جانتے ہیں کہ یہ لفظ بے جا کثرتِ استعمال سے بے آبرو ہوچکا ہے۔ کوئی اچھی تصویر بنا لے، اچھا کوہ پیما ہو، کوہ نورد، سیاح یا با ئیکر ہو، تو اچھا لکھ بھی لے…… ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے۔ ہم اچھا لکھنے کے معاملے میں شیخ سعدی کے ہم نوا ہیں: ’’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔‘‘ بعینہٖ مذکورہ بالا سفر نامہ پڑھ کر، عرق ریزی کرکے علم ہوا کہ سفر نامہ نگاری کو ادبی چاشنی دینے والے کچھ قلم کار اَب بھی موجود ہیں، جو بہت اچھے کوہ نورد ہونے کے ساتھ ساتھ شان دار لکھاری بھی ہیں۔ مولانا حالیؔ کی روح کے ساتھ پیشگی معذرت کے ساتھ عرض ہے:
’’بہت دل خوش ہوا شاہد سے مل کر‘‘
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
حنیف زاہد کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/hanif/
کسی کی اچھائی ناپنے کے ہر کسی کے اپنے اپنے پیمانے ہیں۔ کوئی ظاہری حسن کو اچھائی مانتا ہے، کوئی عقل، کوئی عہدے، کوئی زر و جواہر…… مگر ہم ایسی روشِ عام سے اُلٹ چلنے والے سر پھرے، سیلانی اخلاق کو سب اوصاف پر مقدم رکھتے ہیں۔ مصنف اِک بااخلاق اچھے انسان،پیدایشی سیلانی و سیاح اور کوہ نورد ہونے کے ساتھ ساتھ اب اچھے سفر نامہ نگار بھی ہیں ماشاء اللہ!
سادہ طبیعت کے مالک اور درویش منش ہیں۔ والدین اور ننھیال کی خواہش پر اور روٹی روزی کی خاطر ڈاکٹر اور سرجن بنے، جب کہ فزکس پسندیدہ مضمون تھا۔ اس شعبے میں سائنس دان یا استاد بننا چاہتے تھے۔ پیسے کی حرص و ہوس سے کوسوں دور ہیں۔ بس اتنا کمایا جتنے سے گھر میانہ روی سے چل سکے۔ اپنے پرائیوٹ کلینک پر پریکٹس کے دوران میں زیادہ تر مریضوں کو مفت چیک کرتے ہیں اور بقیہ سے چیک اَپ فیس آج کل صرف تین سو روپے وصول کرتے ہیں اور محض نسخہ لکھ کر دیتے ہیں۔ بلا مبالغہ کوئی ٹیکا، ڈرپ، دوائی اُن کے کلینک پر دست یاب نہیں ہوتی اور اگر کوئی مریض بہ ضد ہوکر ٹیکا یا ڈرپ کی ڈیمانڈ کرے، تو اُسے سمجھاتے ہیں کہ وہ پھل، گوشت، انڈے کھائے اور دودھ پیے۔ قدرتی اشیا سے جان بنائے۔ اگر سرجری کریں، تو انتہائی معقول فیسں لیتے ہیں۔ 20ویں گریڈ تک افسری میں بھی عاجزی و انکساری کا ہاتھ دامن سے نہیں چھوڑا۔ جب بڑے بڑے عہدوں پر براجمان رہے، تب بھی وطنِ عزیز اور بیرونِ ملک عزت و پذیرائی سمیٹی اور اب فرائضِ منصبی سے سبک دوش ہونے کے بعد ماشاء اللہ پہلے سے بڑھ کر پیار پا رہے ہیں۔
جیسے میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کی شاعری پڑھنے کے بعد بندہ ہوش میں رہ بھی جائے، تو کسی جوگا نہیں رہتا۔ایسے اس سفر نامے کو پڑھنے کے بعد بندہ دیوانہ وار کوہ نوردی پر نکل پڑے زیادہ بعید نہیں۔
اس سفر نامے کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ’’لپکے لاء‘‘ کی کوہ نوردی کا اولین سفر نامہ ہے۔ علاوہ ازیں سفر نامہ نگار نے سب کے ہر دل عزیز چچا تارڑ کی پیروی کرتے ہوئے سفر نامہ نگاری کے سابقہ اُصولوں سے انحراف کیا ہے اور روایتی جمود کو توڑا ہے۔اس صنف میں نیا رنگ، نئے ستارے، نیا اُفق، نیا پن اور نیا اُسلوب لائے ۔
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اگر گھسے پٹے اُصولوں کی پابندی کرنے پر سب سے زیادہ مقبولیت ملتی، تو اُردو اَدب و شاعری میں سب سے زیادہ مقبولیت کا تاج غالبؔ، اقبالؔ، فیضؔ، فرازؔ اور چچا تارڑ کے سر پر جگمگا نہ رہا ہوتا۔ مسودہ دیکھ کر چند روایت پسندوں نے ڈاکٹر صاحب کو بھی اسی سابقہ جمودی چلن کی پیروی کرنے کے پند و نصائح سے نوازا، مگر اللہ کا شکر ہے کہ وہ کسی ’’مہربان‘‘ کی باتوں اور جھانسے میں نہیں آ ئے اور اپنے نویں نکور لشکتے ہوئے آہنگ سے بے ساختہ نثر بلکہ نثری شاعری سے کوہ نوردی کا سارا احوال سنایا ۔
کیوں نہ فردوس کو دوزخ میں ملا دیں یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی جگہ اور سہی
مصنف کی پہلی کتاب کا دیباچہ مرشد کوہ نورداں و سیاحاں جناب مستنصر حسین تارڑ صاحب نے پہلے کتاب کا دیباچہ بہ غور پڑھنے کے بعد لکھا ہے جو کہ کسی اعزاز سے کم نہیں۔ تارڑ صاحب دیباچہ میں رقم طراز ہیں: ’’ڈاکٹر شاہد کو دیکھ کر قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ ٹریکر بھی ہیں اور اُنھوں نے لپکے لاء جیسا بہت ہی اہم، خطرناک اور بلند ترین ٹریک کیا ہوگا۔ شکل سے تو لگتا ہے کہ یہ شملہ پہاڑی بھی نہیں چڑھے ہوں گے…… لیکن اَب جب کہ مَیں نے اُن کی کتاب پڑھی ہے، تو اندازہ ہوا یہ بہت اچھے ٹریکر ہیں۔ کتاب بہت اچھی لکھی گئی ہے اور تمام مراحل کو بہت احسن طریقے سے بیان کیا ہے۔ ان کی خوبی یہ بھی ہے کہ جہاں پر اُن کی ہمت ختم ہوئی، اُنھوں نے اُسے تسلیم کیا ہے، بہادر بننے کی کوشش نہیں کی۔ میسنر کا یہ فقرہ بڑا معروف ہے کہ ’ماؤنٹینئر بہادر نہیں ہوتے کیوں کہ بہادر ماؤنٹینئر کا مطلب ہے مردہ کوہ پیما‘ اور اسی طرح بہادر ٹریکر کا مطلب ہے کہ ’اوہ تے لت تڑوا کے ای واپس آئے گا۔‘ کوہ پیمائی اور کوہ نوردی میں جب آپ کوئی ایسا مرحلہ دیکھیں، جو آپ نہیں کرسکتے تو رُک جائیں، واپس آجائیں، پہاڑوں کو عزت دیں اُن سے پنگا نہ لیں۔ آپ اُن کی دنیا میں مخل ہو رہے ہیں، آپ وہاں اُن کے پروہنے نہیں ہیں۔ آپ وہاں کڑاھیاں کھانے، گند مچانے، کوڑا کرکٹ پھینکنے سے پرہیز کریں۔ پہاڑوں کی مرضی کے مطابق چلیں۔ اگر آپ کو لگ رہا ہے مَیں یہ ندی نہیں کراس کرسکتا، تو اگر کہیں دراڑیں ہیں، تو رسی باندھ لیں یا ٹھہر جائیں۔ تسلی سے کوئی حل سوچیں۔‘‘
دیگر متعلقہ مضامین:
سفرنامہ اور رپورتاژ میں فرق  
فاہیان کا سفرنامہ ہند  
فرانسس کا سفرنامہ اور آج کا پاکستان  
شنکیاری کی سیر (سفرنامہ) 
سفرنامہ ’’روبی کے دیس میں‘‘ (تبصرہ)  
زیرِ تبصرہ سفر نامے کا اِک خاصہ یہ بھی ہے کہ یہ تصنع، دور از کار گپوں اور جھوٹوں سے مبرا ہے۔ مصنف نے جو کچھ دیکھا، محسوس کیا، ہڈ بیتی، موت سے آنکھیں چار کیں، سفر کی صعوبتیں اور کٹھنائیاں جھیلیں اس کو کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر سادہ، سہل اور سلیس انداز سے بیان کر دیا۔ دل کش پیرائے میں نثر ہی نہیں لکھی بلکہ نثری شاعری کر ڈالی۔ وہ بہادر نہیں بنے، افسانوی ہیرو، دلیر اور مافوق الفطرت بننے کی کوشش نہیں کی، جہاں جہاں خوف زدہ ہوئے، سہم گئے، قوا مضمحل ہوئے، ارادے شکستہ ہوئے، اُمید و بیم کی کشمکش سے دوچار ہوئے، بنتے ٹوٹتے خواب دیکھے، اس کو کھلے دل قبول کیا۔ بقولِ محمود غزنی:
کرو گے کیا جو کبھی سچ کا باب کھولا گیا
تمھارے شہر میں اتنا جھوٹ بولا گیا
مصنف خود نمائی اور خود ستائی سے نفور ہیں۔ اپنے آپ کو بڑا مصنف، لکھاری، فیلسوف یا بڑی توپ چیز نہیں سمجھتے۔ اس لیے اظہارِ تشکر کے باب تلے سفرنامے کا آغاز شان دار جملے سے کیا، ملاحظہ فرمائیں:
’’فبائ الاء ربکما تکذبان۔ سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات کا شکرگزار ہوں کہ اُس نے مجھے زندگی دی۔ پھر ایسی خوب صورت دنیا دیکھنے کا موقع اور وسائل دیے شاید میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اللہ کا شکر ادا کرسکوں۔
ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیراں ہوں کہ ان آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں
اس کے بعد مستنصر حسین تارڑ صاحب جن کی کتابوں نے ایک بوڑھے کو ٹریکنگ کی ترغیب دی۔ اس کے بعد میں اپنی اہلیہ محترمہ کا بہت شکر گزار ہوں جنھوں نے میری آوارہ گردی اور مالی خسارے کو برداشت کیا اور ٹریک کے دوران میں دُعاؤں میں یاد رکھا۔ اس کے بعد دی ٹریکرز کے فرید گجر، تنویر جوگی اور میاں یاسین کا بھی بہت شکر گزار ہوں، جنھوں نے ٹریکنگ میں مجھ جیسے سست بندے کو ساتھ رکھا۔‘‘
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ سفر نامے کے کردار بڑے جان دار، زندہ دل اور فطرت پسند ہیں۔ جس میں مصنف، پیر صاحب، شرلی، چیتا، میجر، شیخ، کامران، فرہادی، بکرا اور یاک شامل ہیں۔ مزید بر آں میجر اور شرلی کے مابین نوک جھونک چلتی رہتی ہے اور شرلی کی بچکانہ شرارتیں تحریر میں اک شگفتگی پیدا کر دیتی ہیں۔ شیخ کی شان دار فوٹوگرافی خوب مزا کراتی ہے۔ چیتا اکثر راہ بھولا رہتا ہے اور کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے، اک دفعہ تو چین کی راہ پر چل نکلتا ہے جسے پورٹر گھیر کے واپس لاتے ہیں۔ میجر صاحبہ کا لپکے لاء بلندیوں پر پہنچنا اور یہ کارنامہ سرانجام دینی والی دنیا کی پہلی خاتون کا اعزاز اِک غضب کہانی ہے۔ کامران کا روانگی سے پہلے میک اَپ، پیر صاحب کا بن ٹھن کر اور شیو کر کے سفر شروع کرنا، فرہادی کی کوہ کنی جیسے کمال قصص ہیں جو سنگلاخ چٹانوں کے سفر میں بھی اِک جان ڈال دیتے ہیں۔ جنگلی گلابوں، پھولوں، جانوروں، سبزہ زاروں، برف زاروں، برف کی خوف ناک دراڑوں اور برفانی موٹر وے وغیرہ کے تذکرے بھی خاصے کی چیز ہیں۔ اس حوالے سے اِک اور اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’لیکن جب ہم چڑھائی چڑھ کر دوسری طرف اُترے، تو قدرت کا انتہائی خوب صورت نظارہ نظر آیا، جس نے ساری تھکاوٹ اور غصہ دور کردیا۔ گلابی پھولوں کے جھنڈ ہی جھنڈ اس ویرانے میں جہاں سال کے زیادہ حصے میں برف ہی ہوتی ہے، قدرت نے یہ پھول شاید ہم جیسے آوارہ گردوں کی حسِ جمالیات کی تشنگی کو سیراب کرنے کے لیے اُگائے تھے۔
مختلف شکل وصورت کے چھوٹے بڑے لاکھوں پھول تھے۔ کافی دیر ہم وہاں بیٹھے صرف پھول ہی دیکھتے رہے۔ وہ بھی جھول جھول کر ہمیں خوش کرنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ منیب کا کیمرہ رُک ہی نہیں رہا تھا۔ پھولوں کی خوش بو بھی مسحور کن تھی۔ جب پچھلے ساتھی گلیشیر سے نکلتے اور آتے نظر آئے، تو ہم بھی چل پڑے۔ یہاں پر ایک ہلکی سی پگڈنڈی کے نشانات تھے۔ راستے میں دو کافی بڑی جھیلیں بھی نظر آئیں، جن کا پانی نیلے رنگ کا تھا اور اُن میں پہاڑوں اور بادلوں کا عکس بہت خوب صورت لگ رہا تھا۔ سائیڈوں سے پانی سوکھ چکا تھا۔ شاید بارش نہ ہونے کی وجہ سے یا پھر گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پانی کم ہو رہا تھا۔ منیب تو فوٹو گرافی میں مگن تھا۔ اس کو بار بار کچھ کَہ کر آگے چلانا پڑتا تھا کہ کافی چلنے کے بعد بھی کیمپ سائٹ نظر نہ آرہی تھی۔ تھکاوٹ سے برا حال تھا۔ پاؤں شدید درد کر رہے تھے۔ رنگ بہ رنگے پھول ہر جگہ تھے اور خوش بو بھی ہر جگہ تھی اور یہی چلتے رہنے کی وجہ تھی۔‘‘
لپکے لاء کے چند اقتباسات قارئین کی آتشِ شوق انگیزی کے لیے شامل کیے ہیں۔ کیوں کہ اِک مختصر سی تحریری کاوش میں مصنف اور ’’لپکے لاء‘‘ کا مکمل تعارف نہیں سماسکتے۔ اس لیے کتاب خرید کر اس کا مطالعہ کرنا پڑے گا ۔
آخر میں فقط اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ جگنو کی روشنی بہت کم اور مدہم ضرور ہوتی ہے، مگر یہ روشنی سورج جیسی نہ سہی مگر زندگی کے جنگل میں بھٹکے ہوئے مسافر کو راہ سجھانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اسی طرح مذکورہ بالا سفر نامہ کوہ نوردوں کو انجان پہاڑی دروں کی راہ سجھانے کے لیے ضرور ممد و معاون ہوگا۔
اَب اُس کے شہر میں ٹھہریں یا کوچ کر جائیں
فراز آؤ! ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے