بچپن سے سنتے چلے آرہے تھے کہ نوابِ دِیر محمد شاہ جہان خان نے ریاستِ دِیر میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے نہ صرف اس ضمن میں اپنی ریاست میں کوئی کام نہیں کیا بلکہ دوسرے حوالوں سے بھی اِس قسم اور دوسرے ترقیاتی کاموں کی حوصلہ افزائی کے بہ جائے اِن کی راہ میں روڑے اٹکائے اور ریاستی باشندوں کا اِس ضمن میں اپنے طور پر ریاست سے باہر تعلیم حاصل کرنے پر اُن کی حوصلہ افزائی کرنے کے بہ جائے اُن کو تختۂ مشق بنایا۔ اِس ضمن میں یہ بھی سنتے چلے آرہے تھے کہ ریاستِ دِیر میں نوابِ دِیر کے کتوں کے لیے اسپتال تو موجود تھا، لیکن انسانوں کے علاج کی خاطر اسپتال نہیں تھا۔
ڈاکٹر سلطانِ روم کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/dr-sultan-e-rome/
جب بڑے ہوئے تو بھی یہی کچھ سننے اور کتابوں میں پڑھنے کو ملا۔ مثال کے طور پر ایک ایرانی سیاح محمود دانشور کے سفرنامے ’’کافرستان اور چترال۔ دیر۔ سوات کی سیاحت‘‘ (اردو ترجمہ خلیل احمد، شائع کردہ: ویسٹ پاک پبلشنگ کمپنی لمیٹڈ، لاہور، دوسرا ایڈیشن ترمیم شدہ، اکتوبر 1953ء) میں ریاستِ دِیر کے حوالے سے صفحہ 38 پر ایک سرخی ہے کہ ’’کُتّوں کے لِئیے ہسپتال ہَیں، اِنسانوں کے لِئیے نہیں‘‘۔ محمود دانشور رفاہِ عامہ کے کاموں کے ضمن میں نواب شاہ جہان خان کے متعلق اِس کتاب کے صفحہ 44 پر لکھتا ہے کہ ’’وُہ باتیں بُہت زیادہ کرتے ہَیں۔ مُجھے بتایا گیا کہ وُہ متواتر تین گھنٹے تک باتیں کرسکتے ہیں۔ زبان میں بڑی چاشنی ہَے اوَر فارسی خُوب بولتے ہیں۔ وُہ جب کسی اجنبی سے گفتگو کرتے ہیں تو یہی کہتے ہیں:۔ ’میں نے دیرؔ کو ایک جنّت بنا دیا ہَے۔ یہاں ہر قسم کے اِنتظامات ہوگئے ہیں۔ رعایا بڑی خوش ہَے۔ رفاہِ عامہ کے لِیئے اِتنی سکیمیں منظور کردی گئی ہیں اَور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ریاست دیر کی اہمیّت بہت زیادہ ہَے۔ اس لِئیے کہ اس کی سرحد افغانِستان سے مِلتی ہَے‘۔‘‘
محمود دانشور آگے لکھتا ہے کہ ’’مَیں نے مختصر عرض کردیا ہَے کہ نوابؔ صاحب اِس موضوع پر گھنٹوں باتیں کرتے ہَیں۔ اوّر اجنبی صرف ان سے مِل کر گھر واپس چلا جائے تو وُہ بُہت خوش ہوگا کہ نواب صاحب اپنی رعایا کی بہبود کے لِئیے کِس قدر کام کررہے ہیں۔
وُہ کام تو بُہت کرتے ہیں لیکن اگر کوئی نواب صاحب سے یہ پُوچھے کہ آپ کی ریاست میں مدرسے اَور ہسپتال کِتنے ہَیں تو فوراً ان کی پیشانی پر بَل پڑ جاتے ہَیں۔ وُہ ان باتوں کو پسند نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہَے کہ لوگوں کو ہسپتالوں اَور مدرسوں کی ضروُرت نہیں۔ شاید ان کے ہاں لوگ بیمار نہیں ہوتے۔ میں نے وہاں یہ بھی سُنا تھا کہ یہاں تپدق کا مرض بہت عام ہَے۔
ساری ریاست میں کوئی ہسپتال نہیں صرف نواب صاحب ان باتوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ حالانکہ حکومتِ پاکِستان کی طرف سے انہیں ایک لاکھ روپیہ سالانہ اس سڑک کا معاوضہ مِلتا ہَے جو ان کی ریاست میں سے ہو کر گُزرتی ہَے۔ انگریز اس سڑک کے لِیے پچاس ہزار روپے سالانہ دیتے تھے۔
مَیں نے شہر سے باہر دیکھا کہ ایک نیا کمرہ بن رہا ہَے مُجھے معلوم ہُوا کہ حکومت پاکِستان کے زور دینے پر ایک شفاخانہ بنایا جا رہا ہَے۔ لیکن دو برس ہوچکے ہیں ایک کمرہ بھی ختم ہونے میں نہیں آتا۔ جب پاکِستان کی طرف سے کوئی افسر یہاں آتا ہَے تو یہ زیر تعمیر کمرہ دِکھا دیا جاتا ہَے کہ ہسپتال تعمیر کیا جا رہا ہَے۔
شاید میرے آنے کے بعد یہ ہسپتال مکمل ہو گیا ہو۔‘‘ (ملاحظہ ہو محمود دانشور کی مذکورہ بالا کتاب کے صفحات 44 اور 45۔)
کتاب کے اِس مذکورہ ایڈیشن کے ’’پیش لفظ‘‘ میں محمود دانشور لکھتا ہے کہ ’’میں اس سے پہلے بھی عرض کرچکا ھوں کہ سیاحت کی تفاصیل رقم کرتے وقت دروغ گوئی بڑی نامناسب بات ھے۔‘‘ آگے جاکر وہ لکھتا ہے کہ ’’میں نے صوبہ سرحد کے خلاف کوئی قابل اعتراض بات نہیں لکھی، صرف ریاست دیر کے متعلق تنقید کی ھے اور میں نے شاید کسی ذاتی عناد کی بنا پر یہ حالات قلمبند نہیں کئے۔‘‘
تاہم جیسا کہ درج بالا باتوں سے واضح ہے محمود دانشور نے یہ سب کچھ سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر تحریر کیا ہے اور اِس ضمن میں حقائق جاننے کی خود کوشش نہیں کی۔ قارئین کی معلومات کی خاطر اِس کا ذکر ضروری ہے کہ محمود دانشور کے اِس سفرنامے میں ڈھیر ساری باتیں تاریخی حقائق کے منافی ہیں لیکن یہاں نہ اُن پر تفصیلی بحث کی گنجایش ہے اور نہ ضرورت۔ تاہم اِس کی نشان دہی ضروری ہے کہ وہ اپنے اِس سیاحت نامے میں ’’دروغ گوئی‘‘ کا مرتکب ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ریاستِ دِیر کے ضمن میں اُس کا یہ دعوا کہ ’’دو سو برس ہوئے جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو موجودہ نواب دیرؔ کے آبا و اجداد نے برطانوی حکُومت کی اعانت کی اَور اِنعام میں یہ ریاست عطا ہوئی۔‘‘ (ملاحظہ ہو محمود دانشور کے کتاب کے محولہ ایڈیشن کا صفحہ 41۔) یہ اور اِس طرح کے بہت سارے دوسرے دعوے محمود دانشور کی ’’دروغ گوئی‘‘ اور حقائق کے مسخ کرنے کا واضح ثبوت ہیں۔
یہاں اِس کی نشان دہی بے جا نہیں ہوگی کہ دِیر کی یہ ریاست نواب شاہ جہان کے آبا و اجداد کو دو سو برس قبل برطانوی حکومت کی اعانت میں برطانویوں کی طرف سے انعام میں عطا نہیں ہوئی تھی بلکہ اگر اس کا بانی اسماعیل خان کو مانا جائے، تو اِس کی بنیاد سترہویں صدی عیسوی میں رکھی گئی تھی اور اگر غلام خان کو مانا جائے، تو اس کی بنیاد اٹھارویں صدی عیسوی میں رکھی گئی تھی۔ اِس طرح نواب شاہ جہان خان کی حکم رانی اس خاندان کی نویں یا آٹھویں پشت تھی۔ جب کہ برطانویوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب اور موجودہ خیبر پختونخوا کی سکھ ریاست کے علاقے اُنیسویں صدی میں 1849ء میں قبضہ کیے تھے۔ لہٰذا اُس وقت یعنی 1849ء تک نواب شاہ جہان کے آبا و اجداد کی برطانوی حکومت کی اعانت کے دعوے کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محمود دانشور کے اِس سیاحت نامے میں دی گئی معلومات کتنی قابلِ اعتبار ہیں اور اُس نے اپنے اِس سیاحت نامے میں دروغ گوئی سے کام لیا ہے یا نہیں؟
ایل ایف روشبروک ویلیمز اپنی کتاب ’’دی سٹیٹ آف پاکستان‘‘ (شائع کردہ :فیبر اینڈ فیبر، لندن، 1962ء) کے صفحات 73 اور 74 پر نوابِ دِیر شاہ جہان خان کے بارے میں لکھتا ہے:
ٓ A great reactionary himself, he found grave cause of offence in the progress achieved by his neighbours in Swat and Chitral under Pakistani encouragement. He turned a deaf ear to every suggestion of improvement: he would permit no schools, no village AID, and no hospitals in his territory-although he kept a veterinary surgeon to look after his dogs.
یعنی خود ایک بڑے رجعت پسند ہونے کے ناتے پاکستانی حوصلہ افزائی کے تحت سوات اور چترال میں اُس کے پڑوسیوں کی حاصل کردہ ترقی اُس (یعنی نواب شاہ جہان) کے جذبات کوشدید طور پر مجروح کرنے کا سبب بنی۔ ترقی کی ہر تجویز پر اُس نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ اگرچہ اُس نے اپنے کتوں کی دیکھ بھال کے لیے جانوروں کا ایک سرجن رکھا ہوا تھا، لیکن اپنے ریاستی علاقے میں وہ اسکولوں، دیہی ترقی، اور اسپتالوں کی کوئی اجازت نہیں دے گا۔
گورنمنٹ ڈگری کالج تیمر گرہ، دِیر، کے مجلہ ’’پنجکوڑہ (دیر نمبر)‘‘ برائے سال 1999ء تا 2003ء، میں محمد ایوب خان اپنے مضمون ’’تحریک انقلاب بعہد نواب شاہ جہان‘‘ میں صفحہ 39 پر رقم طراز ہے کہ ’’ریاست دیر میں حصول تعلیم پر مکمل پابندی تھی۔ کوئی بھی اگر یہ کوشش کرتا تو ان کو سخت سزا دی جاتی تھی۔ اور علاقہ بدر کیا جاتا تھا۔ وہ کسی کی زندگی میں تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں تھا۔‘‘
سلیمان شاہد اپنی کتاب ’’گمنام ریاست‘‘ کی جلدِ اول (اشاعتِ اوّل، مطبع: دانش پبلشنگ ایسوسی ایشن پشاور، یکم جنوری 2005ء) میں ذیلی عنوان ’’علمی پابندیاں‘‘ میں نواب شاہ جہان کے ضمن میں لکھتا ہے کہ ’’نواب نے جدید تعلیم پر مکمل پابندی عائد کی جو لوگ اپنے بچوں کو ریاست سے باہر پڑھانے بھجواتے انھیں سخت سرزنش کی جاتی اور ریاست بدر کیا جاتا۔‘‘علاوہ ازیں ’’اردو اور انگلش الفاظ بولنے پر بھی پابندی لگائی گئی۔ نواب کے سامنے جو لوگ ’کنڑکو ڈبلے‘ کو ماچس اور ’ٹوکے‘ کو کپڑا کہتا تو انھیں کافی ڈانٹ پلانے کے ساتھ برا بھلا کہا جاتا تھا۔‘‘ مزید یہ کہ ’’ریاستی دور میں ایسے ڈاکٹر جن کا تعلق دیر سے تھا ان پر بھی پابندی تھی کہ وہ اپنے دیس کی عوام کی خدمت کریں کیونکہ نواب نے جدید دوائی بیچنے یا علاج معالجہ کے لئے ہسپتال بنانے پر بھی پابندی لگائی تھی۔ ‘‘(ملاحظہ ہو صفحات 251 اور 252۔)
سلیمان شاہد اپنی اِسی کتاب کے ’’( حصہ دوم)‘‘ (اشاعت دوم، چھپائی: اویس، لاہور، 20 جولائی 2010ء) میں صفحہ 48 پرعنوان ’’نوابی دور کی تعلیم‘‘ میں رقم طراز ہے کہ ’’نواب شاہ جہان نے اقتدار میں آکر جدید تعلیم پر سخت پابندی لگائی۔ موقف یہ تھا کہ فرنگی علوم ہمارے جوانوں کے اخلاق بگاڑتے ہیں۔ اس زمانے میں فرنگی سے نفرت عام تھی۔ لہٰذا کئی علماء نے نواب کا انگریزی تعلیم کی مخالفت میں ساتھ دیا۔ البتہ دکھاوے کی خاطر عمرا خانی دور کے طرز تعلیم کو جاری رکھا گیا۔ 1960ء تک اس نظام تعلیم نے کوئی ترقی نہ کی۔ سیلیبس کئی دہائیوں تک شیخ سعدی کی ’گلستان اور بوستان‘ تک محدود رہا۔‘‘
اپنی کتاب کی اِسی’’( حصہ دوم )‘‘ کے صفحہ 49 پر ’’علمی فروغ کیلئے کوششیں‘‘ کے عنوان کے تحت، سلیمان شاہد لکھتا ہے کہ ’’1930ء میں کانگرس کا بیج بونے خان عبدالغفار خان (المعروف بہ باچا خان) اخونزادہ محمد جان کی دعوت پر خال آئے۔ اخونزادگان نے انھیں ریاست میں علمی فقدان سے آگاہ کیا۔ باچا خان کے ہاتھوں ایک سکول کی داغ بیل ڈالی گئی۔ مگر کچھ عرصہ بعد نواب کے کارندوں نے اسے آگ کی نذر کرکے علم کی یہ شمع بجھا دی۔‘‘
ڈاکٹر یعقوب خان بنگش نے بھی اپنی انگریزی کتاب ’’اے پرنسلی آفئیر‘‘ (شائع کردہ: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی، 2015ء) میں یہ دعوا دہرایا ہے کہ
In Dir…the nawab prevented the building of any modern schools in the state… Only religious education, and that too, strictly controlled by the state, was provided in village madrasas. (ملاحظہ ہو صفحات 353ا ور 354۔ )
یعنی دِیر میں نواب نے ریاست میں جدید اسکولوں کی تعمیر کی ممانعت کی۔ گاؤں کے مدارس میں صرف مذہبی تعلیم دی جاتی تھی لیکن وہ بھی ریاست کے سخت کنٹرول میں۔
مذکورہ بالا تحاریر میں کی گئی باتوں اور دعوؤں کا جائزہ لینے سے پہلے اِس کا ذکر ضروری ہے کہ بچپن سے سنتے چلے آئے ہوئے اور مذکورہ بالا تحاریر میں کیے گئے دعوؤں کی بنیاد پر راقم خود بھی اپنے مضمون ’’سٹیٹس آف نارتھ ویسٹ فرنٹئیر پراونس: خیبر پختونخوا‘‘، مشمولہ کتاب ’’اسلامک ہسٹری اینڈ سویلائزیشن: ساؤتھ ایشیا‘‘( شائع کردہ: اُو آئی سی ریسرچ سینٹر فار اسلامک ہسٹری، آرٹ اینڈ کلچر، استنبول، 2020ء)، میں یہ لکھنے کی غلطی کا مرتکب ہوا ہے کہ
Provision of modern education and civic amenities were denied. Even getting modern education by the subjects outside the state was discouraged. Veterinary hospital for dogs was established but no civil hospital for the human beings. (ملاحظہ ہو محولہ کتاب کا صفحہ 271۔)
یعنی ریاستِ دِیر میں لوگوں کو جدید تعلیم اورعوامی فلاحی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ حتیٰ کہ ریاستی رعایا کی ریاست سے باہر بھی جدید تعلیم کے حصول کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ کتوں کے لیے جانوروں کا اسپتال تو تعمیر کیا گیا، لیکن انسانوں کے لیے کوئی سول اسپتال قائم نہیں کیا گیا۔ (یہاں اِس بات کا ذکر ضروری ہے کہ میری اِس تحریر میں ایڈیٹروں یامدیروں نے اپنی طرف سے دو حوالوں سے مزید بگاڑ پیدا کیا ہے۔ ایک یہ کہ عبارات کو آگے پیچھے کرکے پیراگرافوں کی ترتیب بدل دی ہے اور دوسری بات یہ کہ دیے گئے حوالے حذف یا اصل جگہوں سے بدل دیے ہیں۔ علاوہ ازیں میرے پہلے ہی سے کیے گئے مطالبے کے باوجود اُنھوں نے ایڈیٹ شدہ تحریر مجھے دوبارہ پرکھنے اورتصحیح کے لیے بھی نہیں بھیجی۔ اس پر میرا ناپسندیدگی کا اظہار اور احتجاج مَیں نے تحریری طور پر اُن تک پہنچایا جس کے ثبوت میرے پاس موجود ہیں۔)
اب آتے ہیں مذکورہ بالا باتوں اور دعوؤں کے تجزیے اور اُن اہم عوامل کی طرف جن کی وجہ سے نواب شاہ جہان کے دورِ حکم رانی میں ریاستِ دِیر میں جدید تعلیم اور صحت کی سہولیات کے ضمن میں خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔
پہلی بات یہ کہ اُس دور میں ریاستِ سوات کے برعکس ریاستِ دِیرکے اندر سیاسی عدم استحکام تھا جس کی وجہ سے ترقیاتی اور فلاحی کاموں کی طرف توجہ دینا آسان نہیں تھا۔ ایک طرف نواب شاہ جہان خان کے ابتدا میں اپنے بھائی عالم زیب خان اور بعد میں بیٹے اور ولی عہد محمد شاہ خسرو خان کے ساتھ مسائل تھے، اور اُن کی وجہ سے اُن سے تعلقات کشیدہ اور خراب تھے، جو ریاست کے اندر سیاسی عدم استحکام کا سبب بنے رہے۔
دوسری طرف جندول کے عمرا خان کا بیٹا عبدالمتین خان اور اُس کے قبیلے کے افراد اپنے سابقہ علاقوں اور زمینوں کے حصول کی خاطر تگ و دو میں مصروف تھے جن کو حکم رانِ ریاستِ سوات کی شہ اور حمایت بھی حاصل تھی۔ لہٰذا نواب شاہ جہان خان کو اپنے پورے دورِ حکم رانی میں اُن کی طرف سے بھی جنگوں اور مسائل کی کشمکش کا سامنا رہا۔ اِن اندرونی مسائل، سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کی وجہ سے نواب شاہ جہان خان کو ترقیاتی کاموں پر توجہ دینے کے لیے درکار ایسا ماحول اور ذہنی سکون میسر نہیں تھا، جیسا کہ ریاستِ سوات کے حکم ران کو اُن دنوں حاصل تھا۔
دوسری بات یہ کہ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے نواب شاہ جہان کے ساتھ تعلیم، صحت اور مواصلات کے ضمن میں اُس جیسا مالی اور اخلاقی تعاون نہیں کیا جیسا کہ اُنھوں نے ریاستِ سوات کے حکم ران کے ساتھ کیا تھا۔ انگریزوں کے جانے اور پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد اگرچہ نواب شاہ جہان خان نے ضابطۂ الحاق دستخط کرکے ریاستِ دِیر کا الحاق، پاکستان کے ساتھ کردیا اور خارجہ تعلقات، مواصلات اور دفاع کے اُمور کے ضمن میں اختیارات پاکستان کے حوالے کیے، لیکن پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی دوسری ریاستوں کے برخلاف اُس نے پاکستان کے ساتھ ضمنی ضابطۂ الحاق دستخط کرنے اور ریاستِ پاکستان کو ریاستِ دِیر کے ضمن میں مزید اختیارات دینے (جس کے نتیجے میں اِس ریاست کو ختم بھی کیا جاسکتا تھا) سے مکمل انکار کیا۔ یہی بات ریاستِ پاکستان اور ریاستِ دِیر کے درمیان وجۂ نزاع بنی رہی۔ علاوہ ازیں چوں کہ ریاستِ دِیر کی سرحد افغانستان سے بھی ملتی تھی اور نواب شاہ جہان خان پاکستان کے ساتھ ضمنی ضابطۂ الحاق کے دستخط کرنے سے انکار پر ڈٹا رہا، اِسی وجہ سے بھی ریاستِ پاکستان سے اُس کے تعلقات میں کافی تناو رہا۔ لہٰذا حکومتِ پاکستان نے نہ صرف تعلیم، صحت اور مواصلات وغیرہ کے ضمن میں نواب شاہ جہان سے اُس طرح کا تعاون اور مالی امداد نہیں کی جیسا کہ اُس نے ریاستِ سوات کے حکم ران کے ساتھ کی (جس کا ذکر روشبروک ویلیمز کے پہلے دیے گئے اقتباس میں بھی موجود ہے) بلکہ 1960ء میں اُس کے خلاف فوجی کارروائی کرکے اُسے اقتدار سے محروم بھی کیا۔
تیسری وجہ ریاستِ دِیر میں آمدنی کے ذرائع نہ تو ریاستِ سوات جیسے تھے اور نہ مذکورہ بالا سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عوام اور ریاستی فوج سے تعلیم، صحت اور مواصلات کے شعبوں میں ریاستِ سوات جیسی خدمات اور کام لینا ممکن تھا۔
محمود دانشور کی اِس بات میں کوئی وزن نہیں کہ گو کہ ’’حکومتِ پاکِستان کی طرف سے انہیں ایک لاکھ روپیہ سالانہ اس سڑک کا معاوضہ مِلتا ہَے جو ان کی ریاست میں سے ہوکر گُزرتی ہَے۔ انگریز اس سڑک کے لِیے پچاس ہزار ورپے سالانہ دیتے تھے۔‘‘ لیکن ’’ساری ریاست میں کوئی ہسپتال نہیں‘‘ اِس لیے کہ’’صرف نواب صاحب ان باتوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے۔‘‘ جیسا کہ محمود دانشور کے اپنی بیان سے ظاہر ہے کہ حکومتِ پاکستان ریاستِ دِیر یا نواب شاہ جہان کو جو ایک لاکھ روپے سالانہ دیا کرتے تھے، وہ ریاستِ دِیر سے گزرنے والی ریاستِ چترال کو جانے والی سڑک کا صرف معاوضہ نہ تھا بلکہ اِس کے بدلے میں اِس سڑک اور اِس پر سے گزرنے والے سامان اور افراد وغیرہ کی حفاظت کی ذمے داری بھی نوابِ دِیر ہی کی تھی۔ اِس وجہ سے اِس رقم سے اُسے اِس سڑک کی حفاظت پر آنے والے اخراجات بھی اُٹھانے تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے چلے گئے اور اِس وجہ سے حکومتِ پاکستان کو اِس رقم کو بڑھانا پڑا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے یہ رقم نواب شاہ جہان کو ریاستِ دِیر میں اسپتال بنوانے اور صحت کی جدید سہولیات کی فراہمی کے لیے نہیں دی جاتی تھی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
نوابِ دیر پر قرضوں کی بارش کیوں؟
ریاستِ دیر سے حرب العید کا خاتمہ کیسے ہوا؟
کشمیر کی لڑائی میں ریاستِ دیر کا حصہ
ریاستِ دیر کے حکم رانوں کی مختصر تاریخ
ریاستِ دیر کا پاکستان سے کب الحاق ہوا؟
محمود دانشور کے اِس دعوے میں کوئی حقیقت نہیں کہ اُس کی ریاستِ دِیر کی سیاحت کے وقت وہاں پر انسانوں کے علاج کا اسپتال تعمیر نہیں ہوا تھا اور محولہ بالا دوسرے ذرائع کا یہ دعوا بھی بے بنیاد ہے کہ نواب شاہ جہان کے دورِ حکومت میں ریاستِ دِیر میں انسانوں کے علاج معالجہ کی خاطر کوئی ایک بھی اسپتال نہیں تھا۔
عالمگیر خان کے بی ایس تھیسز کے مطابق اگرچہ اِس اسپتال کے قائم کرنے کی صحیح تاریخ تو معلوم نہیں لیکن پولی ٹیکل ایجنٹ دِیر، سوات اور چترال 1940ء میں اپنی ایک تحریر (میمورنڈم) میں لکھتا ہے کہ دو سال قبل دِیر کے اسپتال کو باقاعدہ بنیادوں پر استوار کیا گیا اور ایک سند یافتہ ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر اِس میں تعینات کیا گیا۔ عالمگیر خان مزید لکھتا ہے کہ ڈاکٹر خلیل الرحمان اور حکیم فقیر احمد اِس میڈیکل اسپتال میں فرائض سرانجام دیتے تھے۔ ایک بڑی تعداد میں مریض روزانہ کی بنیاد پر علاج کی خاطر آیا کرتے تھے۔ یہ ڈاکٹر مختلف مقامات پر لوگوں کو علاج کی سہولت کی فراہمی کی خاطر بھی جایا کرتے تھے۔ جب کسی بیماری کے پھیلنے کا خطرہ ہوتا، تو عام طور پر حفاظتی یا مدافعتی تدبیر سے اِس کے سدِباب کی کوشش کی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر اور حکیم پرائیویٹ یا نجی طور پر بھی علاج کیا کرتے تھے۔ (ملاحظہ ہو عالمگیر خان، ’’سوشل، پولٹیکل،اینڈ اکنامک کنڈیشن اینڈ ٹرانسفارمیشن اِن دِیر (1925 – 1969ء)‘‘، ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج، سیدو شریف، سوات، 2018ء، صفحہ 19۔)
عالمگیر خان مزید لکھتا ہے کہ اگرچہ یہ اسپتال ریاستِ دِیر کی بڑی تعداد میں آبادی کے علاج معالجے کے لیے تو کافی نہیں تھا اور نہ سب لوگوں کو دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اِس اسپتال کا دارالخلافہ میں موجود ہونے کی وجہ سے اِس تک رسائی حاصل تھی، تاہم زیادہ لوگوں کے اِس دعوے میں کوئی صداقت نہیں کہ نواب شاہ جہان خان نے ریاستِ دِیر میں انسانوں کے علاج کے واسطے ایک بھی اسپتال قائم نہیں کیا تھا۔ اِن کا یہ دعوا بے بنیاد اورتعصب پر مبنی ہے۔ اِس اسپتال کا قیام ثابت کرتا ہے کہ نواب شاہ جہان نے کوشش کی کہ ریاستِ دِیر میں اسپتال تعمیر کرے۔ 1960ء میں نواب شاہ جہان کی معزولی کے بعد حکومتِ پاکستان نے دِیر میں مزید اسپتالوں کی تعمیر شروع کی اور 1960ء سے 1969ء تک دِیر کے مختلف علاقوں میں 4 اسپتال اور 17 ڈسپنسریاں قائم کی گئیں جو پھر بھی دِیر کے وسیع و عریض علاقے کی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی نہیں تھیں۔ (ملاحظہ ہو عالمگیر خان کے محولہ بالا تھیسز کا صفحہ 20۔)
تحریکِ ہجرت کی ناکامی اور افغانستان سے واپسی کے بعد عبدالغفار خان المعروف باچا خان اور اُس کے ساتھیوں نے اُس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے بندوبستی اضلاع یا برطانیہ کے براہِ راست زیرِ حکم رانی والے علاقوں میں ایسے مدرسوں یا اسکولوں کے قیام کی کوشش کی جن میں جدید اور دینی دونوں قسم کی تعلیم دیے جانے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اِس طرح کی کوشش قبائلی علاقوں اور سرحدی ریاستوں میں بھی کی گئی۔ اگرچہ اِس سے قبل ریاستِ دِیر کے کسی حکم ران نے جدید تعلیم کے ادارے قائم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی، تاہم مولوی فضل محمود مخفی اور اُس کے ساتھیوں کی کوشش کے نتیجے میں نوابِ دِیر اورنگ زیب خان (المعروف باچا خان اور چاڑا نواب) کے دورِ حکم رانی میں خالونو کے لوگوں کی امداد و حمایت سے ایسا ایک مدرسہ یا اسکول 1923ء میں ریاستِ دِیر میں خال یا خالونو کے مقام پر یا گاؤں میں بھی قائم کیا گیا۔
21 اپریل 1923ء کو ختم ہونے والے ہفتہ کے شمال مغربی سرحدی صوبہ کی صیغۂ راز میں لکھی گئی ہفتہ وار ڈائری نمبر 16 کے مطابق اِسی ہفتے میں ریحان کوٹ کے شہزادہ نے خال میں ایک اسکول کا سنگِ بنیاد رکھا جس کے لیے زمین خال ہی کے میاں سید سیٹھ نے 2800 کابلی روپے میں خریدی۔ گاؤں کے لوگ پتھر جمع کرنے میں بے حد مصروف تھے۔ سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب کے بعد مولوی مخفی نے ایک پُرجوش تقریر کی جس میں اُس نے مقامی اشیا کے استعمال پر زور دیا۔ مولوی مخفی اور ایک ہندوستانی محمد فقیر، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ پانی پت کا ایک مہاجر ہے، اسکول کے تعمیراتی کام کی نگرانی کر رہے تھے۔ (کنفیڈنشل، نارتھ ویسٹ فرنٹئیر پراونشل ڈائری نمبر 16 فار دی ویک اِنڈنگ 21 اپریل 1923ء، فائلز آف دی ڈپٹی کمشنر آفس پشاور، بنڈل نمبر 5، سیریل نمبر 60، پراونشل آرکایوز، پشاور۔)
یاد رہے کہ اِس دوران میں نوابِ دِیر اورنگ زیب خان کراچی کے دورے پر تھا اور اِسی وجہ سے اختیارات ولی عہد محمد شاہ جہان خان کے ہاتھ میں تھے۔ 12 مئی 1923ء کو ختم ہونے والی ہفتہ وار ڈائری نمبر 18 میں مذکور ہے کہ نوابِ دِیر نے خان بہادر شاہ جہان خان کو کراچی سے لکھا کہ خال کے مقام پر مولوی مخفی کے اسکول کومنہدم کر دو۔اُس نے ریحان کوٹ کے شہزادہ کو بھی خط لکھ کر مشورہ دیا کہ ایسے اداروں کی حوصلہ افزائی سے اجتناب کرے۔
26 مئی 1923ء کو ختم ہونے والی ہفتہ وار ڈائری نمبر 20 کے مطابق نوابِ دِیر ابھی تک ہندوستان کے دورے پر تھا اور مولوی مخفی خال گیا ہوا تھا اور کوشش کر رہا تھا کہ وہاں کے اخون زادگان کو اِس پر آمادہ کرے کہ اُس کے اسکول کو اُس جگہ پر دوبارہ تعمیر کیا جائے۔
9 جون 1923ء کو ختم ہونے والی ہفتہ وار ڈائری نمبر 22 کے مطابق نوابِ دِیر کشمیر میں سری نگر میں تھا۔ اور اِسی ہفتے کے دوران میں مولوی مخفی نے کوٹو کے اسکول کا معائنہ کیا اور اُس کے بعد گاؤں مانڑوگے میں تھا۔
23 جون 1923ء کو ختم ہونے والی ہفتہ وار ڈائری نمبر 24 کے مطابق مولوی فضل محمود مخفی المعروف مخفی گاؤں مانڑوگے چھوڑ کر چلا گیا۔ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ دوبارہ جلال آباد گیا ہوا ہے۔
7 جولائی 1923ء کو ختم ہونے والی ہفتہ وار ڈائری نمبر 26 کے مطابق نوابِ دِیر نے 6 جولائی 1923ء کو لڑم (پہاڑ) پر مجلسِ مشاورت منعقد کی اور پولی ٹیکل ایجنٹ کی موجودگی میں خال کے سرکردہ اخون زاد گان کو صاف احکام دیے کہ وہ مولوی مخفی کو اپنے بیچ سے نکال دیں۔ اخون زاد گان نے اِس پر دلائل دینے کی کوشش کی، لیکن نوابِ دِیر (اورنگ زیب خان) نے غصہ کرتے ہوئے اُنھیں خاموش کر دیا۔
14 جولائی 1923ء کو ختم ہونے والی ہفتہ وار ڈائری نمبر 27 کے مطابق نوابِ دِیر اورنگ زیب خان اپنے ہندوستان کے دورے سے 7 جولائی 1923ء کودِیر پہنچا۔ اِسی ڈائری کے مطابق نوابِ دِیر (اورنگ زیب خان)کے بھیجے ہوئے آدمیوں نے خال کے قومی اسکول کو زمین بوس کردیا۔ تاہم ہندوستانی مُلا محمد فقیر ابھی تک خال سے روانہ نہیں ہوا تھا اور اخون زادہ امیرا جان کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ اور اِسی ڈائری کے مطابق مولوی مخفی افغانستان سے دِیر میں مانڑوگے واپس آیا تھا۔ (ان ہفتہ وار ڈائریوں کے لیے ملاحظہ ہو کنفیڈنشل، نارتھ ویسٹ فرنٹئیر پراونشل ڈائریز (ویکلی)، فائلز آف دی ڈپٹی کمشنر آفس پشاور، بنڈل نمبر 5، سیریل نمبر 60، پراونشل آرکایوز، پشاور۔)
اِن مذکورہ ڈائریوں کے بعد کی ڈائریوں میں ریاستِ دِیر میں خال یا خالونو کے اسکول کا ذکر میری نظر سے نہیں گزرا۔ تاہم اِس کے لیے بعد کے سالوں کی یہ ہفتہ وار ڈائریاں اور ریاستِ دِیرسے متعلق دوسری اِس قسم کی دستاویزات باریک بینی سے دیکھنا اور پڑھنا ضروری ہیں۔ اِس کے بعد کوئی بھی اِس قابل ہوگا کہ اِس بارے میں وثوق سے کچھ کَہ سکے کہ آیا نواب اورنگ زیب خان کے انتقال کے بعد نواب شاہ جہان خان کے دور میں خال یا خالونو میں یہ اسکول دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا کہ نہیں۔ تاہم مولوی مخفی کے مانڑوگے آنے اور جانے کا ذکر بعد کی اِن ہفتہ وار ڈائریوں میں جا بجا ملتا ہے۔ اور اُس کے ساتھ دوسرے مذہبی افراد کے آنے جانے کا ذکربھی پایا جاتا ہے۔
یہاں مزید تفصیل کی گنجایش نہ ہونے کی وجہ سے اتنا بتا دینا کافی ہوگا کہ مذکورہ ڈائریوں کے مندرجات سے ظاہر ہے کہ اصل صورت حال کیا تھی۔ اُس وقت نواب ِ دِیر شاہ جہان خان نہیں بلکہ اُس کا والد اورنگ زیب خان تھا۔ اُسی نے خال یا خالونو والی اِس پہلے تعمیر اور قائم شدہ اسکول کی مخالفت کی نہ کہ نواب شاہ جہان خان نے۔ جب کہ، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے، اِس کا سارا ملبہ شاہ جہان خان کے سر ڈالا جا رہا ہے اور اُسے تعلیم دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
21 اپریل 1923ء کو ختم ہونے والی ہفتہ وار ڈائری میں خال کے مقام پر اِس اسکول کے سنگِ بنیاد رکھنے اور 14 جولائی 1923ء کو ختم ہونے والی ہفتہ وار ڈائری کے مطابق نواب اورنگ زیب خان کے دِیر واپس پہنچنے پر اِس اسکول کی عمارت کو زمین بوس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ قریباً ڈھائی مہینے کے اندر اندر ہوا۔ تو ڈھائی مہینے کے اندر اِس اسکول کی عمارت کی مکمل تعمیر اور اِس میں طلبہ کی تعداد کا چار سو یا اِس سے زیادہ تک بڑھنا قرینِ قیاس نہیں۔
اِس تناظر میں جو کچھ عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی پشتو میں لکھی گئی سوانح عمری ’’زما ژوند او جدوجہد‘‘ (مطبوعہ: دولتی مطبع، کابل، 1983ء) میں اُس نے خال یا خالونو والے اسکول کے متعلق لکھا ہے، اُس کی بنیاد پر قرینِ قیاس یہ ہے کہ یہ اسکول بعد میں نواب شاہ جہان خان کے دور میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ اِس طرح اُس کے دور میں یہ اسکول ترقی کرتا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ اِس میں طلبہ کی تعداد بڑھ گئی۔ تاہم چند سال بعد حالات نے دوسرے سیاسی واقعات کی وجہ سے پلٹا کھایا۔
باچا خان کی اِس سوانح عمری کے مطابق اِس مدرسہ کے قیام میں خالونو کی امداد اور حمایت کرنے والوں سے اِس کے انتظام کی خاطر مولوی فضل محمود مخفی صاحب کو بلانے کا کَہ کر ہم دِیر چلے گئے۔ اِس مدرسہ نے بہت جلد ترقی کی اور قلیل مدت میں اِس میں طلبہ کی تعداد چار سو تک پہنچ گئی۔ ملاکنڈ میں متعین پولی ٹیکل ایجنٹ پختونوں کی بیداری کا سخت مخالف تھا۔ اُس نے نوابِ دِیر (جو اس وقت شاہ جہان خان تھا) کو بلا کر اُسے کہا کہ اِن مدارس اور تعلیم نے ہمارے لیے کتنی مشکلات پیدا کیں۔ آپ اپنے لیے ایسی مشکلات پیدا نہ کریں۔ اِس مدرسہ کو مسمار کردیں۔ اِس پر نوابِ دِیر نے آکر اِس مدرسے کو مسمار کیا۔ اِسے آگ لگا دی۔‘‘ (ملاحظہ ہو مذکورہ سوانح عمری ’’زما ژوند او جدوجہد‘‘ کے صفحات 178 اور 179۔)
ہوا دراصل یہ کہ ہندوستان میں 1930ء میں برطانوی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم تعاون شروع ہوئی۔ اِس کے نتیجے میں اُس وقت ملاکنڈ میں متعین پولی ٹیکل ایجنٹ نے دِیر اور سوات کی ریاستوں کے حکم رانوں کو بلاکر کہا کہ دیکھیے جن لوگوں کو ہم نے تعلیم دلوائی، وہ اب ہمارے دشمن بن گئے اور ہمارے خلاف سرگرمِ عمل ہوکر نہ صرف اختیارات کی منتقلی کے مطالبات شروع کردیے ہیں، لیکن ہماری حکومت کے خلاف تحریکِ عدم تعاون بھی شروع کی ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ آپ اپنی رعایا یا لوگوں کو تعلیم دینے کا یہ سلسلہ بند کردیں، ورنہ کل یہ آپ کے خلاف اِس طرح کھڑے ہوں گے جیسا کہ آج ہمارے بندوبستی علاقوں میں ہمارے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
پولی ٹیکل ایجنٹ کے اِس شہ اور ورغلانے پر نوابِ دِیر شاہ جہان خان نے خالونو والا اسکول مسمار کر دیا۔ جب کہ اُن دنوں (یعنی 1930ء) تک ریاستِ سوات میں اسکولوں کی تعداد 14 تک پہنچ چکی تھی جن میں ایک مڈل، 2 لوئر مڈل اور 11 پرائمری اسکول تھے۔ باچا صاحب کے ذاتی سیکرٹری ملک آباد (شموزو، سوات) سے تعلق رکھنے والے طالع مند خان نے راقم کو 16 مئی 1998ء کو اپنے انٹرویو میں یہ راز اِفشا کیا کہ دراصل ملاکنڈ میں متعین پولی ٹیکل ایجنٹ کے اِس شہ اور ورغلانے پر باچا صاحب نے بھی ریاستِ سوات میں باقی اسکول بند کیے لیکن صرف مڈل اسکول سیدو شریف اور پرائمری اسکول بریکوٹ کو رہنے دیا۔ تاہم لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر یہ مشہور کیا گیا کہ اِن اسکولوں کو اس لیے بند کیا گیا کہ یہاں طلبہ حصولِ تعلیم کے لیے نہیں آرہے تھے۔
ریاستِ دِیر میں تعلیم سے متعلق لکھنے اور نواب شاہ جہان خان کے جدید تعلیم کے مخالف ہونے والے محولہ بالا افراد یا تو ان حقائق سے ناخبری میں اور یا حقائق سے آنکھیں بند کرکے جان بوجھ کر نواب شاہ جہان کو دانستہ بدنام کرنے کی کوشش کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اگر نواب شاہ جہان خان واقعی جدید تعلیم کا اتنا مخالف تھا، تو 1925ء میں اُس کے اقتدار میں آنے کے بعد اِتنے سالوں تک خال یا خالونو کا یہ اسکول کیوں بند یا مسمار نہیں کیا گیا؟ اور اِس میں طلبہ کی تعداد سیکڑوں تک کیسی پہنچ گئی؟ اور اگر بہ فرضِ محال یہ کہا جائے کہ نواب شاہ جہان خان اتنے سالوں تک اِس اسکول سے بے خبر تھا، تو یہ کسی طور حقائق سے میل نہیں کھاتا۔ وہ کبھی اِس اسکول سے بے خبر نہیں رہ سکتا تھا۔
جیسا کہ خود باچا خان نے واضح کیا ہے کہ خال یا خالونو والا مدرسہ یا اسکول اُس وقت ملاکنڈ میں متعین پولی ٹیکل ایجنٹ کی شہ اور ورغلانے پر مسمار کیا گیا تھا، لیکن دوسروں کو (جیسا کہ سلیمان شاہد وغیرہ دِیر سے تعلق رکھنے والے دوسرے لکھاری) تو چھوڑئیے (جن کی نواب شاہ جہان خان سے ذاتی یا خاندانی پرخاش ہوسکتی ہے اور یا سنی سنائی باتیں زیبِ داستاں کے طور پر تحریر کی ہیں) ڈاکٹر یعقوب خان بنگش نے اپنی محولہ بالا کتاب ’’اے پرنسلی آفئیر‘‘ (جو کہ اوکسفرڈ یونیورسٹی میں اُس کے پی ایچ ڈی کے لیے لکھے گئے اُس کے مقالے پر مبنی ہے، باچا خان ہی کے محولہ بالا سوانح عمری کے محولہ بالا صفحات یعنی صفحات 178 اور 179 کا حوالہ دیتے ہوئے اِس غلط بیانی کا ارتکاب کیا ہے کہـ
Infact [In fact], in the 1920s the famous Pakhtun nationalist, Abdul Ghaffar Khan did establish an Azad Madrasa in Dir, under the charge of a famous Pashto poet, Fazal Mahmood Makhfi, which quickly became popular and had enrolled over four hundred students in a few weeks. However, the nawab disapproved of such initiatives and expelled Ghaffar Khan and Makhfi, and demolished the school. Ghaffar Khan, Zama Zhwand, 178-9. (ملاحظہ ہو یعقوب خان بنگش کی محولہ کتاب کے صفحہ 376 پر نوٹ نمبر32 ۔)
یعنی درحقیقت 1920ء کی دہائی میں مشہور پختون قوم پرست عبدالغفار خان نے پشتو کے ایک مشہور شاعر فضل محمود مخفی کے زیرِ نگرانی دِیر میں ایک آزاد مدرسہ قائم کیا جو کہ بہت جلدمقبول ہوا اور چند ہی ہفتوں میں چار سو سے زیادہ طلبہ داخل کیے گئے۔ تاہم چوں کہ نواب کو اِس قسم کی کوششیں قابل قبول نہیں تھیں، لہٰذا اُس نے غفار خان اور مخفی کو ریاست بدر کیا اور اسکول کو مسمارکر دیا۔ غفار خان، زما ژوند، 9-178۔
دل چسپ امر یہ ہے کہ خود باچا خان نے، ڈاکٹر یعقوب خان بنگش کے محولہ صفحہ نمبر 179 پر، اِس بات کی وضاحت کی ہے کہ نہ صرف اُنھوں نے دِیر میں شاہو بابا کے بیٹے (جس سے اُن کی پہلے سے شناسائی تھی) کے ساتھ ڈیرا ڈال کر کئی رات گزارے بلکہ نوابِ دِیر نے اپنے ایلچی صفدر خان کو بھیج کر باچا خان کو اپنے ہاں بلایا۔ اُس کے ہاں پہنچنے پر نوابِ دِیر نے باچا خان سے راز داری کی باتیں بھی کیں۔ علاوہ ازیں اُنھوں نے دِیر کے دوسرے علاقوں کا دورہ بھی کیا۔ پتا نہیں کہ ڈاکٹر یعقوب خان بنگش نے نوابِ دِیر کی باچا خان اور مولوی مخفی کی دِیر بدر کرنے کی یہ بات کہاں سے نکالی ہے؟ باچا خان کے محولہ سوانح عمری کے محولہ صفحات میں تو ایسی کوئی بات مذکور نہیں۔
اور اُن دنوں اور ماحول میں چند ہی ہفتوں میں چار سو سے زیادہ طلبہ کا اسکول میں داخل ہونا بھی قرینِ قیاس نہیں۔ اِس لیے کہ اُن دنوں (یا آج یعنی 2024ء سے سو سال قبل) خال یا خالونو کی کل آبادی کتنی ہوتی کہ اُن میں سے چار سو یا اِس سے زیادہ طلبہ چند ہی ہفتوں میں اسکول میں داخل ہوتے؟ اور چندہی ہفتوں میں اتنے طلبہ کا داخلہ بھی ایک ہی کلاس یا درجے میں؟ اِس لیے کہ دوسری کلاسیں یا درجے طلبہ کے پاس ہونے کے بعد بہ تدریج ہی شروع ہونا ممکن تھے۔ اِنھی اور اِس طرح کے دوسرے لکھاریوں کی تحریروں نے حقائق کو مسخ کیا ہے جو کہ آگے جاکر دوسری باتوں اور ثبوتوں سے بھی کھل کر واضح ہو جائیں گے۔
یہاں اِس کا ذکر ضروری ہے کہ پہلے ہی ذکر شدہ 9 جون 1923ء کو ختم ہونے والی ہفتہ وار ڈائری نمبر 22 میں اِسی ہفتے کے دوران میں مولوی مخفی کے کوٹو کے اسکول کے معائنے کا ذکر ہے، لیکن بعد کی ڈائریوں میں اِس اسکول کے بند ہونے یا نوابِ دِیر کا اِس کو منہدم کرنے وغیرہ کا ذکر میری نظر سے نہیں گزرا۔ لہٰذا اِس کی بھی باریک بینی سے چھان بین اور تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہ اسکول کب تک قائم رہا؟
فضل زمان شلمان کی پشتو کتاب ’’مولوی فضل محمود مخفی‘‘ (پرنٹر: عامر پرنٹ اینڈ پبلشرز، پشاور، سالِ اشاعت ندارد) سے یہ بات عیاں ہے کہ 1947ء میں ریاستِ دِیر میں دِیر یعنی ریاستی دارالخلافہ میں ہائی اسکول موجود تھا۔ (اُس وقت ریاستِ سوات میں بھی ایک ہی ہائی اسکول ریاستی دارالخلافہ سیدو شریف ہی میں تھا۔) دوسرے لفظوں میں اِس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستِ دِیر میں اِس سے پہلے پرائمری اسکول موجود تھے، اِس لیے کہ ایسے اسکولوں سے فارغ التحصیل طلبہ ہی ہائی اسکول میں پڑھ سکتے تھے۔
فضل زمان شلمان کی اِس کتاب کے صفحہ 245 کے مطابق جب مولوی فضل محمود مخفی اپنے قریبی انگریز مخالف ساتھیوں سے ناراض ہو کرخائف اور پریشان حال دِیر چلا گیا، تو اُس کے پاس دوسرا کوئی راستہ اور شغل نہیں تھا۔ نواب دِیر صاحب کو تو مولوی مخفی کے بارے میں مکمل معلومات تھیں۔ اُس نے مخفی صاحب کو بلایا او راپنے اسلامیہ ہائی اسکول دِیر میں صدر مدرّس کے طور پر فرائض سر انجام دینے کا عمل تفویض کیا۔ مولوی مخفی نے یہ موقع ایک غنیمت جانا۔ اُن دنوں میں نواب صاحب کہیں گیا تھا۔ وہ واپس آرہا تھا، تو اُس کے اعزاز میں ایک پرتپاک استقبالی اجتماع کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اِس موقع پر مولوی مخفی نے اسکول کے اساتذہ کی طرف سے نوابِ دِیر کو پیش کرنے کے لیے 4 ربیع الاول 1366 ہجری شمسی (26، 27 جنوری 1947ء) کو ایک منظوم سپاس نامہ تیار کرکے پیش کیا۔ (پشتو میں اِس منظوم سپاس نامہ کے متن کے لیے ملاحظہ ہو مذکورہ کتاب کے صفحات 246 تا 248۔ دِیر کے اِس ہائی اسکول میں مولوی مخفی کے بہ طورِ صدر مدرّس خدمات سرانجام دینے اور اِس منظوم سپاس نامے کے بارے میں فضل زمان شلمان کی اِس کتاب کے صفحات 189 اور 190 بھی ملاحظہ کیجیے۔)
علاوہ ازیں پہلے ذکر شدہ عام تاثر اور پروپیگنڈا کے برخلاف، عالمگیر خان کے محولہ بی ایس تھیسز کے مطابق نوابِ دِیر شاہ جہان خان اپنی ریاست میں تعلیم کی ترقی کا نہ اتنا مخالف تھا اور نہ اِس سے اتنا بے پروا جیسا کہ اُس کے خلاف مبالغہ آمیزی کے ساتھ بتایا جاتا ہے۔ اُس نے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن ریاست کے اندر مستقل کشمکش اور دِیر کے معاشی طور پر پس ماندہ ہونے کی وجہ سے اُس کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ ریاست کے سارے علاقوں میں تعلیمی ادارے قائم کرکے اُن کو بحال بھی رکھ سکے۔ وہ جدید تعلیم کی اہمیت سے واقف تھا اور اِسی وجہ سے اپنے بیٹے شاہ خسرو خان کو اعلا تعلیم کے لیے باہر بھیج دیا۔ دِیر کے لوگ کسی بھی جگہ مذہبی تعلیم کے حصول میں آزادتھے، لیکن سخت معاشی زندگی یا حالات کی وجہ سے کم ہی لوگ دینی تعلیم حاصل کرسکے۔ صرف مال دار گھرانوں کے بچے مذہبی تعلیم حاصل کرسکے۔ بعض لوگوں نے اپنے بچوں کو دینی اور جدید دونوں طرز کی تعلیم کے حصول کے لیے دوسرے علاقوں کو بھیج دیا۔ (ملاحظہ ہو عالمگیر خان کے محولہ تھیسز کا صفحہ 16۔)
جدید تعلیم کے ضمن میں نواب شاہ جہان خان کی دل چسپی کا اندازہ 12 مارچ 1940ء کو پولی ٹیکل ایجنٹ دِیر، سوات اور چترال کی اِس تحریر (میمورنڈم) سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں اُس نے لکھا ہے کہ نوابِ دِیر نے حال ہی میں ایک وفد بھیجا اور دو لاکھ روپے قرض مانگے۔ اِس لیے کہ حال ہی میں ریاست کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ اِس قرض کے حصول کے لیے وفد نے کئی ایک اسباب بیان کیے جن میں سے ایک دِیر میں اینگلو۔ ورنیکولر مڈل اسکول کی تعمیر تھا۔ اِس اسکول کے قیام اور تعمیر کی تاریخ معلوم نہیں۔ تاہم پولی ٹیکل ایجنٹ نے مزید لکھا ہے کہ نوابِ دِیر ترقیاتی کاموں میں والئی سوات کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ (ملاحظہ ہو عالمگیر خان کے محولہ تھیسز کا صفحہ 16۔)
یاد رہے کہ اُن دنوں ریاستِ سوات کا حکم ران میاں گل عبدالودود تھا۔ چوں کہ برطانوی ہند کی حکومت نے اُسے ’’والی‘‘ کے لقب سے حکم ران تسلیم کیا تھا، لہٰذا یہاں والئی سوات سے مراد اُس وقت ریاستِ سوات کا حکم ران میاں گل عبدالودود ہے نہ کہ اُس کا بیٹا اور جانشین جو 12 دسمبر 1949ء کو ریاستِ سوات کا حکم ران بنا تھا اور سوات میں عام طور پر والئی سوات اور والی صاحب کے القاب سے یاد کیا اور پہچانا جاتا ہے۔
نواب شاہ جہان خان بہ وجوہ جدید تعلیم کی خاطر مطلوبہ تعداد میں ادارے قائم نہیں کرسکا۔ اگرچہ اِس ضمن میں اُسے تو مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا، لیکن اِس کی ایک اہم وجہ پہلے برطانوی ہند کی حکومت اور بعد میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے اُسے مالی اور دوسری امداد کا اِس طرح نہ دیا جانا تھا جیسا کہ اُنھوں نے ریاستِ سوات کو دیا تھا۔ (اِس کا اندازہ روشبروک ویلمیز کے پہلے دیے گئے اقتباس سے بھی واضح ہے اور میری انگریزی کتاب ’’سوات سٹیٹ (1915 ۔ 1969) میں مذکور ریاستِ سوات کو اِن حکومتوں کی جانب سے مختلف شکلوں میں ملنے والی امداد سے بھی۔) اِس کے علاوہ اِن وجوہات میں اندرونی و بیرونی خطرات، معاشی مسائل، اور مُلاؤں کا اثر و رسوخ اور اُن کی جدید تعلیم کی مخالفت شامل تھیں۔
عالمگیر خان، اشرف درانی کی کتاب ’’دیر و باجوڑ انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد‘‘ کے صفحہ 27 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ 1961ء میں دِیر کی پوری آبادی میں 19 گریجویٹ تھے جن میں سے ایک خاتون تھی۔ 414 میٹرک پاس تھے جن میں سے 3 خواتین تھیں۔ 888 مڈل پاس تھے جن میں سے 29 لڑکیاں تھیں، اور 643 پرائمری پاس تھے جن میں 27 لڑکیاں تھیں۔ جب کہ مذہبی اداروں سے تعلیم یافتہ افراد کی کل تعداد 2939 تھی جن میں سے 1377 خواتین تھیں۔ (ملاحظہ ہو عالمگیر خان کے محولہ تھیسز کا صفحہ 17۔) اگرچہ یہ اعداد و شمار دِیر میں سماجی رُکاوٹ کی غماز ہیں، لیکن دوسری طرف یہ اِس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ لوگوں نے تعلیم کے حصول کے جذبے کا اظہار کیا ہے اور دِیر کے اُس وقت کے سخت رجعت پسند معاشرے میں بھی مردوں کے علاوہ عورتوں نے بھی تعلیم کے حصول کی کاوش کی ہے۔ (ملاحظہ ہو عالمگیر خان کے محولہ تھیسز کا صفحہ 17۔)
محمد اسلام کے مطابق دِیر میں اُس دور میں جدید تعلیم کی راہ میں ایک رُکاوٹ عوام کی اکثریت کا جدیدتعلیم کا مخالف ہونا تھا۔ وہ اپنے بچوں کو جدید خطوط پر تعلیم دینے سے انکاری رہے۔ جدید تعلیم کے تئیں دِیر کے لوگوں کا یہ منفی رویہ مذہبی جذبے کی وجہ سے تھا اِس لیے کہ بہ طورِ عمومی مُلا جدید تعلیم کے مخالف تھے اور وہ عوام پر کافی اثرو رسوخ رکھتے تھے۔ (ملاحظہ ہو محمد اسلام،’’دِیر سٹیٹ انڈر دی رول آف محمد شاہ خسرو خان (1960 – 1969ء)‘‘، ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج، سیدو شریف، سوات، 2017ء، صفحہ 39۔)
1960ء میں نواب شاہ جہان خان کے حکومت پاکستان کے ہاتھوں گرفتار کرکے اقتدار سے ہٹانے اور اُس کے بیٹے محمد شاہ خسرو خان کو ریاستِ دِیر کے مسندِ اقتدار پر بٹھانے کے بعد حکومتِ پاکستان نے ریاستِ دِیر میں 9 سال کے قلیل عرصے میں قریباً 157 اسکول قائم کیے جن میں 10 ہائی اسکول، 17 مڈل اسکول اور 130 پرائمری اسکول تھے۔ (محمد اسلام کے محولہ بالا بی ایس تھیسزکا صفحہ 39 بحوالہ ریاض الحسن، ’’داستانِ دیر‘‘، صفحہ 124۔) اِس کے علاوہ 1969ء میں گورنمنٹ کالج تیمرگرہ بھی کھول دیا گیا۔
اِس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں اور یہ اِس بات کی پشت بانی کرتا ہے کہ نواب محمد شاہ جہان خان کا ریاستِ پاکستان کے ساتھ ضمنی ضابطۂ الحاق کے دستخط کرنے سے انکار پر مُصر رہنے کی وجہ سے حکومتِ پاکستان نے تعلیم اور صحت وغیرہ کی سہولیات کے بہم پہنچانے میں نواب شاہ جہان خان کی اُس طرح مدد نہیں کی جیسا کہ دوسری ریاستوں کے حکم رانوں کی کی۔
یہاں اِس بات کا ذکر بے جا نہیں ہوگا کہ میری پی ایچ ڈی کے پبلک ڈیفنس کے موقع پر جب مَیں نے ریاستِ سوات کے ضمن میں پراجیکٹر پر مختلف اعداد و شمار پیش کیے اور تعلیم کے ضمن میں میاں گل عبدالحق جہان زیب والی سوات کی انگریزی میں خود نوشت سوانح عمری ’’دی لاسٹ والی آف سوات: این آٹو بیوگرفی ایز ٹولڈ ٹو فریڈرک بارتھ‘‘ میں کیے گئے دعوے کی بنیاد پر یہ بات کی کہ ریاستِ سوات میں یہ تعلیمی ترقی بغیر کسی کی امداد و اعانت کے اپنی ہی کوششوں سے کی گئی (والی صاحب کے اِس دعوے کے لیے ملاحظہ ہو اُس کے مذکورہ سوانح عمری کے بنکاک سے 1995ء میں شائع شدہ نسخے کا صفحہ 112۔) تو اُس موقع پر موجود بیرونی ممتحن ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو اعداد و شمار سالوں کے حوالے کے حساب سے پیش کیے اِن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس ترقی میں حکومتِ پاکستان کی اعانت و امداد شامل ہے۔ جب مَیں اپنی بات پر قائم رہا، تو اُس نے مشورہ دیا کہ مزید تحقیق کرکے دیکھ لیں۔
ڈاکٹر رسول بخش رئیس صاحب کے اِس مشورے پر جب مَیں نے بعد میں مزید سرکاری دستاویزات ملاحظہ کیں اور دوسرے ماخذوں کو از سرِ نو غور کرکے پرکھا، تو والی صاحب کا دعوا مکمل طور پر درست نہیں تھا اور ڈاکٹر رسول بخش رئیس صاحب کا تجزیہ صحیح تھا۔
مزید سرکاری دستاویزات ملاحظہ کرنے اور ماخذوں کو پرکھنے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نہ صرف حکومتِ پاکستان بلکہ اِس سے قبل برطانوی ہند کی حکومت نے بھی ریاستِ سوات کے حکم ران کی تعلیم، صحت اور دوسرے عوامی کاموں میں مدد کی تھی۔ لہٰذا اِس حوالے سے دِیر کے نواب شاہ جہان خان کے ضمن میں پائے جانے والے بندھے ٹکے روایتی تاثر (سٹیریو ٹائپ) سے ہٹ اور نکل کر اُس دور کی سرکاری دستاویزات ملاحظہ کرنے اور ماخذوں کو باریک بینی سے پرکھ کر تحقیق کی ضرورت ہے، تاکہ اصل حقائق اور وہ عوامل سامنے لائے جاسکیں، جن کی وجہ سے ریاستِ دِیر میں تعلیم اور صحت وغیرہ کے ضمن میں اُن جیسے کام نہیں ہوئے جیسا کہ ہمسایہ ریاستِ سوات میں ہوئے۔
1960ء میں نواب شاہ جہان کے زبردستی اقتدار سے معزولی کے بعد کے سالوں میں زیرِ نظر حوالے سے جتنا کام ہوا اور جتنے ادارے قائم کیے گئے، وہ بھی ایسی ہی تحقیقی کام کی اہمیت کو دو چند کرتے ہیں۔ اور یہ کام دِیر ہی کا کوئی سپوت اُصولِ تحقیق کی حقیقی معنوں میں پاس داری کرتے ہوئے ریاستِ دِیر پر پی ایچ ڈی تھیسز کے ذریعے ہی بہ طریقِ احسن کرسکتا ہے۔ جیسا کہ دِیر ہی کے سپوتوں محمد اسلام اور عالمگیر خان نے اپنے اپنے بی ایس تاریخ کے تھیسز کے ذریعے اِس کام کا سنگ بنیاد رکھ کر اِس پر ایک بڑی عمارت کی تعمیر کی راہ ہم وار کی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔