انتخابی نشان اور مائنس عمران

Blogger Adv Muhammad Riaz

اس وقت سیاسی منظر نامے پر زیرِ بحث موضوع عمران خان کا انٹرا پارٹی الیکشن سے دست بردار ہونا اور بیرسٹر گوہر علی خان بحیثیت اُمیدوار برائے چیئرمین پی ٹی آئی نام زدکیا جانا ہے۔
پی ٹی آئی کے بانی سربراہ کو پارٹی چیئرمین شپ سے دست بردار ہونے کی نوبت کیوں پیش آئی اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟ آئیں اس کا جایزہ لیتے ہیں:
سب سے بڑی وجہ جماعت کو اپنے ہر دل عزیز انتخابی نشان ’’بلا‘‘ کے چھن جانے کا خوف لاحق ہے۔ یاد رہے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے گذشتہ ہونے والے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج کالعدم قرار دیتے ہوئے جماعت سے 20 روز کے اندر دوبارہ انتخابات کروانے کا کہا اور خبردار کیا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت جماعت سے بلے کا نشان واپس لے لیا جائے گا۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
بظاہر انتخابی نشان کا مقصد پولنگ ڈے پرووٹرز کے لیے انتخابی عمل میں اپنی پسند کے اُمیدوار کو چُننے میں رہنمائی فراہم کرنا ہے، مگر پاکستان کی مروجہ سیاسی روایات میں انتخابی نشان کسی بھی اُمیدوار کی جیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام، متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی جیسی بڑی سیاسی جماعتیں اپنے موجودہ انتخابی نشانات کے حصول کی خاطر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ہر حکم کی بجاآوری کے لیے تن من دھن کی بازی لگاتی دکھائی دیتی ہیں۔
یاد رہے کہ سیاسی جماعت کے لیے انتخابی نشان کے حصول کا طریقۂ کار الیکشن ایکٹ، 2017ء کے باب نمبر 12 اور سیکشن 214 تا 218 میں مذکور ہے، جیسا کہ سیاسی جماعت کی الیکشن کمیشن سے رجسٹریشن، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے امیدواروں کا انتخاب کرنا، انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی فنڈز کے ذرائع کے بارے میں الیکشن کمیشن کو معلومات فراہم کرنا لازم ہے۔ بہ صورتِ دیگر مطلوبہ انتخابی نشان الاٹ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
اَڈیالہ جیل میں قید پی ٹی آئی قائد عمران خان کو انٹرا پارٹی انتخابات سے دست بردار کیوں ہونا پڑ رہا ہے؟ اس کی بڑی وجہ ماہِ اگست میں الیکشن کمیشن کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی عدالت سے تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کے بعد عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 63 (1) (h) اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 232 کے تحت پانچ سال کے لیے پارلیمانی سیاست سے نااہل قرار دیا جانا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
مقتدر حلقے عمران خان کی نااہلی کے درپے 
سیاست دانوں کو بدنام کرنا مسئلے کا حل نہیں 
بلاول بھٹو زرداری کا المیہ 
ڈراما نیا مگر سکرپٹ پرانا ہے 
باوجود اس کے کہ یہ سزا سلام آباد ہائیکورٹ سے معطل ہوچکی ہے، مگر سزا کے برخلاف اپیل کی شنوائی تک سزا ختم تصور نہیں ہوگی۔
یہ ماضیِ قریب کی بات ہے، جب محلاتی سازشیں عروج پر تھیں، توسپریم کورٹ کی جانب سے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کے خلاف دائر درخواست میں نواز شریف کو پارٹی صدارت سے نااہل قرار دینے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن پاکستان نے سینیٹ انتخابات کے لیے نواز شریف کی جاری کردہ ٹکٹس کالعدم قرار دے دیں۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفرالحق کی جانب سے جاری ہونے والی نئی پارٹی ٹکٹ کو بھی مسترد کردیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) بطورِ سیاسی جماعت سینیٹ الیکشن سے باہر ہوگئی، تاہم پارٹی کے امیدواروں کو آزار قرار دے دیا گیا۔
یاد رہے کہ پانامہ لیکس اور الیکشن ایکٹ 2017ء بل کے خلاف متعدد سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ کا رُ خ کیا اور نواز شریف کو وزارتِ عظمی سے ہٹوانے کے ساتھ ساتھ پارٹی صدارت سے بھی ہٹوا کر ہی دم لیا اور یہ حقیقت پر مبنی بات ہے کہ جسٹس ثاقب نثار المعروف ’’بابا رحمتا‘‘ کی عدالت کی جانب سے نواز شریف کو پارٹی صدارتی عہدہ سے ہٹائے جانے کا فیصلہ تحریکِ انصاف کے لیے گلے کی ہڈی ثابت ہوچکا ہے۔کیوں کہ نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹاتے وقت سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اُترنے والا ہی پارٹی صدر بن سکتا ہے۔ لہٰذا پی ٹی آئی انٹرا الیکشن میں عمران خان دوبارہ چیئرمین منتخب ہو بھی جائیں، تو سپریم کورٹ کا نواز شریف کے خلاف سال 2018ء کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا عمران خان کے خلاف اگست میں جاری فیصلے کی بدولت انٹرا الیکشن کے نتائج اک مرتبہ پھر کالعدم قرار دے دیے جائیں گے۔ پھر پی ٹی آئی کے لیے اپنا پسندیدہ انتخابی نشان بلے کا حصول نا ممکن ہوجائے گا۔
یوں عین ویسی ہی صورتِ حال پیدا ہوجائے گی جیسی پیچیدگیاں فروری 2018ء میں مسلم لیگ ن کے لیے پیدا ہوئی تھیں…… اور مسلم لیگ ن کے سینٹ کے امیدواروں کو شیر کے نشان کے بغیر آزاد حیثیت سے سینٹ انتخابات لڑنا پڑے تھے۔
اسے مکافاتِ عمل ہی کہا جاسکتا ہے کہ کل تک مسلم لیگ ن سے ن، ش، ح، م نکالنے والی جماعت پی ٹی آئی کے اپنے بانی سربراہ کو پارٹی چیئرمین شپ ہی سے دست بردار ہونا پڑ رہا ہے۔ پارٹی کے لیے اس سے زیادہ اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ سال 2022ء میں شامل ہونے والے بیرسٹر گوہر کو پارٹی کی سربراہی سونپی جارہی ہے۔ عین اسی طرز پر جیسا کہ ’’وسیم اکرم پلس‘‘ عثمان بزدار کو تقریباً چھے ماہ پہلے پارٹی میں شامل ہونے کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا خادمِ اعلا بنا دیا گیا تھا…… اور حکومت خاتمہ کے بعد وسیم اکرم پلس بھی رفو چکر ہوگئے۔
اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چُرائی جاسکتیں کہ بلے کے نشان کے حصول نے بظاہر پارٹی چیئرمین عمران خان کو مائنس کردیا ہے۔ اب عمران خان کو بھی نواز شریف یا الطاف حسین کی طرز پر پس پردہ رہ کر پارٹی کو چلانا پڑے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے