مترجم: ڈاکٹر محمد افتخار شفیع، ساہیوال
ابوالحسن ایک سادہ اور خاموش طبع کسان تھا۔ اُس کی شرافت اور نجابت کی وجہ سے لوگ دل سے اُس کی عزت کرتے تھے۔ مَیں اُس کی زندگی کے ماہ و سال سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اُس کی تمام زندگی خاموشی اور نیک نیتی کے ساتھ گزری تھی۔ سچ پوچھیے، تو ابوحسن کسان طبقے کا نمایندہ تھا…… دل و جاں سے عزت کا لائق۔ وہ دنیا کے مسائل اور عالمی امور سے بالکل بے خبر ہے۔ مجموعی طور پر وہ ایک سادہ لوح آدمی ہے۔ اُس کی تھوڑی سی زمین تھی اور کچھ اُس نے مزارعت پرلے لی تھی۔ اُس نے دن رات سرتوڑ محنت کی۔ خود کو کاشت کاری کے لیے وقف کرلیا۔ وہ اپنی زمین پر ایسے محنت کرتا تھا، جیسے ایک باپ اپنے سب سے پیارے بچے کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
زمین کے مالک سے اُس نے نصف آمدنی پر یہ زمین حاصل کی تھی، یعنی آدھی فصل اُس کی، آدھی مالک کی۔ اُس نے ایساہی کیا اور زمین کے مالک کا مکمل حصہ اُس کو دے دیا۔ اُسے فصل کی کٹائی کے اختتام پر دعاؤں اور شکریے کی چھاؤں میں پورے تین برطانوی پاؤنڈ ملے۔ یہ اُس کی دن رات کی محنت اور لگن کا ثمر تھا۔ ’’پورے تین برطانوی پاؤنڈ……!‘‘ اُس نے اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہا: ’’ہاہاہا!‘‘ یہ اس کی محنت کا ثمر تھا۔
مَیں ابوحسن کے محنتی ہونے کا ذاتی طور پر گواہ ہوں۔ مجھے دن رات کی محنت کا یہ صلہ بہت کم لگا۔ مَیں نے اُسے زمین کے مالک کی اِس زیادتی پر احتجاج کرنے کا مشورہ دینے کا سوچا، لیکن مجھے پتا تھا کہ اُس پر اِس نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ مَیں اُس سے کہوں گا کہ ’’دیکھو ابوحسن! یہ دعاؤں اور شکریہ کی چھاؤں میں قناعت پسندی اچھی نہیں۔ تمھاری ایک بیوی اور چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اُن کا گزارا کیسے ہوگا؟‘‘ لیکن مَیں نے یہ نصیحت اپنے پاس ہی رکھی۔ کیوں کہ مَیں ابوحسن کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ میرے اِس مشورے کو ذرا بھی اہمیت نہیں دے گا۔ بل کہ اِس کے بدلے میں مجھے صبر، قناعت، درویشی اور توکل کے موضوع پر اُس کا ایک طویل لیکچر سننا پڑے گا۔ اُسے ملازموں اور مزارعوں کی ایمان داری اور وفاداری کے سیکڑوں قصے زبانی یاد ہیں۔
یہاں یہ قصے اور کہانیاں بیان کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ مَیں اپنے دوست ابو الیاس کا شکر گزار ہوں۔ خدا اُس کی عمر دراز کرے۔ وہ غریب کسانوں کا سچا حمایتی ہے۔ وہ ان مفلس دہقانوں کو کاشت کے لیے زمین دیتا ہے۔ یہ زمین جو اُسے قدرت نے دی تھی۔ اُس کے بدلے میں اُن سے صرف آدھی فصل لے لیتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مَیں نے اپنے دوست ابوحسن کوسمجھانے کی کوشش کی: ’’یار! زمین داروں کے پاس یہ زمینیں شروع سے نہیں ہیں۔ نہ یہ اُنھیں خداکی طر ف سے ملی ہیں۔ اُنھوں نے بڑی عیاری اور مکاری کے ساتھ ہمارے تمھارے باپ دادا سے ہتھیالی تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن کسانوں سے یہ زمین چھینی، اُنھی کو یہاں کھیتی باڑی پرآمادہ بھی کرلیا۔ یہ بڑے زمین دار کسانوں کی محنت کی کمائی کو چیلوں کی طرح اُڑا رہے ہیں۔‘‘
دیگر متعلقہ مضامین:
دو جنرل اور ایک عام آدمی (روسی ادب) 
دربارِ خداوندی میں (مصری ادب) 
گوشت (برازیلی ادب) 
سورج مکھی (برازیلی ادب) 
دانت درد جیسے لوگ (عربی ادب) 
ابوحسن کو میری باتیں سن کرغصہ آگیا، وہ چیخا: ’’اس ڈارھی والے شخص کی فلسفیانہ باتیں پڑھ پڑھ کرتمھارا تودماغ ہی خراب ہوگیا ہے۔‘‘ اُس کا اشارہ ’’کارل مارکس‘‘ کی طرف تھا، جس کی تصویر مَیں نے اُسے مارکس کی کتاب ’’سرمایہ و محنت‘‘ کے سرورق پر دکھائی تھی۔
وہ بولا: ’’انھی کتابوں نے تمھارا دماغ خراب کردیا ہے۔ تم نہیں جانتے کہ اس شخص کی باتیں ہماری روایات کے بالکل خلاف ہیں۔‘‘
مَیں اپنا سا منہ لے کررہ گیا۔ اس واقعے کے بعد مجھے روزگار کے سلسلے میں شہرسے باہر جانا پڑا۔ تین سال پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ میرا ابوحسن سے رابطہ نہ رہا۔ ایک دن جب مَیں چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا۔ کسی کام کے سلسلے میں عدالت کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اچانک میری نظر ابو حسن پرپڑی۔ یہ ابوحسن تین سال پہلے والے میرے دوست ابو حسن سے بالکل مختلف تھا۔ اُس کے چہرے پر کرختی اور آنکھوں میں بے رحمی دکھائی دے رہی تھی۔
’’یہ تم ہی ہو ابوحسن؟ اوہ میرے خدا، تین سالوں میں کتنے بدل گئے ہو۔‘‘ مَیں نے اُس کے سخت اور کھردرے ہاتھوں کو دباتے ہوئے کہا۔
’’میرے دیرینہ دوست…… خوش آمدید!‘‘ اس کی آواز میں قدرے نقاہت تھی۔
’’یہ تبدیلی وقت گزرنے کی وجہ سے نہیں۔ آؤ، وہاں قہوہ خانے میں بیٹھ کر تفصیل سے باتیں کرتے ہیں۔‘‘
ابوحسن نے اپنی کہانی مجھے تفصیل سے سنائی۔ اُس کہانی میں ایک دکھی انسان کا درد چھپا تھا۔ وہ دُکھ جو ہرکسان کے دل پر گزرتا ہے۔ اُس نے بڑی محنت سے اس پولش اسرائیلی کی زمین کو کاشت کے قابل بنایا تھا۔ ایک بنجر پہاڑی کو اپنی شبانہ روز محنت سے ایک خوب صورت باغ میں تبدیل کردیا تھا۔ جہاں انواع و اقسام کے زیتون اور نارنگیوں کے درخت اُگ آئے تھے۔ اس نے کھیت ہم وار کیے۔ قسم قسم کی اچھی کھادیں استعمال کرکے اس کی مٹی کو ہرفصل کے لیے قابلِ کاشت بنایا۔ لوگ اُس کی زمین کی مثالیں دیتے تھے۔ جب زمین دار کو محسوس ہوا کہ اب یہ زمین قیمتی ہوگئی ہے، تو اُس نے ابو حسن کے ساتھ اپنا رویہ بدل لیا۔ اگلے سال اُس نے زمین دینے سے انکار کردیا۔ جب ابو حسن نے احتجاج کیا، تواُس کے خلاف عدالت میں جھوٹے مقدمے درج کروا دیے گئے۔ ابو حسن نے مقابلہ توکیا، لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کیس ہار گیا۔
مَیں ابوحسن کی روداد بڑے دکھ سے سن رہا تھا۔ ’’اب مجھے بیج خریدنے ہیں۔‘‘ اُس نے غصے کے عالم میں اپنی بات جاری رکھی۔ ’’زمین کے تمام اخراجات ادا کرنے ہیں۔ آج تو میرے ساتھ عدالت میں بہت برا ہوا۔ مجھ سے زمین میں مٹی کی بھرائی کی قیمت وصول کی گئی، جو مَیں نے جھگڑے کے دوران میں کھیتوں سے نکال لی تھی۔‘‘
ابو حسن کو اپنے خلاف رچائی گئی سازش کا بہت دکھ تھا۔ ’’مجھے اندازہ تھا کہ زمین دار مجھے میرے تمام حقوق سے محروم کردے گا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ مَیں نے وہ سونا اگلنے والی مٹی کھیتوں سے نکال لی۔ کیوں نہ نکالتا۔ یہ میرے پسینے میں بھیگی ہوئی تھی۔ مَیں نے سالانہ تین پاؤنڈ بھی ضائع کیے۔ فصل میں سے اپنا نصف حصہ بھی کھو دیا، لیکن مَیں نے ایک رازکی بات پالی۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ مَیں نے حیرت سے پوچھا۔
’’مجھے شعور کی دولت مل گئی۔ اَب مجھے پتا چل گیا ہے کہ تمھاری ساری باتیں درست تھیں۔ مجھے ساری باتیں اچھی طرح سمجھ آگئی ہیں۔‘‘ اُس نے سر اُٹھا کر میری طرف دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں مجھے ایک خاص چمک دکھائی دے رہی تھی۔ ’’دانائی اور شعور کی چمک۔‘‘
مصنف کا تعارف:۔ میخائل اسود (Mikhyl Al aswad) کا تعلق فلسطین کے ایک مسیحی گھرانے سے تھا۔ 1930ء میں یروشلم میں پیدا ہوئے۔ والد ایک پادری تھے۔ ابتدائی پرورش خاصے مذہبی ماحول میں ہوئی۔ عملی طور پر فلسطین کی تحریکِ آزادی کے لیے سرگرم ’’پاپولر فرنٹ‘‘ میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے ادبی و ثقافتی شعبے کے سرگرم رکن تھے۔ شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ کالم نگاری کو بھی اپنے پیغام کا ذریعہ بنایا۔ فکری طور پر فلسطین میں بائیں بازو کے سرگرم دانش ور سمجھے جاتے تھے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی ناکامی کے بعد کی تحریروں میں ایک خاص قسم کا ’’رثائی انداز‘‘ سامنے آیا۔ میخائل اسود کے ہاں اُس کی ہلکی سی لہر تیرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس دور کے زیادہ تر کہانی نویس مارکس ازم سے متاثر ہیں۔ میخائل اسود کے ہاں بھی اس کی مثالیں بہ آسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔