اپنائی گئی مغلوبیت کے نفسیاتی، سماجی اور ثقافتی اثرات

Blogger Zubair Torwali

’’فرانٹز عمر فینن‘‘ (Frantz Omar Fanon) فرانسیسی کالونی کے افریقی النسل باشندے تھے۔ اُنھوں نے صرف 36 سال کی عمر پائی، تاہم اُن کم عمر میں بھی اُنھوں نے پس جدیدی نظریے، نو آباد کاری سے متعلق فکر اور مغلوب قوموں کے جید فلسفی اور نفسیات دان ہونے کا شرف حاصل کیا۔ اُنھوں نے کئی شہرہ آفاق کتب تحریر کیں، جن میں "A dying colonialism”, "Black Skin, White Mask” اور "The Wretched of the Earth” نمایاں ہیں۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
’’فینن‘‘ نے تسلط اور نفسیاتی طور پر اپنائی گئی مغلوبیت کو سمجھنے کے لیے ’’نو آبادیت‘‘ (Colonialism) کا چار مرحلوں والا ڈھانچا پیش کیا۔ اس چوکھٹ (Framework) کی رو سے نو آباد کاری کا پہلا مرحلہ کسی غاصب گروہ یا قوم کا کسی دوسری قوم کی دھرتی کو قبضہ کرکے وہاں کے قدرتی وسائل پر قبضہ جمانا ہوتا ہے اور وہاں کے مقامی لوگوں کوسستی مزدوری کے لیے غلام بنانا ہوتا ہے۔
دوسرے مرحلے میں یہ غاصب نو آباد کار مقامی آبادی میں اپنی ثقافت ٹھونستا ہے، مقامی ثقافت کو توڑتا ہے اور پھر اُس کو دوبارہ اپنی منشا کے مطابق تخلیق کرتا ہے۔ یہ تبدیلی مقامی ثقافت کو نوآبادکار کی ثقافت سے الگ کرتی ہے۔ مقامی ثقافت کو وحشی اور کم تر کا درجہ دیتی ہے، جب کہ نو آباد کار کی ثقافت کو مہذب بناتی ہے۔
جب یہ عمل مکمل ہوجاتا ہے، تو تیسرے مرحلے میں مقامی لوگوں کو وحشی اور غیرمہذب مان کر نو آباد کار اس مقامی آبادی کو مہذب اور سدھانے کی ذمے داری اپنے سر لیتا ہے اور اس عمل کے لیے تسلط اور غلبے کو جائز سمجھا جاتا ہے۔
اس سے آگے چوتھا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے، جہاں نو آباد کار اپنی مرضی سے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کرتا ہے جہاں ایسے سیاسی، معاشی، تعلیمی اور ثقافتی ادارے تشکیل دیے جاتے ہیں جن کے ذریعے نوآبادکاروں کے تسلط کو طاقت دی جاتی ہے اور ان کے اس تسلط کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ ان اداروں کے ذریعے مغلوب شدہ آبائی لوگوں میں ان افراد یا گروہوں کوبھی نوازا جاتا ہے، جو اپنی ثقافت اور مقامیت چھوڑ کر نو آباد کاروں کی طرح ہوجاتے ہیں، یا ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فینن کے اس ڈھانچے یا ماڈل کی رو سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کسی کو مغلوب بنانے میں وسیع اور گہرے پیمانے پر سماجی اور نفسیاتی کام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے مغلوب افراد یا گروہوں کو مغلوب کرنے کے لیے جو عمل سب سے اہم اور کارگر ہوتا ہے، وہ مقامی افراد یا گروہوں میں اس غلبے اور تسلط (Oppression) کو اُن کی نفسیات میں شامل کرنا ہوتا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کولونیل ازم کیا ہے؟ 
نیو کولونیل ازم کیا ہے؟  
کولونائزیشن  
نیو امپیریل ازم سے کیا مراد ہے؟ 
کلاسیکل اور جدید سامراجیت میں فرق  
’’فینن‘‘ کے مطابق اس نفسیاتی عمل کو جاری رکھنے سے مغلوب لوگوں میں اپنے سے نفرت، اپنے بارے میں شک، اپنی شناخت کے بارے میں اِبہام اور خود کو کم تر سمجھنے جیسی خصلتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ مغلوب لوگ اپنی اصل شناخت کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں۔
نو آباد کاری کے دوسرے اہم دانش ور ’’پاولا فریری‘‘ (Paula Freire) اس پر مزید اضافہ کرکے کہتے ہیں کہ اسی طرح آبائی شناختوں سے کم تری کا احساس پھر مقامی لوگوں کو اُن کی اپنی شناخت سے جان چھڑانے پہ اُکساتا ہے اور وہ اس کے بدلے اُن غالب لوگوں کی شناخت اپنانے اور اُن کی نقل اُتارنے پر تُل جاتے ہیں کہ اُن کے نزدیک یہ بڑھیا ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اکثر مغلوب لوگ ان نو آباد کاروں کے مشکور ہوجاتے ہیں اور اُن کی شان میں قصیدے بھی پڑھنے لگتے ہیں۔
مغلوبیت کے یوں مقامی آبادی کی نفسیات میں نفوذ سے اُن مغلوب شدہ آبادیوں کے مختلف گروہوں کے بیچ یا ایک ہی گروہ کے بیچ انتشار شروع ہوجاتا ہے اور یوں باہم تنازعات جنم لیتے ہیں، جو نوآبادکاروں کے حق میں جاتے ہیں۔ یہ مغلوب لوگ پھر اپنے اندر ایک دوسرے سے اسی طرح کا امتیاز برتنا شروع کردیتے ہیں اور ساتھ خود کو ان غالب نو آباد کاروں کی شناخت دیتے ہیں، یا اُن کی طرح دِکھنا چاہتے ہیں۔ یہ حیران کُن بھی نہیں۔ کیوں کہ اس طرح مسلسل کم تر سمجھے جانے، مغلوب رہنے اور وسائل سے دور ہونے کی وجہ سے یہ مغلوب لوگ اپنے اُن آقاؤں کو انسانیت کا ماڈل سمجھنے لگ جاتے ہیں۔
خود کو مکمل طور پر غالب کے رنگ میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ یہ مغلوب اپنی ثقافت اور اپنی آبائی شناخت کو بے وقعت سمجھیں اور نتیجتاً اپنی ثقافت و شناخت کو مسترد کردیں۔
مزید برآں یہ نفسیاتی طور پر مغلوبیت مسلسل تسلط کو جلا بخشتی ہے۔ کیوں کہ یہ مغلوب گروہ اپنے اندر سے اس غلبے کے خلاف اُٹھنے والے مقامی قائدین پر بھروسا نہیں کرتے اور اُن پر تنقید کرتے ہیں، جس سے نجات کے کسی خواب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں رہتا۔
اَب کے دور میں اکثریتی طور پر دنیا میں کوئی گروہ اس طرح زبردستی کسی علاقے میں داخل ہوکر مقامی لوگوں کو مغلوب نہیں کرتا، تاہم دنیا کے کئی ممالک میں ’’فرانٹز فینن‘‘ کا یہ ماڈل ’’اندرونی نو آبا دکاری‘‘ (Internal colonialism) کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے، جو اکثر صورتوں میں ماضی کی نو آباد کاری سے بھی خطرناک ہے۔ کیوں کہ اس کو ماضی کی طرح واضح طور پر دیکھا جاتا ہے اور نہ محسوس ہی کیا جاتا ہے۔
تاریخی طور پر مغلوب گروہوں میں اس تسلط کی وجہ سے مقامی لوگوں میں اَب بھی اپنے بارے میں غالب لوگوں کی نسبت کم تری کا احساس پایا جاتا ہے۔ ان میں ایسے خیالات، رویے، احساسات اور عادات پیدا ہوجاتی ہیں جو ان کی خود اعتمادی (Self-esteem) کو برباد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی صحت پر بھی بری طرح اثر انداز ہوجاتے ہیں۔ اس کا ایک اثر ایکلچریشن (Acculturation) ہوتا ہے، جس سے مراد کسی فرد کی اپنے ثقافتی ورثے سے بے تعلقی اور مسلط شدہ ثقافت سے تعلق کی شدت ہے…… اور جو چار مختلف رویوں میں نمایاں ہوجاتی ہے۔
پہلی صورت دوسری ثقافت میں جذب ہوجانا (Assimilation) ہے، جہاں مغلوب شدہ فرد یا گروہ نو آباد کار کی ثقافت میں ضم ہوجاتا ہے اور اس کا اپنی آبائی ثقافت سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
دوسری صورت ’’ارتباط‘‘ (Integration) کی ہے، جہاں فرد یا گروہ دونوں ثقافتوں سے مساوی طور پر تعلق رکھتا ہے۔
تیسری صورت اپنی الگ ہونے (Separation) کی ہے جس سے مراد اپنی ثقافت سے گہرا تعلق ہوتا ہے، تاہم دوسری ثقافت سے الگ ہونا ہے۔
چوتھی اور آخری صورت اجنبیت یا باہر ہونا (Alienation or marginalization) ہے، جہاں فرد نہ اپنی ثقافت کا ہوتا ہے اور نہ دوسری کو اپناتا ہی ہے۔
ان چاروں صورتوں میں افراد یا گروہوں کی صحت کے لیے دوسری اور تیسری صورتوں (Integration and Separation) کے ملاپ یعنی اپنی ثقافت سے گہرے طور پر جڑت (Enculturation) یا دونوں ثقافتوں کے بیچ ارتباط کو بہتر گردانا گیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے