عام انتخابات اب پورے ملک میں ہوچکے ہیں اور اس کالم کا فائدہ پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر نہیں ہوسکتا۔ مطلب یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ کالم پی پی کو کوئی انتخابات میں فائدہ دے سکتا تھا…… لیکن اب کچھ حقائق بیان کرنا بہت ضروری ہیں، بلکہ ایک مشورہ ہے مفت پیپلز پارٹی کی قیادت کوبحیثیتِ تاریخ، سیاست و معاشرتی علوم کے طالب علم کے۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ڈھیر ساری خامیوں اور خرابیوں کے باجود اس ملک کو اگر صیح معنوں میں کسی نے کچھ دیا ہے، تو اُن میں پیپلز پارٹی سر فہرست ہے، لیکن بدقسمتی سے پیپلز پارٹی کی میڈیا ٹیم بہت ہی کم زور بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مکمل طور پر ناکام ہے، تو غلط نہ ہوگا…… یعنی سچ یہ ہے کہ اس کے سیاسی مخالفین اپنی مٹی بیچ لیتے ہیں، لیکن یہ سونا بھی نہیں بیچ سکتے، بلکہ ان کے کام دوسرے اپنے نام لگوا لیتے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اُن کے کاموں کی اُنھیں سے مخالفت ثابت کرلیتے ہیں۔
ہمارے خیال میں پی پی کے نوجوان چیئرمین کو اس پر کوئی کمیشن کوئی تھنک ٹینک بٹھانا چاہیے۔ اس کا کوئی مناسب حل نکالنا چاہیے۔ یہاں پر ہم پی پی کے کچھ کارناموں کا ذکر کریں گے، جو اُنھوں نے کیے، لیکن نہ تو وہ اس کا کریڈٹ لے سکے اور نہ سیاسی فائدہ۔ ہم مکمل غیر جانب داری سے درجِ ذیل کاموں کا ذکر کر رہے ہیں اور اگر یہاں ہم کچھ غلط بیانی کرنے کا ارتکاب کر رہے ہیں، تو ہم اپنے قارئین کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہماری اصلاح کریں۔ اس طرح ہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اُن کا نکتۂ نظر شائع کریں گے۔
دوسری بات، یہ کالم پی پی کے ایک سکہ بند کارکن اور راجہ پرویز اشرف صاحب کے سیاسی حمایت کار ملک سہیل کی خواہش پر لکھ رہا ہوں کہ جب مَیں نے اس بارے میں ملک صاحب سے بات کی، تو اُنھوں نے حکم دیا کہ اس کو لازماً لکھا جائے۔
٭ ختم نبوت:۔ اسلام کی ساڑھے چودہ سالہ تاریخ میں پہلی بار فتنۂ قادیان کو قانونی طور پر پیپلز پارٹی نے ختم کیا…… اور باقاعدہ آئینی میں ایک شق ڈال دی گئی کہ جو شخص ختم المرسلین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتا، وہ مسلمان نہیں۔ اس کے علاوہ وزارتِ حج کا فارمل اجرا، قرآنِ پاک کی طباعت کے لیے غلطیوں سے پاک ادارے کا اجرا، فلم سنسر بورڈ کا باقاعدہ علاحدہ سے قیام، شراب اور جوے پر پابندی، مساج سینٹر کی بندش،جمعہ کی چھٹی، مسلم امہ کا اتحاد اور اسلام فوبیا کی بات یہ سب پی پی کے کارنامے ہیں…… لیکن آج دیکھ لیں کہ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ٹھیکے دار اور پیدا ہوگئے ہیں، اور وہ خود ساختہ پہرہ دار بن چکے ہیں، بلکہ آج وہ پی پی کو اسلام سے باہر ثابت کر رہے ہیں اور پی پی ایک طرف دبکی بیٹھی ہے۔
٭ آئین:۔ کسی بھی ملک کی یک جہتی کی بنیادی دستاویز آئین ہوتا ہے اور جن ملکوں میں آئین نہیں ہوتا، وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ آپ کے پڑوس میں بھارت جہاں درجنوں زبانیں، درجنوں مذاہب، درجنوں قبائل اور درجنوں ثقافتیں ہیں، لیکن اُن کو ایک آئین نے یک جا کیا ہوا ہے…… مگر ہم 24 سال آئین نہ بناسکے۔ اس طرح قائدِ اعظم کا پاکستان تڑوا دیا، مگر جوں ہی پیپلز پارٹی کو طاقت ملی، اس نے محض سوا سال میں دو آئین پہلے عبوری آئین پھر مکمل آئین بنا کر دیا۔ آج سب سے زیادہ آئین شکنی کا الزام پی پی پر ہے جب کہ ضیاء الحق اور مشرف کی کابینہ کے ارکان آئین کے پہرے دار بن گئے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
پیپلز پارٹی کی تجدید وقت کی ضرورت  
پاکستان میں سیاسی و انتخابی اتحادوں کی تاریخ  
پاکستانی تاریخ کے چند پُراَسرار قتل 
جناب، یہ 80ء کی دہائی نہیں ہے!  
٭ دفاع:۔ آج آپ کا دفاع مکمل طور پر آپ کے ایٹمی پروگرام سے وابستہ ہے۔ کیوں کہ بھارت سے آپ روایتی جنگ کسی صورت بھی نہیں جیت سکتے اور پھر آج کل اس کے استعمال کے لیے ائیر فورس کے جیٹ طیارے بے شک ’’ایف 16‘‘ ہی کیوں نہ ہوں، کا استعمال ممکن نہیں۔ کیوں کہ یہ ریڈار پر آسکتے ہیں، بلکہ آج کل اس کے لیے میزائل ضروری ہیں۔ سو یہ دونوں ٹیکنالوجیاں پاکستان کو پیپلز پارٹی نے دیں، لیکن دیکھ لیں کہ آج یہ دونوں کریڈٹ اُن کے پاس نہیں، بلکہ الٹا اُن پر کہوٹہ کی سودے بازی کا الزام لگایا گیا ہے۔
٭ معیشت:۔ آج پاکستان کی معیشت میں اہم کردار زراعت، تھوڑی بہت انڈسٹری اور اوور سیز پاکستانیوں کا ہے۔ آج اوور سیز ریمیٹس بند کر دیں، آپ کی معیشت دھڑام سے گر جائے گی۔ زراعت میں بہتری تب آئی جب پی پی پی نے زرعی اصلاحات کی اور ہاریوں اور کسانوں کو مالکانہ حقوق دیے۔ انڈسٹری میں سیالکوٹ کو سپورٹس ایکسپورٹ حب اور فیصل آباد میں پہلا صنعتی زون پی پی نے بنایا۔ اوور سیز کا نظام پی پی نے دیا۔ وگرنہ پہلے باہر جانا بلکہ پاسپورٹ بنانا بہت ہی مشکل کام تھا…… مگر آج سروے کرلیں، تھوڑا بہت کسانوں کو چھوڑ کر صنعتی گروپ پی پی کے ساتھ ہیں اور نہ اوور سیز میں اس کی مقبولیت ہی ہے۔
٭ تعلیمی خدمات:۔ پاکستان کی تاریخ میں صحیح معنوں میں تعلیمی اصلاحات کی گئیں۔ سکولوں اور کالجوں میں ایک دم سے فیس کی جگہ چندہ آگیا۔ بسوں میں طلبہ کاکرایہ ختم کر دیا گیا، تاکہ غریب کا بچہ پڑھ جائے۔ قائد اعظم یونیورسٹی سے لے کر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی تک پی پی نے بنائی، لیکن آپ کے مخالفین نے چند لیپ ٹاپ دے کر سب کچھ اپنے نام کروا لیا۔
٭ زرعی اصلاحات:۔ پاکستان کی معیشت میں اہم عنصر زراعت ہے۔ صحیح معنوں میں اس میں نسبتاً ترقی تب ہوئی جب پیپلز پارٹی نے زرعی اصلاحات کیں۔ جب کسانوں، ہاریوں اور مزارعوں کو مالکانہ حقوق ملے، تو زراعت کی پیدوار میں ایک دم سے اضافہ ہوگیا۔ یہ وہی دور تھا جب زرعی مشینری پاکستان میں متعارف ہوئی۔ وگرنہ تھریشر ہاروسٹر جو یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں ایک صدی قبل آچکی تھی، پاکستان میں خواب تھی۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے علاقہ میں جب کوئی یورپ اور امریکہ سے آکر بتاتا کہ وہاں کس طرح کٹائی گوائی ہوتی ہے، تو ہمارا عام کسان یہ سن کر حیرت زدہ ہوتا بلکہ کچھ سادہ لوح لوگ اس کو جھوٹ سمجھتے۔ اُس دور میں ملک میں کمرشل طور پر پولٹری کی فارمنگ شروع ہوئی، بائیو گیس کو متعارف کروایا گیا۔ گلہ بانی کو جدید طریقوں پر کمرشل پروڈکٹ کے طور پر متعارف کروایا گیا اور سبزیوں اور پھلوں کی پیدوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔
٭ شخصی و سیاسی آزادی:۔ ’’ون مین ون ووٹ‘‘ یعنی ہر شخص کا ایک ووٹ ہوگا، کا تصور اول ذوالفقار علی بھٹو نے دیا کہ جس کے نتیجے میں پاکستان کا ہر شہری خود بہ خود بااختیار بھی ہوا اور اہمیت اختیار کرگیا۔ حتی کہ قبائلی علاقوں میں جہاں یہ ناممکن امر تھا، خصوصا خواتین کے حوالے سے، وہاں پر بھی شدید سیاسی نقصان کا رسک لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ نظام نافذ کیا۔ صحافتی تنظیموں، طلبہ یونین، مزدوروں اور کسانوں کی انجمنوں کا اجرا پیپلز پارٹی نے کیا باقاعدہ سرکاری طور پر۔ پھر اس سے اثر لے کر ملک میں رکشا یونین، تانگہ یونین تک بن گئی۔ وگرنہ اس سے پہلے بس وکلا اور دانش وروں کی یونین تھی اور طلبہ یونین غیر سرکاری طور پر ہی تھی۔ میڈیا جو کہ شروع ہی سے پیپلز پارٹی مخالف تھا اور پیپلز پارٹی دور سے پہلے اس پر بس دو اداروں کی اجارہ داری تھی، لیکن پیپلز پارٹی نے اس نیکسس کو توڑا اور مزید اخبارات کے اجرا کے اجازت نامے دیے…… بلکہ مجھے یاد ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں پہلی بار ایک ایس ٹی این نام سے نیا ٹیلی وِژن متعارف کروایا گیااور محترمہ کے دور سے میڈیا کی آزادی کی شروعات شروع ہوئی۔
٭ سی پیک:۔ یہ بات اسلام آباد میں موجود تمام سیاسی صحافتی حلقوں اور اداروں میں موجود شخصیات کو معلوم ہے کہ سی پیک کا بنیادی آئیڈیا آصف زرداری کا تھا اور اُنھیں کے دور میں اس کا طریقۂ کار وغیرہ طے کیا گیا۔
٭ صوبائی خود مختاری:۔ صوبوں کے اختیار اور سینٹ کا قیام کہ جہاں تمام صوبوں کی برابر کی نمایندگی تھی کا آغاز پیپلز پارٹی نے 73ء کے آئین میں کیا تھا۔ اس کی انتہا جناب آصف زرداری نے آئین کی شاید 19ویں ترمیم میں کیاور تمام حقوق صوبوں کے حوالے کیے۔
٭ خواتین و اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ:۔ میرا خیال ہے کہ خواتین کو خود اختیاری اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ صیح معنوں میں پیپلز پارٹی نے کیا۔ انتظامی طور پر اول گورنر ڈپٹی سپیکر، سپیکر اور سب سے بڑھ کر وزیرِاعظم پاکستان کا عہدہ خواتین کو پیپلز پارٹی نے دیا۔
٭ کشمیر:۔ درحقیقت پیپلز پارٹی کی تشکیل ہی کشمیر کے مسئلے پر ہوئی تھی اور بھٹو صاحب کو ایوب کابینہ سے معاہدۂ تاشقند کی وجہ سے نکلنا پڑا تھا۔ کیوں کہ بھٹو صاحب کا موقف تھا کہ ایوب خان میدان میں جیتی جنگ مذکرات میں ہار آیا اور کشمیر پر سودے بازی ہوگئی۔
المختصر، یہ ایک لمبی فہرست بن سکتی ہے لیکن کالم میں اتنی گنجایش نہیں ہوتی کہ ہر بات کو لکھا جائے۔
یہ اوپر جو چند ایک اہم باتیں تحریر کی گئی ہیں، اگر ان پر پیپلز پارٹی کی قیادت اعلا سطح پر غور کرے کہ آخر وہ اپنی ان عظیم سیاسی کامیابیوں کو کیش کیوں نہ کروا سکی، تو شاید پیپلز پارٹی بہتر طور پر عوام میں مقبولیت حاصل کرلے……لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں، اس کے مطابق پیپلز پارٹی کی سیکنڈ لیڈر شپ کو اس کا اداراک ہی نہیں۔ جو شہروں کی سطح پر اُن کی تنظیمیں ہیں، وہ محض چند چاپلوس عناصر پر مشتمل ہیں کہ جن کا سیاسی علم وشعور صفر ہے اور عملی کام صفر سے بھی کم۔ یہ لوگ محض معاشرے میں اثر و رسوخ کے لیے عہدوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔
مَیں پوری ذمے داری سے سمجھتا ہوں کہ خاص کر پنجاب اور خیبر پختون خوا کے اکثر ضلعی صدور اپنے متحرک جیالوں کو جانتے ہی نہیں، جب کہ اُن کے اکثر تحصیل لیول کے ذمے داران کو معلوم ہی نہیں کہ اُن کی یونین کونسل کی تعداد کتنی ہے؟ اب جب تک نچلی سطح پر کارکنان کو خود کسی چیز کی آگاہی نہ ہوگی، تو اوپری سطح پر آپ کس طرح ایک سیاسی تاثر بناسکتے ہیں؟
ہم سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ایک قومی سطح کی جماعت ہے اور ہم اس کے ہم درد ہیں۔ ہم تمام قومی جماعتوں کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ سو اسی وجہ سے پیپلز پارٹی کی اعلا قیادت سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور کوئی قابلِ عمل بہتر حکمت عملی بنائے۔اس سے نہ صرف پیپلز پارٹی کو سیاسی فائدہ ہوگا، بلکہ پیپلز پارٹی کی مضبوطی ملکی سیاست کے لیے نیک شگون بھی ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔