ترجمہ: شازیہ شکور 
بَلا کی سردی تھی۔ شام اندھیری ہونا شروع ہو گئی تھی۔ بالآخر رات آگئی۔ سال کی آخری رات۔
ایک چھوٹی سی غریب بچی، ننگے سَر، ننگے پاؤں گلیوں میں پھر رہی تھی۔ جب وہ گھر سے نکلی تھی، تو اُس کے پاؤں میں اُس کے اپنے نہیں بلکہ ماں کے چپل تھے، لیکن وہ کس کام کے؟ وہ تو اس کے ننھے منے پاؤں سے بہت بڑے تھے ۔ صبح جب وہ سڑک پار کرنے لگی تھی، تو ایک تیز رفتار گھوڑا گاڑی سے بچنے کی کوشش میں چپل اُس کے پاؤں سے اُتر گئے۔ ایک تو گٹر میں گر گیا، دوسرا ایک لڑکا اس کا منھ چڑاتا ہوا، لے کر بھاگ گیا۔
جب سے بچی ننگے پاؤں پھر رہی تھی، پاؤں سردی کی شدت سے نیلے ہو رہے تھے۔ اُس نے ایک پھٹا پرانا ایپرن باندھا ہوا تھا۔ ماچسوں کے کچھ پیکٹ اُس نے ایپرن کی جھولی میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک پیکٹ گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا…… لیکن صبح سے اَب تک اُسے کوئی گاہک نہیں ملا تھا۔ اَب تک اُس نے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں کمائی تھی۔ سردی سے کانپتی، بھوک سے لاغر، دُکھ کی تصویر بنی یہ غریب معصوم بچی گلی گلی گاہکوں کی تلاش میں پھرتی رہی۔
گھروں سے لذیذ کھانوں کی خوش بو آ رہی تھی۔ اُس کے منھ میں پانی آ رہا تھا۔ اُس کی بھوک اور بھڑک اُٹھی تھی۔ اب وہ جس گلی میں آئی تھی، اُس کے دو مکانوں کے درمیان ایک چھوٹا سا تھڑا تھا۔ تھکن سے چور بچی سستانے وہاں بیٹھ گئی۔ اپنے یخ پاؤں کو اُس نے ہاتھوں سے گرمانے کی کوشش کی۔ پھر اکڑوں بیٹھ کر اپنی فراک سے اُنھیں کسی حد تک ڈھانپا، لیکن وہ ویسے ہی ٹھنڈے رہے۔
سردی شدید ہوتی جا رہی تھی، لیکن اُس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ گھر واپس جائے، کیسے واپس جاتی؟ اُس کی تو صبح سے ایک ماچس بھی نہیں بکی تھی۔ وہ خالی ہاتھ گھر نہیں جاسکتی تھی اور ویسے بھی گھر میں سردی کون سی کم تھی؟ ایک کمرے والے گھر کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا اور چھت میں ایک بڑا سا سوراخ جس کو بھوسے اور پرانے چیتھڑوں سے بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی…… لیکن وہاں سے ہر وقت ٹھنڈی ہوا آتی رہتی۔ اَب اُس کے ہاتھ سردی سے بالکل سُن ہو چکے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کاش، اِس وقت کہیں سے تھوڑی سی آگ مل جائے، تو اُس کے ہاتھ کچھ گرم ہو جائیں…… لیکن آگ کیسے ملے، کہاں سے آئے ؟
اُس نے لالچ بھری نظروں سے ماچس کی ڈبیا کی طرف دیکھا۔ اُمید کی ہلکی سی کرن نظر آئی۔ سَر کے ایک جھٹکے سے اُس نے اِس خیال کو بھگانے کی کوشش کی، مگر خیال بار بار واپس لوٹتا رہا۔ اُس نے جھجکتے جھجکتے ایک تیلی نکالی۔ ڈرتے ڈرتے اُسے تھڑے کے فرش سے رگڑا۔ ایک شعلہ نمودار ہوا، تو اُس نے جلتی تیلی کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپا۔ شعلے کی تپش کو محسوس کیا۔ شعلے کی چمک عجیب سی تھی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ایک ہی کوکھ (موزمبیقی ادب) 
میرا یار ابو حسن (فلسطینی ادب)  
دو جنرل اور ایک عام آدمی (روسی ادب) 
دربارِ خداوندی میں (مصری ادب) 
گوشت (برازیلی ادب) 
دانت درد جیسے لوگ (عربی ادب) 
اُس لمحے بچی کو ایسا لگا کہ وہ ماچس کا شعلہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑا آتش دان ہے، جس پر چمکیلے پیتل کے دستے لگے ہوئے ہیں اور سنہری جالی کے پیچھے جلتی آگ اس سجے سجائے کمرے کو تاپ رہی ہے، جہاں وہ ایک دیوان پر موٹا سا گرم اونی گاؤن پہنے بیٹھی ہے۔ اچانک شعلہ لپک کر ایک دم بجھ گیا۔ آتش دان، گرم اونی گاؤن، دیوان، سب اچانک غائب ہوگئے، تاریکی پھر سے چھا گئی۔ صرف بجھی ہوئی ماچس کی تیلی اُس کے ہاتھ میں تھی۔ اُس نے ایک اور تیلی جلائی۔
تھڑے سے جڑی ہوئی دیوار کو شعلے کی روشنی نے چمکیلے موتیوں سے جڑی جھالر میں بدل دیا۔ اُس کے پیچھے اُسے صاف نظر آیا جیسے ایک خوش و خرم خاندان کے لوگ دستر خوان کے گرد بیٹھے ہیں اور دستر خوان پر کھانے کی پلیٹیں لگی ہیں۔ کٹوروں میں انواع و اقسام کے کھانے ہیں۔ ایک بڑا برتن گرم گرم سوپ سے بھرا ہوا ہے ،جس میں سے بھاپ نکل رہی ہے۔ ایک لڑکا سوپ کا پیالہ لے کر اُس بچی کے پاس آیا، لیکن جیسے ہی اُس نے سوپ کا پیالہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے ماچس کی تیلی بجھ گئی اور پھر سے اندھیرا چھا گیا۔ اب اُس کے سامنے صرف ٹھنڈی، پتھریلی دیوار تھی۔
بچی نے آنکھیں اوپر اُٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ ایک ستارہ ٹوٹ کر زمین کی طرف آ رہا تھا۔ بچی کی دادی، واحد شخص تھیں جن سے اُس کو پیار ملا تھا۔ وہ اُسے کہانیاں سناتی تھیں۔ دادی نے ایک کہانی سناتے ہوئے اُسے بتایا تھا کہ جب آسمان سے چمکتا ہوا تارہ ٹوٹ کر نیچے آتا ہے، تو زمین سے کوئی روح آسمان کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ معلوم نہیں یہ تارہ کس کی موت کا پیغام لے کر میری طرف بڑھ رہا ہے؟ کوئی نہ کوئی ضرور مرنے والا ہے…… خدا جانے کون؟
بچی نے ماچس کی ایک اور تیلی جلائی، پھر سے روشنی ہوئی۔ اَب اُسے روشنی میں صاف نظر آیا کہ سَر پر روشنی کا تاج پہنے اُس کی دادی اُس کے سامنے کھڑی اُسے پیار سے دیکھ رہی ہیں۔ ’’دادی، پیاری دادی مجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔ مَیں بہت بھوکی ہوں۔ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں دادی۔ مجھے معلوم ہے کہ جیسے ہی یہ ماچس بجھے گی، آپ بھی چلی جائیں گی، جیسے وہ گرم آتش دان غائب ہو گیا، جیسے سوپ کا پیالہ…… آپ بھی ایسے ہی چلی جائیں گی، لیکن آپ نہ جانا۔ مَیں اَب اندھیرا نہیں ہونے دوں گی۔ میں آپ کو نہیں جانے دوں گی۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ تیلی بجھ جاتی، اس نے ایک تیلی اور جلائی۔ پھر دوسری، پھر اس نے پورے ماچسوں کے بنڈل کو تیلی دکھا دی۔ ماچس کی تمام تیلیاں دم جلیں۔ ایک بہت بڑا شعلہ اُٹھا، رات دن کی طرح روشن ہوگئی۔ دادی نے ہاتھ بڑھائے۔ بچی کو گود میں لیا، تو وہ خوشی سے نہال ہوگئی۔ اُسے لگا وہ ستاروں کی طرف جا رہی ہے، لیکن دو پرانے مکانوں کے درمیان بنے تھڑے پر دیوار سے لگی ایک چھوٹی سی بچی، جس کے رخسار لال اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، سردی کی تاب نہ لا کر مرگئی۔ اُس کا بے جان جسم سردی سے جم کر اکڑ چکا تھا۔ وہ ایسے ہی بیٹھی تھی جیسے رات کو بیٹھی تھی۔ ایک طرف جلی ماچسوں کا ڈھیر تھا۔ دوسری طرف جھولی میں کچھ ماچسوں کی ڈبیاں۔ جیسے کَہ رہی ہو کہ کوئی تو مجھ سے ماچس خرید لے۔
صبح کی چہل پہل شروع ہوچکی ہے۔ مرد، عورتیں، بچے تھڑے کے پاس جمع ہیں۔ کچھ لوگ کَہ رہے ہیں کہ بے چاری اپنے آپ کو سردی سے بچانے کی کوشش میں مر گئی، لیکن کسی کو نہیں پتا کہ وہ اپنے تصور میں کتنی خوب صورت دنیا دیکھ رہی تھی اور اب کتنی مسرت سے اپنی بوڑھی دادی کی گود میں ایسی دنیا میں ہے جہاں نہ بھوک ہے نہ پیاس، نہ سردی ہی ہے، جہاں صرف خوشی ہی خوشی ہے، محبت ہی محبت ہے…… پیار ہی پیار ہے!
نوٹ:۔ عالمی شہرت یافتہ ادیب ’’ہینز کرسچن اینڈرسن‘‘ (Hans Christian Andersen) کی مشہور کہانی "The Little Match Girl” کا اردو ترجمہ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔