سنہ 1985ء کا دور تھا۔ فیض احمد فیضؔ کو رخصت ہوئے ایک برس ہوچکا تھا۔ لاہور کے ایک آڈیٹوریم میں فیضؔ صاحب کی پہلی برسی پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ایک پُروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہال میں عوام کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔’’ساڑھی‘‘ اس دور میں ایک ’’کالعدم لباس‘‘ تھی، اس تقریب میں ایک خاتون جو سٹیج پر موجود تھیں، نے کالے رنگ کی ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی۔ خاتوں نے فیض کی انقلابی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کو ترنم میں پڑھنا شروع کیا۔ اتنے میں پولیس ہال میں داخل ہوئی۔ ہال کی روشنیاں بند کردی گئیں اور مائک کا تار کاٹ دیا گیا۔ اس تمام تر کارروائی کے باوجود خاتون نے نظم پڑھنا جاری رکھا اور ہال میں موجود عوام اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور جب تک نظم مکمل نہیں ہوئی، تمام ہال ہم آواز ہوکر فیض کی نظم سے گونجتا رہا۔ نظم ختم ہوتے ہی ان خاتون سمیت عوام میں سے نمایاں نظر آنے والوں کو گرفتار کرلیا گیا اور اس واقعہ کے بعد ملک بھر میں گانے بجانے پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔ گرفتار کی جانے والی خاتون گلوکارہ کوئی اور نہیں بلکہ اقبال بانو تھیں۔

خاتوں نے فیض کی انقلابی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کو ترنم میں پڑھنا شروع کیا۔ اتنے میں پولیس ہال میں داخل ہوئی۔ ہال کی روشنیاں بند کردی گئیں اور مائک کا تار کاٹ دیا گیا۔ اس تمام تر کارروائی کے باوجود خاتون نے نظم پڑھنا جاری رکھا اور ہال میں موجود عوام اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور جب تک نظم مکمل نہیں ہوئی، تمام ہال ہم آواز ہوکر فیض کی نظم سے گونجتا رہا۔

نئی نسل اور بہت سے وہ لوگ جنہوں نے 80ء کی دہائی میں جنم لیا، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کا حسین دور تھا۔ اس دور کے چند منظر نامے آپ کے گوش گزار کرنے کو حاضر ہوا ہوں۔ایک لمحے کے لئے فرض کیجیے کہ آپ میرے جیسے مسلمان ہیں جو ہر جمعہ کے روز مسجد کی شکل دیکھتے ہیں یا پھر ایسے مسلمان ہیں جو سال میں خدا توفیق دے، تو عیدین کی دو نمازیں تو کسی طور قضا ہی نہیں کرتے۔ آپ کو دفتر پہنچتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں نظامِ صلوٰۃ کا نفاذ ہوچکا ہے۔آفس میں جائے نماز بھی بن چکی ہے۔حکم نامہ جاری ہوجاتا ہے کہ اب سے تمام ملازمین پابندی سے باجماعت نماز ادا کریں گے۔اب آپ کا دل نماز کی جانب مائل ہو یا نہ ہو، آپ کو خدا کے حکم کے مطابق نہیں بلکہ ایک صدر کے حکم پر نماز ضرور قائم کرنی ہے۔دوسری پابندی یہ کہ آپ اُلٹے ہوں یا سیدھے، آپ کو اپنی تنخواہ میں سے صدر کے حکم کے مطابق زکوٰۃ بھی ادا کرنی ہے۔
مرحوم صدر نے مارشل لگانے کے فوراً بعد جو تقریر کی تھی اس میں کہا تھا کہ مجھے صرف اس خلا کو پر کرنے کے لئے آنا پڑا جو سیاستدانوں نے پیدا کیا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ مرحوم صدر نے خلا ایسا پُر کیا کہ ایک نیا سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشرتی خلا پیدا کر دیا، جسے خیر سے تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی پُر نہیں کیا جا سکا۔1980ء کی دہائی میں عوام کے ساتھ ساتھ خواص کی حالت زار بھی دیکھنے لائق تھی۔ خواص سے میری مراد یہاں شاعر اور گلوکار ہیں۔اردو ادب اور شاعری میں جو کہا اور لکھا گیا، وہ تقریباً آدھے سے زائد مزاحمتی ادب تھا،جس ادب میں مرد مومن کی شان کے خلاف یا عوامی اور سیاسی حقوق ضبط کرنے پر کچھ لکھا گیا ہوتا، تو وہ چھپنا بند ہوجاتا تھا۔ صرف من پسند ادب کی ترویج و اشاعت جاری تھی۔

صدر نے مارشل لگانے کے فوراً بعد جو تقریر کی تھی اس میں کہا تھا کہ مجھے صرف اس خلا کو پر کرنے کے لئے آنا پڑا جو سیاستدانوں نے پیدا کیا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ مرحوم صدر نے خلا ایسا پُر کیا کہ ایک نیا سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشرتی خلا پیدا کر دیا، جسے خیر سے تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی پُر نہیں کیا جا سکا۔

احمد فرازؔ نے مشاعروں میں ضیاء الحق کے خلاف نظمیں اور غزلیں کہنا شروع کیں، تو انہیں گرفتار کیا گیا۔ یہاں تک کہ ضیاء الحق کے ادوار میں فرازؔ صاحب نے چار برس کے لئے خود ساختہ جلاوطنی قبول کرلی۔ جلاوطنی کا عرصہ انہوں نے یورپ، برطانیہ اور کینیڈا کے ممالک میں گزارا اور اسی دوران میں اپنی ایک مشہور نظم ’’محاصرہ‘‘ کے دوسرے حصے میں جابر ڈکٹیٹر کو یہ جواب دیا:
سو یہ جواب ہے میرا ،میرے عدو کے لئے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اسے ہے سطوتِ شمشیر پر گھمنڈ بہت
اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے
میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے

احمد فرازؔ نے مشاعروں میں ضیاء الحق کے خلاف نظمیں اور غزلیں کہنا شروع کیں، تو انہیں گرفتار کیا گیا۔ یہاں تک کہ ضیاء الحق کے ادوار میں فرازؔ صاحب نے چار برس کے لئے خود ساختہ جلاوطنی قبول کرلی۔ جلاوطنی کا عرصہ انہوں نے یورپ، برطانیہ اور کینیڈا کے ممالک میں گزارا۔

پاکستان کی تیسری نسل اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ انہوں نے صرف آصف زرداری، نواز شریف، عمران خان جیسے سیاستدانوں اور جرنیلوں میں صرف مشرف کا دور دیکھا ہے اور انہی شخصیات کے درشن ٹیلی وژن سکرین پر کئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے سیاسی قد کاٹھ اور منصب کا بولتے ہوئے اتنا خیال تو رکھتے ہیں کہ بات سیاسی ہی کی جائے۔ آج کی نسل ضیاء الحق کو سننے سے محروم رہی ہے۔ یہ ان کی خوش قسمتی ہی ہے، ورنہ پاکستان کی باقی دو نسلیں اس چیز کی گواہ ہیں کہ جب جب بھی مرحوم جنرل ٹی وی یا ریڈیو پر عوام سے خطاب شروع کرتے تھے، تو رتی برابر بھی کوئی فرق تلاش نہیں کر پاتا تھا کہ صدرِ محترم قوم سے خطاب فرما رہے ہیں یا محلے کی مسجد کا مولوی جمعہ کے خطبے سے قبل تقریر کر رہا ہے۔ ’’اسلام ہمارا دین ہے، اسلام ہمارا ایمان ہے۔ اور اس کی تکمیل تب تک نہیں ہوسکتی جب تک آپ کے اندر عشقِ رسولؐ نہ ہو۔‘‘ آج کی نسل یہ تقریر سنتے ساتھ ہی چینل بدل چکی ہوتی، کیونکہ مردِمومن عوام کو اسلام کا رٹا لگوانے پر مامور تھا، وہ بھی منافقت کے پردے میں۔
ان کی اپنی کی ہوئی ایک ہی تقریر میں کئی متضاد باتیں ہوا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر ’’میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو اسلامی مملکت پاکستان ہے، اس میں تمام اقلیتوں کو اتنی حفاظت موجود ہے جتنی کے عام مسلمان شہری کو بلکہ اقلیتوں کا درجہ ان سے بھی بہترلیکن مشرکین کے لئے ہمارے ہاں کوئی جگہ نہیں۔‘‘ مردِمومن کے اس بیان سے کیا اخذ کیا جائے؟ وہ پہلے دائیں جانب سجدہ کرتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے سجدہ کا رخ بدل لیتے ہیں۔ وہ اقلیت کو حقوق بھی دینے کی بات کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی مشرکین سے حقوق چھینتے بھی ہیں۔کیا وہ مشرکین کو اقلیت نہیں شمار کرتے تھے؟
ضیاء الحق کے دور میں عوام پر ہر روز سورج ایک نئے رُخ سے طلوع ہوتا تھا اور یہ ضیائی ورژن کے اسلام کا طلوع تھا۔
ضیاء الحق کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت جس شاعر نے دکھائی وہ حبیب جالبؔ تھے۔ مردِ مومن کے زمانے میں بھی حفیظ جالندھری جیسے شاعر موجو د تھے جو فوجی حکمران کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے اور اعزاز میں سرکاری عہدہ پاتے جیسے حفیظ صاحب ایک زمانے میں ایوب خان کے مشیر تھے، تو جالبؔ کو بڑے شوق سے کہا کرتے تھے کہ میں ایوب کا مشیر ہوگیا ہوں۔ ایوب رات کو سوتے میں اٹھا دیتا ہے، فون پر پوچھتا ہے حفیظ میں کیا کروں؟ یہ کالے کوٹوں والے، یہ کالجوں والے بڑا ہنگامہ کرتے ہیں۔میں ان سے کہتا ہوں کہ ایوب ان پر ڈنڈا رکھ۔ یہ جو کالے کوٹ والے ہیں اور یہ جو شاعر گاتا پھرتا ہے:’’ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا‘‘ اس پر بھی ڈنڈا رکھ۔
اس واقعہ کے بعد جالبؔ نے حفیظ صاحب پر ایک نظم ’’مشیر‘‘ لکھی تھی۔

ضیاء الحق کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت جس شاعر نے دکھائی وہ حبیب جالبؔ تھے۔ مردِ مومن کے زمانے میں بھی حفیظ جالندھری جیسے شاعر موجو د تھے جو فوجی حکمران کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے اور اعزاز میں سرکاری عہدہ پاتے

ضیاء الحق کا زمانہ جالبؔ کے لئے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ 80ء کی دہائی میں کراچی پریس کلب نے جالب کو لائف ٹائم ممبر شپ دی اور خط لکھا کہ آپ آئیں اور کوئی تازہ نظم لائیں۔ شام ڈھلے جب تقریب شروع ہوئی، تو جالبؔ صاحب مائیک پر آئے اور کہنے لگے کہ میں جو نظم آخر میں سنانا چاہتا تھا، وہ سب سے پہلے سناؤں گا۔ پھر اپنے خوبصورت ترنم میں جالبؔ نے اپنی یہ شہرہ آفاق نظم سیاسی گھٹن کے دور میں پڑھی۔
ظلمت کو ضیاء، صر صر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پریس کلب کی اس تقریب کے بعد لاہور پہنچتے ہی جالب گرفتار ہوگئے اور پنجاب کی بدنام زمانہ میانوالی جیل میں رکھے گئے۔ جیل میں چند ایام گزارے ہی تھے کہ چوہدری ظہور الٰہی کا پیغام موصول ہوا: ’’میں نے جنرل ضیاء سے تمہاری رہائی کی بات کی تھی، مگر جنرل نے کہا ہے کہ جالبؔ سے کہو کہ وہ ایک مصرعہ نکال دے ’’ظلمت کو ضیاء والا۔‘‘اس پر جالبؔ نے ظہور الٰہی کو پیغام بھجوایا: ’’میں جب کوئی شعر کہتا ہوں، تو وہ عوام کی امانت بن جاتا ہے۔اب اگر میں ظلمت کو ضیاء والا مصرعہ نکال بھی دوں، تو جب بھی کسی مشاعرے میں عوام فرمائش کریں گے، تو میں اسے پڑھے بغیر نہیں رہ سکوں گا۔‘‘
میانوالی جیل کے بعد کوٹ لکھپت جیل جالب کی منتظر تھی۔
اس کے بعد بانڈ سسٹم کے تحت غیر مشروط معافیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ بہت سارے لوگ ضیاء الحق سے معافی مانگ کر رہا ہوئے اور بعد میں ایم پی اے اور ایم این اے بن گئے۔ ان میں پیپلز پارٹی کے بھی بہت سے لوگ شامل تھے، مگر جالبؔ نے معافی نہ مانگی اور سچ بولنے کی سزا ایک جیل سے دوسری جیل تک کی ہجرت کی شکل میں پائی۔ مردِ مومن کے دور میں جالبؔ نے شاعری کی جو کتاب لکھی، اس کا پہلے نام ’’ضبط‘‘ رکھا۔ کیوں کہ اسے چھپتے ہی ضبط ہونا تھا اور وہ ہوگئی۔
بہت سے لوگ ضیاء الحق کے ’’ضیاء پرور‘‘ دور کے بارے میں بحث کرتے ہیں کہ کیا خوب اسلام کا سپاہی تھا یہ مردِ مومن۔ یہ کیسا مومن تھا جو حبیب جالب کی شاعری کی کتابیں ضبط کروا لیا کرتا تھا؟ جو معافیاں منگواتا تھا؟ کون سا ایٹم بم تھا جالبؔ کی شاعری میں جس کے عوض جالبؔ کی راتیں اس کے دور میں جیلوں کی تاریک کوٹھڑی میں گزرتی رہیں؟ (جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔