جنرل ضیا کے پاکستانی سیاست پر اثرات

Blogger Syed Fayaz Hussain Gailani

ہمارے ملک میں جو وجوہات کم زور جمہوریت اور حکومت کی نا اہلی کا باعث بنتی ہیں، اُن میں سے دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ سیاست میں پیسے کا بے دریغ استعمال بھی ہے۔ درحقیقت یہ کرپشن کی ایک بڑی وجہ ہے اور یہ بات بھی ثابت شدہ ہے۔ اس کی ابتدا مرحوم آمر ضیاء الحق نے کی، محض خود کو مضبوط بنانے کے لیے۔ وگرنہ یہ بات سیاست کا ایک ادنا سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ ضیاء الحق سے پہلے سیاست میں دولت کی اہمیت کم تھی، یا پھر بالکل نہ تھی۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
مثال کے طور پر جب ضیاء الحق نے سنہ 1977ء میں حکومت پر قبضہ کیا، تو اُس کے زیرِ عتاب اُس دور کی حکم ران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی آئی۔ ضیاء الحق کی آمریت نے پیپلز پارٹی کو پیس کر رکھ دیا، لیکن اس کے باجود تمام پیپلز پارٹی خاص کر اس کے چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو پر ہر طرح کا الزام لگا، لیکن کرپشن یا پیسا بنانے کا نہ لگ سکا۔
سنہ 1977ء تک پاکستان میں عمومی طور پر دو طرح کے طبقات سیاست کرتے تھے۔ ایک نظریاتی سیاسی کارکن اور دوسرے جاگیر دار۔ کارکنان کی سیاست عوامی رابطے اور سیاسی جد و جہد پر انحصار کرتی تھی، جب کہ دوسری طرف جاگیر دار اپنی زمینوں کو بیچ کر یہ ٹھرک پورا کرتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے سنہ 70ء کی اسمبلی وہ آخری اسمبلی تھی کہ جہاں غریب کلاس کے لوگ موجود تھے۔ مثلاً: ایک ٹانگے والا مرزا خالق، گوجرخان سے ایم پی اے بن گیا۔ کھوکھا والا نرگس کیانی سنیٹر بن گیا، جب کہ اَب شاید نوجوان نسل کو حیرت بھی ہو کہ جناب نذر کیانی جب قومی اسمبلی میں حکومتی جماعت کے چیف وہیب تھے، تو ویگن پر اسمبلی ہال جایا کرتے تھے۔ پھر ضیاء الحق کی اندھیری رات چھاگئی، جس پر جالب نے کہا تھا کہ
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا
ضیاء الحق نے اول جرم یہ کیا کہ سنہ 85ء میں نہ صرف غیر جماعتی انتخابات کروائے، بلکہ ساتھ میں یہ انتظامی حکم نامہ بھی جاری کیا کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ کسی رُکن نے کسی بھی سطح پر کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا ذکر کیا ہے، تو اس کی رُکنیت ختم کر دی جائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی کارکن خود بخود باہر ہوگئے۔ سیاسی جماعتیں بائیکاٹ پر چلی گئیں۔ سیاسی منشور اور نظریہ ختم ہوگیا۔ ہر اُمیدوار بغیر کسی سیاسی ڈسپلن اور نظریے کے ذاتی اثر و رسوخ کے ساتھ میدان میں آگیا۔ زیادہ تر سکہ بند اور باشعور سیاست دان کہ جن میں صرف پی پی ہی نہیں بلکہ دوسرے لوگ جیسے خان عبدالولی خان، مولانا فضل الرحمان، معراج محمد خان، نواب زادہ نصرﷲ خان وغیرہ جیسے باہر ہوگئے اور سیٹھ اور ساہوکار آگے آگئے۔ جب یہ سیٹھ خاص کر تاجر طبقہ اسمبلیوں میں آیا، تو پھر خود بخود کابینہ کا حصہ بن گیا۔ آج کے دور کا شریف خاندان اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ ان لوگوں نے بہت ہوش یاری سے سرکاری عہدوں کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں رشوت، سفارش اور اقربا پروری پہلے بھی تھی، لیکن اس کی نوعیت ذاتی سطح پر تھی۔ مثلاً: ایک تھانے دار، ایک پٹواری یا واپڈا کا لائن مین ذاتی طور پر کچھ لے دے کر بہت رازداری سے معاملات طے کرتا تھا اور وہ بھی غیر قانونی کام کے لیے…… لیکن جب اُوپر کی سطح پر ساہوکار اور تاجر اربوں خرچ کر کے آئے، تو اُنھوں نے پورے ادارے کرپٹ کر دیے۔ اب متعلقہ پولیس افسران سے لے کر محکمۂ مال تک کو حکم ملتا کہ وہ صاحب کے ڈیرے اور پرائیویٹ دفاتر کا نظام چلائیں، تو اُنھوں نے کھل کر رشوت لینا شروع کردی۔ دس روپیا صاحب پر لگتا اور پندرہ اپنی جیب میں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
مردِ مومن مردِ حق ضیاء الحق  
مرد مومن مرد حق ضیاء الحق (آخری حصہ) 
5 جولائی، جب جنرل ضیاء الحق نے 1973ء کا آئین معطل کیا 
بھٹو واقعی زندہ ہے 
ذاتی انا کا زہر  
پھر اُن سیٹھوں نے ضیاء الحق کو یہ سمجھا دیا کہ اگر سیاسی جماعتوں، خصوصاً پیپلز پارٹی کو روکنا ہے، تو پھر ترقیاتی کاموں کے فنڈ ممبرانِ اسمبلی کے ہاتھوں خرچ کیے جائیں۔ یوں کرپشن کا ایک نیا دروازہ کھل گیا…… اور یہ اتنا مضبوط حربہ ثابت ہوا کہ اُس نے تمام سیاست بشمول سیاسی جماعتوں کو آلودہ کر دیا۔ اس کی زد میں پیپلز پارٹی جیسی نظریاتی جماعت، ایم کیو ایم جیسی عوامی اور جماعتِ اسلامی جیسی دینی جماعتیں بھی آگئیں۔ فضل حسین راہی جیسے انقلابی دماغ کو مَیں نے خود پی پی کے دفتر میں روتا دیکھا کہ کیا کریں عوام کے ووٹ تو ہیں، لیکن دوسری طرف بریف کیس نوٹوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی اپنا حصہ بقدرِ جثہ لینا شروع ہوگیا۔ انتخاباتی مہم پر کروڑوں لگنا شروع ہوگئے اور پھر ان اخراجات کی واپسی اربوں میں شروع ہوئی جو شاید اب کھربوں میں ہوگئی ہے۔ نتیجتاً مضبوط اور مقبول عوامی جماعتوں نے اپنے ٹکٹوں کی فروخت شروع کر دی۔ جماعتوں کے سربراہوں کو اربوں دے کر ٹکٹوں کا حصول ممکن بنایا گیا۔
اس تمام صورتِ حال کو دیکھ کر سیاسی و نظریاتی کارکنوں کی ایک معقول تعداد گھر بیٹھ گئی اور باقی جو رہ گئے، وہ بہتی گنگا میں اشنان فرمانا شروع ہوگئے۔ اب پاکستان میں آپ کو کسی یونین کونسل لیول کا سیاسی جماعت کا عہدے دار بھی کوئی غریب شخص نہیں ملے گا۔ غریب کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں…… اور پھر ہمارے قوانین بھی امیروں ہی کے لیے بنے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ آج کاغذاتِ نام زدگی جمع کروانے جائیں، تو اول شرط یہ ہے کہ آپ کا اکاؤنٹ نمبر درج ہو۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ میرا اکاؤنٹ نمبر ہے اور نہ اتنا سرمایہ کہ اکاؤنٹ کھولنے کی ضرورت ہو، تو الیکشن کمیشن آپ کے کاغذاتِ نام زدگی مسترد کر دے گا۔
اسی طرح آپ نے گوشوارے ہر صورت جمع کروانے ہیں اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ بھئی، ہماری آمدنی ہے نہ ٹیکس، تو پھر بھی آپ کو ایک عدد وکیل، ایک عدد اکاؤٹنٹ کو لازمی پیسے دے کر لانا ہے، جو آپ کے کاغذات تیار کرکے دستاویزی طور پر ثابت کریں گے کہ آپ کی آمدن ہے اور نہ آمدن پر ٹیکس…… یعنی معقول خرچہ کرکے آپ نے خود کو غریب ثابت کرنا ہے۔آپ یقین کریں کہ یہاں اس ملک (پاکستان) میں خود کو قانونی اور دستاویزی طور پر غریب ثابت کرنا خود کو امیر ثابت کرنے سے کئی گنا زیادہ مشکل اور تکلیف دِہ عمل ہے۔
مَیں الیکشن کمیشن کو شرطیہ یہ کَہ سکتا ہوں کہ محض ان قوانین کی وجہ سے بے شمار متوسط اور پس ماندہ طبقہ کے لوگ انتخابی عمل سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہ حکومت خاص کر الیکشن کمیشن کے سوچنے کی بات ہے کہ اگر وہ واقعی صیح جمہوریت لانے میں مخلص ہیں اور انتخابات میں پیسے کا عمل دخل محدود کرنا چاہتے ہیں، تو پھر ایسے عجیب وغریب قوانین کو تبدیل یا ختم کرنا لازم ہے۔ تاکہ متوسط طبقہ کم از کم انتخابی اکھاڑے تک آجائے، تو آپ دیکھیں گے کہ پھر سیاست میں کرپشن کی اہمیت بتدریج کم ہوتی جائے گی اور اِن شاء اﷲ ایک دن ختم ہو جائے گی…… اور اگر صورتِ حال یہی رہی، تو پھر ہمارا سفر کرپشن کی انتہاؤں تک جاری رہے گا۔ جیسے مثال کے طور پر 70ء کے انتخابات میں بہت سے غریب ترین لوگ اسمبلیوں میں آگئے، لیکن سنہ 85ء میں لکھ پتی ہی اسمبلیوں کا حصہ بنے۔ پھر مزید ترقی ہوئی اور 97ء میں کروڑپتی، 2008ء میں ارب پتی اور 2018ء میں کھرب پتی آگئے۔ آیندہ یقینا یہ اوسط مزید بڑھے گی۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں ایسے قوانین ہوں کہ غریب آدمی کے لیے انتخابات میں حصہ لینا آسان ہو، انتخابی مہم چلانا آسان ہو اور پولنگ والے دن اپنے ووٹر کو پولنگ بوتھ تک لانا آسان ہو۔ کیوں کہ موجودہ قوانین تو روز بہ روز ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ شاید آیندہ آنے والے وقت میں الیکشن امیر آدمی کے لیے بھی مشکل ہو اور صرف امیر ترین کی اجارہ داری بن جائیں۔ اس کا منطقی نتیجہ ملک میں کرپشن اور بدمعاشی کا اضافہ عام آدمی کے لیے مشکلات اور ملک کی سالمیت کے لیے خطرناک حالات ہوتے جائیں گے۔ سو ہمارے انتظامی اور حکومتی ادارے خاص کر الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو اس پر توجہ دینے کی اشد ضروت ہے۔
اور یہ بہت آسان ہے۔ آپ ترقی یافتہ ممالک کا تجزیہ کرسکتے ہیں۔ وہاں دو طرح کے نظام ہیں: ایک مثال امریکہ اور فرانس کی ہے، جہاں پیسے کا عمل دخل ہے، لیکن وہاں حکومت باقاعدہ فنڈ خود دیتی بھی ہے اور فنڈ ریزیگ کا آسان طریقہ بھی بتاتی ہے۔
دوسری مثال کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ہے کہ جہاں آپ کے پیسا ہو، تب بھی آپ قانوناً خرچ نہیں کرسکتے۔
مثال کے طور پر مجھے ایک جاننے والے نے بتایا کہ اُس کا ایک کزن کینیڈا میں کسی بلدیاتی کونسل کا امیدوار بنا، وہ شخص پاکستان کا عادی تھا۔ سو کاغذات جمع کروانے کے ساتھ ہی اُس نے اپنے انتخابی حلقہ میں پینا فلیکس اور بل بورڈ لگا دیے، لیکن تیسرے دن ہی اُس کو طلب کر لیا گیا اور اُس کو بتایا گیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ صرف اپنے گھر کے باہر ایک چھوٹا سا اشتہار لگا سکتا ہے کہ وہ کونسلر کا امیدوار ہے۔ جب اُس نے سوال کیا کہ وہ پھر حلقہ کے عوام میں اپنی پہچان کیسے کروائے، تو متعلقہ ادارے کے ملازم نے قہقہہ لگا کر کہا کہ جب آپ کو ایک محلہ کہ جو آپ کا حلقہ ہے کہ لوگ پہچانتے نہیں، تو پھر آپ کو انتخابات میں حصہ ہی نہیں لینا چاہیے۔
اب چوں کہ حکومت خود تو خرچہ کر نہیں سکتی۔ اس لیے ہمارے واسطے بہتر ماڈل کینیڈا کا ہے کہ پیسے کا عمل دخل روک دیا جائے۔ ترقیاتی فنڈز کو اسمبلی ممبران سے واپس لے کر بلدیاتی اداروں کے حوالے کیا جائے۔ متعلقہ پولیس افسران، محکمۂ مال اور تعلیم کو براہِ راست عوامی حمایت سے وابستہ کر دیا جائے۔ سو اب نہ کوئی پیسا لگائے اور نہ بنائے۔ ویسے بھی جب ان سیٹھوں اور تاجروں کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ اب سیاست محض خدمت کا نام ہے اور اگر پیسا خرچ کر بھی دیں، تو واپسی نا ممکن ہے، تو وہ خود بخود پیچھے ہٹ جائیں گے اور عام آدمی کے ہاتھ ملک کی ڈور ہوگی۔ پھر ہم بھی کینیڈا کی طرح ترقی کرنے کے بارے میں سوچ سکیں گے۔ کیا کوئی میری اس پکار پر توجہ دے گا…… کیوں کہ یہ مسئلہ ہے ’’فوری توجہ طلب۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے