پانامہ ڈرامے کی بدولت محمد نوازشریف کو سپریم کورٹ کے ذریعے نااہل قرار دے کر ایوانِ اقتدار سے نکلوا یا گیا۔ نواز شریف نے جلسوں، ریلیوں اور میڈیا ٹاکس میں متعدد مرتبہ اس جملے کو دہرایا کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ یہ جملہ اتنا مشہور ہوا کہ نواز شریف کے چاہنے والوں اور مخالفین دونوں کی زبان زدِ عام ہوا۔
ایک موقع پر نواز شریف نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میں سوال پوچھتا ہوں: ’’مجھے کس نے نکالا؟‘‘ پھر وقت نے ثابت کیا کہ نواز شریف کو مسندِ اقتدار سے ہٹانے والی کچھ نادیدہ قوتیں نہ صرف بے نقاب ہوئیں، بلکہ اُن نادیدہ قوتوں نے براہِ راست اور بالواسطہ نواز شریف سے زیادتیوں کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ پشیمانی کا اظہار بھی کیا۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
نواز شریف کے خلاف مقدمات بغیر کسی ٹھوس شواہد کے چلائے گئے اور من مرضی کے فیصلہ جات بھی حاصل کیے گئے۔ احتساب عدالت کے فیصلے اعلا عدالتوں میں ردی کی ٹوکری ثابت ہوئے۔ کیوں کہ اگربات صرف کرپشن کی ہوتی، تو نواز شریف کے دورِ حکومت کے منصوبہ جات میں سے کرپشن نکال کر سزا دی جاتی، نہ کہ بیٹے سے وصول نہ کی گئی تنخواہ کا انتخابی گوشواروں میں اندراج نہ ہونے کے جرم کی اتنی بڑی سزا دلوائی جاتی اور کروڑوں پاکستانیوں کے ووٹ سے منتخب وزیرِ اعظم کو بہ یک جنبش قلم مسندِ اقتدار سے ہٹادیا جاتا۔
یاد رہے کہ پانامہ اسکینڈل میں نواز شریف کا براہِ راست نام تک مذکور نہ تھا، جب کہ پانامہ لسٹ میں 400 سے زاید پاکستانیوں کے نام کا اندراج تھا، جن کے خلاف آج تک کوئی قانونی چارہ جوئی نہ ہوئی…… یعنی پانامہ اک ڈراما تھا، جس کا مقصد صرف نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانا تھا۔
بہرحال نواز شریف کے لیے اقتدار سے ہٹائے جانا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا، جبری اور خود ساختہ جلاوطنی کوئی نئی بات نہ تھی۔ کبھی طیارہ سازش کیس، تو کبھی کرپشن کے من گھڑت الزامات……! یہ بات اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ نواز شریف کو اقتدار اُسی وقت سونپا گیا جب مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان داخلی و خارجی معاملات میں زبوں حالی کا شکار ہوچکی ہوتی تھی، مگر جیسے جیسے نواز شریف کی زیرِ قیادت ریاستِ پاکستان اندرونی و بیرونی معاملات میں صحیح پٹڑی پر چل کر اپنی منزلِ مقصود کی جانب گام زن ہوتی، ویسے ویسے نواز شریف کو محلاتی سازشوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا رہا۔
تیسری مرتبہ وزیرِاعظم منتخب ہونے کے بعد مشرف دور سے جاری دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ اور معاشی طور پر بدحال ریاست کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کے لیے بھرپور کوششیں شروع کر دی گئی، مگر جیسے ہی نواز شریف نے آئین شکن پرویز مشرف کے خلاف 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی یا مارشل لا کے اقدامات پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، اُسی وقت نواز شریف کو مسندِ اقتدار سے ہٹانے کے لیے منصوبہ سازوں نے پلاننگ شروع کردی۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
عمران خان مکافاتِ عمل کا شکار  
پی پی پی اور ن لیگ کی نورا کشتی  
الیکشن 2024 بارے خفیہ اداروں کی رپورٹ  
اصلی، نسلی اور فصلی  
باہر شیر، اندر ڈھیر  
سال 2013ء کے عام انتخابات میں ’’35 پنکچر‘‘ یعنی دھاندلی کے نام پر رچائی گئی مہم جوئی میں منصوبہ سازوں کی جانب سیاسی محاذ پر سربراہی ان کے کٹھ پتلی عمران احمد خان نیازی کو سونپی گئی۔ ایک طرف عمرانی و قادری دھرنے، دوسری جانب میڈیا پر براجمان متعدد مسخروں کو حکومتِ وقت کے خلاف تبرہ بازی کی سرِعام سہولت کاری فراہم کی گئی۔ جیسے جیسے آئین شکن پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمہ کی ایوانِ عدل میں شنوائی شروع ہوئی اور آئین شکنی ثابت ہونا شروع ہوئی، ویسے ویسے حکومتِ وقت کے خلاف نت نئے محاذوں پر رُکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔
ایک طرف پاکستان اور چین کی جانب سے سی پیک کے لیے منصوبوں کے افتتاح کی خبریں دوسری جانب کٹھ پتلیوں کی جانب سے سی پیک کے رستے میں روڑے اٹکانے کا نہ ختم ہونے والے سلسہ جاری و ساری رہا۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف من گھڑت مہم میں ناکامی کے بعد منصوبہ سازوں کو پانامہ ڈراما تک انتظار کرنا پڑا۔ پانامہ ڈراما کے اختتام پر نواز شریف کو وزارتِ عظمی سے ہٹانے کے باوجود منصوبہ سازوں نے ہمت نہ ہاری ۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں کم زور ترین حکومت کے خلاف مذہبی جتھوں کو دارالحکومت پر چڑھائی کرنے کابھرپور موقع فراہم کیا گیا۔ منصوبہ سازوں نے نواز شریف کے خلاف بظاہر کامیاب مہم جوئی کے بعد بطورِ انعام اپنے کٹھ پتلی کو مسندِ اقتدار پر بٹھانے کی منصوبہ بندی و مہم بھرپور انداز میں چلائی۔ یہاں تک کہ سال 2018ء کے انتخابات کی رات الیکشن کمیشن کے آرٹی ایس سسٹم کو بے ہوشی کا ٹیکا بھی لگانا پڑا۔
بہرحال تاریخ نے ثابت کیا کہ نواز شریف کا آئین شکن مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ بالکل ٹھیک تھا، جس کی پاداش ہی میں نواز شریف کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی حکومت کے خلاف فیض آباد دھرنا بھی حکومتِ وقت کے خلاف سازش تھی۔
تاریخ گواہ ہے کہ نواز شریف کو ہمیشہ محلاتی سازشوں کے ذریعے عوامی نمایندگی سے محروم کیا گیا، مگر وہ ہمیشہ عوامی طاقت سے بار بار مسندِ اقتدار پر براجمان ہوا۔ نواز شریف کو ہٹانے والے آج کہیں نظر نہیں آتے۔ کئی منصوبہ ساز آئے اور کئی گھروں کو چل دیے۔ آج کٹھ پتلی عمران خان مکافاتِ عمل کا شکار ہوچکا ہے، مگر آج بھی نواز شریف اپنے عوام کے درمیان موجود ہے۔
افسوس صرف اس بات پر کیا جاسکتا ہے کہ صرف نواز شریف کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے لیے ریاستِ پاکستان کے کئی قیمتی سال برباد کیے گئے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔