مریم نواز شریف 220 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کی پہلی خاتون وزیرِ اعلا منتخب ہوگئی ہیں۔ اُن کے مدِ مقابل سنی اتحاد کونسل کے نام زد اُمیدوار برائے وزیرِ اعلا رانا آفتاب کوئی ووٹ بھی حاصل نہیں کرسکے۔ حتیٰ کہ اُنھوں نے خود کو بھی اپنا ووٹ نہیں دیا۔
جمہوری عمل کا حصہ بننے اور اسے آگے بڑھانے کے لیے بعض انتخابات ہارنے کے لیے بھی لڑے جاتے ہیں۔ یہاں بھی رانا آفتاب کی ہار بے شک یقینی تھی، لیکن اُنھیں اور اُن کی پارٹی کو سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیرِ اعلا منتخب کرنے کے اُس انتخابی عمل کا حصہ بننا چاہیے تھا۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ رانا آفتاب کو وزیرِ اعلا کے انتخاب کے لیے ووٹنگ سے پہلے پوائنٹ آف آرڈر پر تقریر کیوں نہیں کرنے دی گئی؟ اس بات کو ایشو بنا کر انتخابی عمل کا ہی بائیکاٹ کر کے غیرجمہوری سوچ اور رویے کی عکاسی ہی نہیں کی گئی، بلکہ اس بات کا اظہار بھی کیا گیا کہ اپنی جیت کے علاوہ کچھ بھی قابلِ قبول نہیں۔ ہمارے لیڈران مغربی ممالک کے اچھے رویوں کی تعریف تو بہت کرتے ہیں، اپنی تقاریر میں اُنھیں رول ماڈل بنا کر بھی پیش کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے جب انھی رویوں کے عملی مظاہرے کا وقت آتا ہے، تو خود اُس پر عمل نہیں کرتے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
مغربی ممالک میں ہارنے والا اُمیدوار کھلے دل کے ساتھ جیتنے والے کو اُس کی جیت کی نہ صرف مبارک باد دیتا ہے، بلکہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنے تعاون کا یقین بھی دلاتا ہے۔
ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ہار کو کھلے دل سے تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ 50، 60 ہزار ووٹوں سے ہارنے والا بھی اپنے ووٹروں کو گم راہ کرنے کے لیے ’’دھاندلی‘‘ کا شور مچاتا ہے۔
ابھی حالیہ الیکشن ہی کو دیکھ لیجیے۔ پی ٹی آئی نے دھاندلی کا شور مچاتے ہوئے دعوا کیا ہے کہ اُس کی 85 سیٹیں دھاندلی کے ذریعے ہروا دی گئی ہیں۔ اس بات کو لے کر پاکستان کو کم زور اور دیوالیہ کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد بھی کر دیا گیا۔ آئی ایم ایف کو خط لکھ کر پاکستان کو قرضہ دینے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس قسم کا یہ دوسرا وار ہے جو پی ٹی آئی کی قیادت نے پاکستان پر کیا ہے۔ اس سے پہلے سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ کے ذریعے آئی ایم ایف کو پاکستان کی مدد سے روکنے کی گھناؤنی سازش کی تھی۔
آپ کو یاد ہو گا کہ پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین عمران خان نے 2013ء کے الیکشن میں ’’35 پنکچرز‘‘ کا بڑا شور مچایا تھا اور باقاعدہ اُسے بیانیہ بنا لیا گیا تھا، مگر جب اُن سے اُس کا ثبوت مانگا گیا، تو وہ یہ کَہ کر پتلی گلی سے نکل گئے کہ 35 پنکچرز والا بیان تو محض سیاسی بیانیہ تھا۔ اب بھی 85 سیٹوں والا پراپیگنڈا دراصل ’’35 پنکچرز پارٹ ٹو‘‘ ہے۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں قومی اسمبلی کے کل 22 حلقوں میں دھاندلی کی پٹیشن دائر کی ہے، جن میں سے 10 حلقے خیبر پختونخوا کے ہیں، جب کہ پنجاب سے کُل سات حلقوں میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا ہے۔ کوئی بھی شخص 85 سیٹوں پر دھاندلی کے واویلے اور صرف 7 حلقوں کی شکایت کے بعد قول و فعل کے اس بہت بڑے تضاد کو اچھی طرح سے سمجھ سکتا ہے۔
شکست کو بہادری سے تسلیم کرنا ایک بہت بڑی خوبی ہے، جو ہر کسی کو عطا نہیں ہوتی۔ اپنی یقینی ہار کو سامنے دیکھ کر میدان سے بھاگ جانا بزدلی ہے۔ ’’سنی اتحاد کونسل‘‘ کے اراکین کو یاد رکھنا چاہیے کہ آیندہ 5 سال تک آپ کو یہ ہار برداشت کرنا ہی ہوگی۔ اگر خندہ پیشانی، حوصلے اور تدبر سے کام لیں گے، تو یہ شکست آسانی سے برداشت ہو جائے گی۔ عزت بھی کما لیں گے۔ شور شرابا، بائیکاٹ اور واک آؤٹ کے رویے کو اپنا کر روڑے اٹکائیں گے، تو کسی اور کا نقصان نہیں ہوگا۔ آپ کا اور صوبے کا نقصان ہوگا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
مسلم لیگ (ن)، اِک جائزہ
نواز شریف کو اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ لے ڈوبی
کانٹوں بھرا تاج
مریم نواز شریف وزیرِ اعلا منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی ہی تقریر میں بالکل مختلف نظر آئیں۔ جلسوں کی شعلہ بیان مقرر ایک مدبر کے روپ میں بہت اچھی لگیں۔ اپنی 80 منٹ کی تقریر میں اُنھوں نے اپنے وِژن اور ترجیحات کا ذکر کیا۔ اپنی 7 سالہ سیاسی جد و جہد اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے وہ جذباتی بھی ہوئیں اور والد کے ساتھ جیل جانے اور والدہ کی وفات کے بیان سے افسردہ اور رنجیدہ بھی نظر آئیں، تاہم اُن کی تقریر سے اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہوگیا کہ اُنھوں نے اپنے منصب کو بہ طریقِ احسن نبھانے کے لیے بہت زیادہ ہوم ورک کر رکھا ہے۔ صحت، تعلیم، روزگار، زراعت اور نوجوانوں کے مسائل اور اُن کے حل پر اُنھوں نے کھل کر اور سیر حاصل گفت گو کی۔ انفراسٹرکچر کی بہتری، صوبے کو آئی ٹی زون اور تجارتی حب بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور خصوصاً رورل ایریاز میں صفائی کی اہمیت و ضرورت کا ذکر بھی کیا اور کسانوں کے لیے سہولیات کا اعلان بھی کیا۔
محترمہ مریم نواز شریف نے خواتین کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا اعلان کیا اور ان کو قومی ترقے کے دھارے میں لانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ غریب طبقے کے لیے اُنھوں نے حکومتی پارٹنرشپ کے تحت قسطوں پر سولر سسٹم کی فراہمی کا وعدہ کیا اور گھروں کی کم یابی کے مسئلے کے حل کے لیے ایک لاکھ گھروں کی تعمیر کے آغاز سے ہاؤسنگ سکیم کا اعلان بھی کر دیا۔ میاں نواز شریف کے ڈیزائن کردہ صحت کارڈ کی بحالی، بڑے شہروں میں میٹرو بس سروس کی سہولت کی فراہمی بھی مریم نواز شریف کی تقریر کا اہم حصہ تھی۔
مریم نواز شریف کی تقریر درحقیقت عوام کے خیرخواہ ایک سچے حکم ران کی تقریر تھی جس میں عوام کی اُمیدیں جگاکر اُن کے حوصلے بلند کیے گئے ہیں۔ اُنھوں نے پنجاب کو ایک مثالی اور ترقی یافتہ صوبہ بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے خود کو اپنے عوام کے لیے 24 گھنٹے وقف کرنے اور دست یاب رہنے کا وعدہ کیا۔
مریم نواز شریف کی تقریر سننے کے بعد یہ نتیجہ آسانی سے نکالا جاسکتا ہے کہ اُنھوں نے خلائی یا دیو مالائی وعدے نہیں کیے۔ وہ صوبے میں تعمیر و ترقی سے انقلاب لانا چاہتی ہیں۔ یہ بہت محنت طلب کام ہے۔ راستہ دشوار ضرور ہے، لیکن اسے طے کرنا ناممکن نہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالا اُنھیں استقامت اور حوصلہ عطا فرمائے اور وہ اپنے وِژن کے مطابق صوبے کی ترقی اور اس کے عوام کی خوش حالی میں اپنا کردار ادا کر کے سرخرو ہوں، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔