٭ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا شجرۂ نسب :۔
انس بن مالک بن نضر بن ضمضم بن زیدبن حرام انصاری۔ آپ رضی اللہ عنہ قبیلہ انصار میں خزرج کی ایک شاخ بنی نجار میں سے ہیں۔ والدہ ماجدہ کانام اُم سلیم بنتِ ملحان ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی کُنیت ابوحمزہ رکھی، جب کہ آپ کامشہور لقب خادمُ النبی صلعم ہے۔ اس لقب پر حضرت انس کو بے حد فخر تھا۔ دس برس کی عمر میں خدمتِ رسول صلعم میں حاضر ہوئے اور دس برس تک سفر و حضر، جنگ و صلح غرض ہر حال میں سردارِ دو جہاں صلعم کی خدمت کرتے رہے۔ آپ ہردم حضوراکرم صلعم کی خدمت میں حاضر باش رہتے۔ حضور کی تبرکات میں سے آپ کے پاس چھوٹی سی لاٹھی تھی۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ لاٹھی کومیرے دفن کرتے وقت میرے کفن میں رکھ دیں۔ چناں چہ آپ کی وصیت کے مطابق اُس لاٹھی کو آ پ کے کفن میں رکھ دیا گیا۔
ماسٹر عمر واحد کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/master-umar-wahid/
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کے لیے خاص طور پر مال و اولاد میں ترقی اور برکات کی دعائیں فرمائی تھیں۔ چناں چہ آپ کے مال و اولاد میں بے حد ترقی اور برکت ہوئی۔ مختلف بیویوں اورباندیوں سے آپ کے 80 لڑکے اور لڑکیاں پیداہوئیں اورجس دن آپ کی وفات ہوئی، اُس دن آپ کے بیٹوں اور پوتوں وغیرہ کی تعداد 120 تھی۔
کثیر تعدادمیں احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ہی سے مروی ہیں۔ آپ کے شاگردوں کی تعدادبھی زیادہ ہے۔ آپ حنا کا کا خضاب سراور داڑھی میں لگاتے تھے اورخوش بو بھی بہ کثرت استعمال کرتے تھے۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ میرے کفن میں وہی خوش بو لگائی جائے، جس میں رسولِ اکرم صلعم کاپسینہ ملا ہوا ہو۔ آپ کی والدہ حضور صلعم کاپسینہ جمع کرکے خوش بو میں ملاتی تھی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
امہات المومنین
حقوقِ انسانی قرآن و حدیث کی روشنی میں
قرآنِ مجید کے پانچ حقوق
قسم کھانے سے متعلق چند اہم احکام
حضرت بہاو الدین زکریا
٭ کرامات:۔
٭سال میں دو مرتبہ پھل دینے والا باغ:۔
آپ کی کرامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کاباغ سال میں دومرتبہ پھل دیتا تھا۔ حالاں کہ فطرت کے مطابق کھجوروں کا باغ سال میں ایک مرتبہ پھل دیتاہے۔
٭ کھجوروں میں مُشک کی خوش بو:۔
اسی طرح یہ بھی آپ کی بے مثال کرامت ہے کہ آپ کے باغ کے کھجوروں سے مُشک کی خوش بو آتی تھی، جس کی مثال دنیابھرمیں کہیں بھی نہیں ملتی۔ (مشکوٰۃ شریف، جلد 2، ص: 545)
٭دعا سے بارش برسی:۔
ایک دفعہ آپ کے باغ کاباغبان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شدید خشک سالی کی شکایت کی۔ آپ نے وضو کی اورنماز پڑھی اورباغبان سے کہا کہ آسمان کی طرف دیکھ۔ کیا تجھے کچھ نظرآرہاہے؟ باغبان نے عرض کی، حضور! مجھے آسمان میں کچھ بھی نظرنہیں آرہا۔ آپ نے پھر نمازپڑھ کر یہی فرمایا اور باغبان نے یہی جواب دیا۔ پھر تیسری بار نماز پڑھ کر آپ نے باغبان سے پوچھا کہ کیا آسمان پر کچھ نظرآرہاہے؟ باغبان نے جواب دیاکہ جی ہاں! ایک پرندے کے پرکے برابر بدلی کا ٹکڑا نظر آ رہا ہے۔ آپ برابر نماز اوردعا میں مشغول رہے۔ یہاں تک کہ آسمان پر ہر طرف اَبر چھا گیا اورنہایت زورداربارش شروع ہوئی۔ پھر حضرت انس نے باغبان کو حکم دیاکہ گھوڑے پرسوار ہوکر دیکھو کہ یہ بارش کہاں تک پہنچی۔ باغبان نے چاروں طرف گھوڑا دوڑا کر دیکھا پھر آکر کہاکہ یہ بارش ’’میسیرین ‘‘ اور ’’قضبان‘‘ کے محلہ جات سے آگے نہیں برسی۔ (طبقات ابن سعد: جلد 7، صفحہ 21)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
