اس میں کوئی وو رائے نہیں کہ ملکِ عظیم اس وقت طو فا نوں کی زد میں ہے۔ اس کی کشتی طوفانوں میں ہچکولے کھا رہی ہے اور اس کے ناخدا بندر بانٹ میں لگے ہوئے ہیں۔ کسی کو وزارت چاہیے اور کسی کو صدارت ۔ پروٹو کول کی خواہش ملکی سلامتی سے بالا تر ہوچکی ہے۔ جمہوری نظام کی بقا اور اس کی حفاظت کی کہیں سے بھی کوئی صدا بلند نہیں ہو رہی۔
جب ذاتی مفادات ملکی مفادات سے بالا تر ہو جائیں، تو ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔ عہدوں کی حسرت نے بڑی بڑی ریاستوں کو زمین بوس کیا ہے۔ کیوں کہ ذاتی مفادات ہمیشہ تباہی کی نوید لاتے ہیں، جب کہ قومی مفاد سے وابستگی ہمیشہ ترقی کی پیغام بر ہوتی ہے۔
طارق حسین بٹ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/butt/
پاکستان کی بنیاد جمہوی کلچر ہے۔ اسے کسی فوج نے نہیں بلکہ نہتوں کے لہو نے قائم کیا تھا۔ لاکھوں انسانوں کی قربانی اس کی بنیادوں میں اپنے ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔ گم نام شہید ہی پاکستان کے حقیقی محسن ہیں۔ لہٰذا ان کی لازوال قربانیوں کو فراموش کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی عظیم قیادت میں جس کاروانِ آزادی نے حصولِ پاکستان کا اعلان کیا تھا۔ اس نے اپنی جانوں کے نذرانوں سے اسے حقیقت کا جامہ پہنایا تھا۔ سب سے مشکل کام تو اپنی حیاتی کی قربانی ہے اور قائد کے پیروکاروں نے دنیا کو جان کی قربانی دے کر جمہوریت کے پودے کی جس شان سے نشو و نَما کی تھی، اُس پر دنیا اُنھیں سدا خراجِ تحسین پیش کرتی رہے گی۔ گھر بار چھوڑنا، وطن سے ہجرت کرنا، پیاروں کو داغِ مفارقت دینا، عزیزوں سے منھ موڑنا اور اپنی ساری جمع پونجی اور اپنی جائیداد کو ایک نئے وطن کی خاطر چھوڑ دینا انتہائی مشکل فیصلہ تھا، لیکن پاکستان کا خوا ب سجانے والوں نے ایسا کرکے دکھایا تھا۔ کیوں کہ اُنھیں قائدِ اعظم کی ولولہ انگیز قیادت پر اُنھیں مکمل اعتماد تھا۔ عظیم فلاسفر علامہ اقبال نے ایسے ہی تو قائدِ اعظم کا انتخاب نہیں کیا تھا۔ اُنھیں یقین ِ کامل تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت قائدِ اعظم کو خرید نہیں سکتی۔ قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چارعنا صر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قائدِ اعظم نے جو کچھ کہا اسے اپنی فراست اور قیادت سے حقیقت کا جامہ پہنا دیا۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے قیام کا معجزہ سر انجام دے کر اُنھوں نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ متحدہ ہندوستان (مہا بھارت) کے علم بردار قائدین (مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، باچہ خان، ابوالکلام آزاد، علامہ مشرقی، عطاء اللہ شاہ بخاری اور د وسرے نیشنلسٹ علما کو شکست سے ہم کنار کرنا ایک غیر معمولی کارنا مہ تھا اور قائدِ اعظم نے یہ کارنامہ تنِ تنہا سر انجام دیا تھا۔ بقولِ شاعر:
قائد کے پاس نہ فوجیں تھیں نہ تھے تیر تفنگ
اپنی انا کی قوت سے لڑی تھی اس نے جنگ
گلی کوچوں کے فاقہ مست اس کی سپاہ تھے ٹھہرے
اپنی فہم و فراست سے کیا تھا سب کو دنگ
جمہوریت پاکستانی قوم کے خمیر میں ہے۔ لہٰذا اسے اس کے جمہوری حق سے محروم کرنے والے احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔ وہ قوم جس نے جنرل محمد ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل یحییٰ خان، جنرل پرویز مشرف جیسے طالع آزماؤں کو ٹکنے نہیں دیا ہو، وہ قوم جمہوریت پر شب خو ن مارنے والوں کو کیسے برداشت کرسکتی ہے؟ مقامِ عبرت بھی بنتے ہیں، لیکن پھر بھی طالع آزمائی سے باز نہیں آتے۔ سب کو رخصت ہو جانا ہو تا ہے، لیکن پھر بھی عبرت نہیں پکڑتے۔ طاقت سدا مٹھی میں بند بھی نہیں رہتی، لیکن یہ بات طاقت وروں کو سمجھ نہیں آتی۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ عوام ان کے در کے گدا ہیں۔ لہٰذا انھیں جیسا چاہیں گے، ہانکتے رہیں گے……!
لیکن ایسا ہو تا نہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
انتخابات قومی اُمنگوں کو زُبان عطا کرنے میں ناکام
مخصوص نشستوں کا حصول
مخصوص نشستوں سے محرومی کا ذمے دار کون؟
جمہوریت بہترین انتقام ہے
نواز شریف کو اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ لے ڈوبی
سیاست کی بساط سجانے والے کسی ایک طالع آزما سے ہی پوچھ لیا جائے کہ عوام میں آپ کی عزت و منزلت، احترام اور وقار کا مقام کیا ہے، تو ساری بات سمجھ میں آ جائے گی؟ کوئی طالع آزما قوت کے چھن جانے کے بعد قوم کو آواز دے کر دیکھے کہ قوم اس کی آواز پر کتنا لبیک کہتی ہے؟
لیکن ایک نہتا قومی لیڈر زِندانوں کی تاریک کوٹھری کے پیچھے سے عوام سے احتجاج کی اپیل کرتا ہے، تو لاکھوں لوگ اس نہتے کی محبت میں سڑکوں کو اپنے لہو سے رنگین کر نے کے لیے بے تابانہ گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔ یہ غیر معمولی بات ہے کہ 85 ہزار انسانوں نے قائدِ عوام کی محبت میں کوڑے کھائے تھے۔
بہ قولِ شاعر:
پھر شورِ سلاسل ہے، سرِ مقتلِ عشاق
پھر گنبدِ افلاک میں، آوازِ اذاں ہے
ایک خاموش انقلاب تو پہلے ہی ہر دروازے پر دستک دے چکا ہے۔ اس کا جتنی جلدی ادراک کر لیا جائے بہتر ہے۔ قوم اس وقت شدید غصے میں ہے۔ لہٰذا وہ کسی بھی جمہوریت کش دلیل کو سننے کے لیے تیار نہیں۔ سڑکیں، میڈیا اور پارلیمنٹ باغی خیالات کی آماج گاہ بنی ہوئی ہیں۔ وہ جن کے ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ قوتِ بندوق جمہوری قافلہ کو خاموش کردے گی، لیکن ایسا ہوتا نہیں۔
وقت کا دھارا بدلتا ہے اور سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ سچ اور جھوٹ میں آمیزش ممکن نہیں ہوتی۔ جھوٹ کو ایک دن سر نگوں ہو نا ہوتا ہے۔ یہ بات خدائی ضابطوں کے خلاف ہے کہ سچ اَبدی شکست سے دوچار ہو جائے اور جھوٹ اَبدی کامرانی کا حق دار بن جائے۔
زارِ روس کو ہی دیکھ لیں کہ اندھی قوت کے باوجود ایک مزدور کے بیٹے لینن سے اسے مات ہوگئی تھی؟ پاکستان کے سارے طالع آزماؤں کا آج ایک بھی نام لیوا باقی نہیں، لیکن وہ جنھوں نے جمہوریت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے دیے۔ ان کے مزاروں پر تازہ اور سرخ رنگ گلابوں کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے جذبات پھولوں کی شکل میں اُن کے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں۔ حالاں کہ وہ سارے قائدین طالع آزماؤں کے سامنے نہتے، بے بس اور کم زور تھے اور انھیں جان بھی ہارنی پڑی تھی، لیکن آخری فتح تو نہتوں کا ہی مقدر بنی۔
بقولِ شاعر:
زنجیرِ جبر جس نے پہنائی مجھ کو
لوں گا اسی سے میں سارے حساب
مجھے اس بات پر چنداں حیرانی نہیں ہو رہی کہ پارلیمنٹ میں جس طرح شور شرابا اور ہنگامہ آرائی جاری ہے، وہ ملکی استحکام پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔ اس کی بنیادی وجہ انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہے، جسے عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ من پسند اُمیدواروں کی جیت کو جس طرح بزورِ بازو یقینی بنایا گیا ہے، اُس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور سیاسی استحکام مفقود ہوتا جائے گا۔قرضوں میں جکڑا ہوا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایک غیر جانب دار مبصر کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انتخابات میں جس سا ئنسی انداز سے دھاندلی کا ڈول ڈالا گیا، اس نے دن دھا ڑے جمہوریت کا خون کر دیا ہے۔ رات کو جیتنے والے اُمیدوار صبحِ صادق کے وقت ہارے ہوئے کارواں کا حصہ بن گئے۔ ان انتخابات میں دھاندلی کا ایک ایسا اچھوتا انداز اپنا یا گیا جس پر ہر کوئی انگشتِ بدنداں ہے ۔ دھاندلی کا ایک ایسا انداز جس میں ہر آواز کو خاموش کر دیا گیاہے، ناقابلِ برداشت ہے۔
میرے اپنے حلقے میں ایک امیدوار جو صرف 2 پولنگ اسٹیشن سے جیتا تھا،لیکن جب حتمی نتیجے کا اعلان ہوا، تو وہ امیدوار 50 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیت چکا تھا۔
ایک شنید تو یہ ہے کہ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کو 11 فی صد سے زیادہ ووٹ نہیں پڑا، لیکن فارم 47 کی مدد سے اکثر سیٹوں پر جیت گئے۔سب دیکھتے رہ گئے کہ یہ کیا ہوگیا!
دھاندلی اتنے وسیع پیمانے پر ہوئی ہے کہ اس کے بعد کچھ بھی کہنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہی۔ میاں برادران کے دلوں میں وزارتِ عظمی کی محبت اس شدت سے جاگزیں ہو چکی ہے کہ اُنھیں دھاندلی کہیں نظر نہیں آ رہی۔
یاد رکھیں! نا انصافی ایک ایسی آگ ہے جو سب کچھ بھسم کر دیتی ہے۔وقت بہت کم ہے۔ لہٰذا اس آگ کو بجھانے کا اہتمام کریں۔ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔