سال 2014ء کے دوران میں 126 روزہ تاریخ ساز دھرنے کے دوران میں عمران خان کا قول: ’’ہفتے کی رات ایمپائر کی اُنگلی اُٹھ جائے گی!‘‘ بہت ہی مشہور ہوا۔ پھر 13 اور 14 جنوری 2024ء کی درمیانی ہفتہ کی رات پاکستان کی سب سے بڑی آئینی عدالت میں سچ مچ ایمپائر کی اُنگلی اُٹھ گئی اور یہ اُنگلی اُٹھنے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف فروری میں منعقد ہونے والے عام انتخابات سے ظاہری طور پر کلین بولڈ ہوگئی۔
ایڈوکیٹ ریاض احمد کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
اپنے گذشتہ دو کالموں ’’الیکشن ایکٹ کے تابع انتخابی نشان کا حصول‘‘ اور ’’انٹرا پارٹی الیکشن، قانونی تقاضے اور غیر جمہوری رویے‘‘ میں مفصل انداز میں انتخابی نشان کے حصول کے لیے انٹرا پارٹی انتخابات کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ جمہوری سیاسی جماعتوں میں پائے جانے والے غیر جمہوری رویوں کو آشکار کیا تھا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کی پٹیشن پر پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو نہ صرف کالعدم قرار دیا گیا، بلکہ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان بلے سے بھی محروم ہوگئی۔ عدالتی فیصلہ جات پر تبصرہ و تنقید کرنا ہر شہری کا آئینی و جمہوری حق ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے یا غلط، اس پر تبصرہ کرنے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی وکلا سپریم کورٹ میں کن سوالات کے جوابات/ دلائل دینے سے قاصر رہے۔
عدالت:۔ اکبر ایس بابر کے پی ٹی آئی کے بانی ممبر ہونے کا ثبوت تو موجود ہے۔ اب آپ ان کے پارٹی سے استعفا یا اُن کو پارٹی سے نکالنے کا ثبوت دکھا دیں۔
وکلا:۔ آئیں بائیں شائیں…… پی ٹی آئی وکلا کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہ کرسکے۔
عدالت:۔ کیا پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر کاغذاتِ نام زدگی پڑے ہیں؟ انصاف ڈاٹ پی کے پر تو کوئی کاغذاتِ نام زدگی نہیں پڑے ہوئے۔
عدالت:۔ تحریکِ انصاف نے پارٹی آئین و قانون کے مطابق الیکشن نہیں کروایا۔
وکلا:۔ جی آپ کی بات صحیح ہے۔ الیکشن جیسا ہونا چاہیے تھا، ویسا نہیں ہوا۔
عدالت:۔ الیکشن کمیشن پر بد نیتی کا الزام ثابت کریں۔
وکلا:۔ الیکشن کمیشن کے خلاف بد نیتی کا الزام واپس لیتے ہیں۔
عدالت:۔ کیا الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے پارٹی کو نوٹس کیا جب آپ برسراقتدار تھے؟
وکلا:۔ جی بالکل نوٹس 2021ء مئی کو جاری کیا جب ہماری حکومت تھی۔
عدالت:۔ پھر الیکشن کمیشن نے امتیازی سلوک کیسے کیا؟ یہ نوٹس تو آپ کے علاوہ دوسری جماعتوں کو اس نوٹیفکیشن میں انٹرا پارٹی کے لیے جاری کیا گیا۔
وکلا:۔ جی بالکل ایسا ہی ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ٹکراو کی نہیں مفاہمت کی ضرورت ہے 
الیکشن ٹریننگ میں کروڑوں کا گھپلا  
جنرل ضیا کے پاکستانی سیاست پر اثرات  
لیول پلینگ فیلڈ کا رونا روتی قوم  
ایم کیو ایم بارے ایک غیر جانب دارانہ تجزیہ 
عدالت:۔ پھر الیکشن کمیشن کا آپ کے ساتھ امتیازی سلوک تو نہ ہوا، الیکشن کمیشن نے تو پھر سب کو برابر ٹریٹ کیا؟
عدالت:۔ جو افراد آپ کے بلا مقابلہ انٹرا پارٹی الیکشن میں منتخب ہوئے آپ کے قانون کے مطابق پارٹی الیکشن لڑنے کے لیے 50 ہزار فیس دینا پڑتی ہے۔ اُمیداروں سے فیس وصول کی رسیدیں یا بنک میں پیسا جمع کرانے کا کوئی ثبوت؟
وکلا:۔ جی وہ کیش میں پیسا لیے تھے۔ بنک ریکارڈ نہیں ہے۔ رقم وصولی کی رسید بھی نہیں ہے۔
عدالت:۔ کیا اکبر ایس بابرپی ٹی آئی کا ممبر ہے؟ اگر نہیں، تو استعفا یا اُس کے خلاف پارٹی ضابطہ کے تحت کارروائی کا کاغذ دکھا دیں۔
وکلا:۔ اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہے، لیکن اُس کو پارٹی سے نکالنے کا ثبوت بھی نہیں ہے۔
حقیقتِ حال یہی ہے کہ پی ٹی آئی وکلا سپریم کورٹ میں انٹرا پارٹی انتخابات کو پارٹی آئین اور قواعد و ضوابط کے تحت انعقاد کے دستاویزی ثبوت پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ بہرحال یہ طے شدہ بات ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دیگر اہم مقدمات کی طرح اگر اس مقدمہ کی لائیو کوریج کا فیصلہ نہ کرتے، تو حسبِ روایات پی ٹی آئی وکلا و سیاسی رہنماؤں نے عدالت کے باہر پریس کانفرسوں اور میڈیا ٹاکس میں رنگ بہ رنگے راگ الاپنا تھے۔ سپریم کورٹ فیصلہ پر کچھ تجزیہ کاروں کی تنقید بے جا ہے۔ کیوں کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد سیاسی جماعتوں پر کروانا لازم ہے، ورنہ انتخابی نشان سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ کیا الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ہدایات جاری کی تھیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائیں اور کیا اُن دونوں اداروں ہی نے پی ٹی آئی قیادت کو حکم جاری کیا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن اس بھونڈے انداز میں کروائیں کہ کوئی دستاویزی ثبوت بھی نہ رکھیں؟ کیا پی ٹی آئی لیڈر شپ کو معلوم نہ تھا کہ فارن فنڈنگ مقدمہ میں اکبر ایس بابر عرصۂ دراز سے پی ٹی آئی قیادت کو الیکشن کمیشن اور اعلا ترین عدالتوں میں کھجل خوار کر رہا ہے؟ اور ایسے شخص کو انٹرا پارٹی الیکشن میں موقع فراہم نہ کرنے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا اکبر ایس بابر میڈیا والوں کی بارات لے کر پی ٹی آئی آفس کاغذاتِ نام زدگی لینے نہیں گیا تھا؟ کیا اکبر ایس بابر نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے کا اعلان نہ کیا تھا؟ حالیہ مقدمے کی لائیو کوریج کے دوران میں پی ٹی آئی کے منجھے ہوئے سینئر وکلا جو عدالت سے باہر میڈیا کیمروں کے سامنے شیر کی طرح دھاڑتے دکھائی دیتے ہیں، مگر افسوس عدالت کے اندر بھیگی بلی بنے دکھائی دیے۔ سماعت کے دوران میں بعض مواقع پر مخالف وکلا اور عدالت کے سوالات و دلائل کے سامنے پی ٹی آئی وکلا انتہائی بے بس دکھائی دیے۔
یاد رہے اِس وقت پی ٹی آئی کی لیڈر شپ سیاسی افراد کی بجائے وکلا پر مشتمل ہے، لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ قانون کے رکھوالے ہی الیکشن ایکٹ کی من و عن پیروی سے کنی کتراتے دِکھائی دیے۔ 9 مئی واقعات کی بدولت پارٹی پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھی، مگر انٹرا پارٹی انتخابات، الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق انعقاد نہ کروانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ بحیثیتِ قانون کے طالب علم یہ سمجھتا ہوں کہ پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کی سب سے زیادہ ذمے داری موجودہ پی ٹی آئی لیڈرشپ پر عاید ہوتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔