کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے

Comrade Amjad Ali Sahaab's Diary

27 نومبر 2023ء
روزنامچہ: کامریڈ امجد علی سحابؔ 
وہ وقت آج بھی مجھے یاد ہے جب پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے محسن داوڑ اور علی وزیر کو پارلیمان کے فلور پر ’’غدار‘‘ ثابت کرنے کے لیے حضرتِ مراد سعید، شہر یار آفریدی اور اس قبیل کے دیگر ’’سیاست کار‘‘ چہرے بگاڑ بگاڑ کر اور گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنی ’’وفاداری‘‘ ثابت کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتے تھے۔ مَیں ایسے سیاست کاروں کے لیے اکثر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بک‘‘ کی اپنی وال پر ایک شعر کوٹ کیا کرتا تھا:
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
اِسے مکافاتِ عمل کَہ لیں کہ کل تحریکِ انصاف والے جو بے انصافی دیگر پارٹیوں اور بطورِ خاص ن لیگ والوں کے ساتھ کر رہے تھے، آج اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
چُھری خربوزے کے اوپر گرے، یا خربوزہ چُھری کے اوپر…… دونوں صورتوں میں نقصان خربوزے کا ہوتا ہے۔ اس مثال میں سیاسی پارٹیاں خربوزہ ہیں اور ’’چاقو‘‘ کا سب کو پتا ہے۔ روحِ فراز سے معذرت کے ساتھ
مَیں تیرا نام نہ لوں، پھر بھی لوگ پہچانیں
چاقو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے خربوزے کی طرف آتے ہیں۔ فیاض ظفر کی آج کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق خوازہ خیلہ میں تحریکِ انصاف کے ورکرز کنونشن پر خوازہ خیلہ پولیس نے پارٹی رہنماؤں سمیت 2500 کارکنوں پر انسدادِ دہشت گردی اور دیگر دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کی تفصیل میں درج ہے کہ علت نمبر 713 کے تحت درج ایف آئی آر میں سابق ایم این اے جنید اکبر، سابق ایم پی اے فضل حکیم، سٹی میئر شاہد علی خان، عمران سوات خان، رفیق الرحمان، آصف شہزاد اور چوبیس پچیس سو تحریکِ انصاف کے دیگر کارکنان شامل ہیں۔ مذکورہ افراد پر 186, 187, 188, 341, 283, 353, 500, 501, 506, 7ATA, 147, 149, 124A, PPC3/4 کی دفعات درج کی گئی ہیں۔
فیاض ظفر کے مطابق ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ گذشتہ روز مذکورہ افراد نے جگہ جگہ روڈ بند کرکے ٹریفک میں خلل ڈالا اور علی شاہ ایڈوکیٹ کے حجرے کے قریب جمع ہوکر لاوڈ اسپیکر پر کارکنوں کو پولیس کے خلاف اشتعال دلاتے رہے۔ نیز امن و امان میں خلل ڈالتے رہے اور کارکنان کو انتظامیہ اور پولیس کے خلاف اشتعال دلاتے رہے۔ پولیس نے مقدمے میں نام زد 37 کارکنوں کو گرفتار کرکے ایڈیشنل سیشن جج ششم کے سامنے پیش کیا اور جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، جس پر عدالت کے جج نے تمام ملزمان کو یک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
دوسری جانب ایف آئی آر میں درج تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کو ضمانت قبل از گرفتاری (بیل بی فور آرسٹ یا بی بی اے) سے پہلے گرفتاری کے لیے پولیس کی بھاری نفری ضلعی کچہری کے باہر جگہ جگہ موجود تھی، لیکن عدالتی وقت ختم ہونے تک کوئی رہنما ’’بی بی اے‘‘ کے لیے عدالت نہ پہنچ سکا۔
ظلم چاہے کوئی بھی کرے، ظلم ہی ہے۔ کل تحریکِ انصاف والے ظلم کر رہے تھے، مثلاً: رانا ثناء اللہ جیسے سیاست دانوں کو منشیات کے جھوٹے مقدمے میں سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا، محسن داوڑ اور علی وزیر جیسے راہ نماؤں پر ’’را‘‘ کے ایجنٹ کا لیبل چسپاں کرنا، سیاست میں گالم گلوچ کو رواج دینا وغیرہ ظلم نہیں تھا، تو اور کیا تھا……. اور اگر آج تحریکِ انصاف کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرکے سیاست دانوں کے بیڈ روموں کے اندر بغیر کسی وارنٹ کے جاکر ویڈیوز اور تصاویر کھینچی جاتی ہیں، تو یہ بھی ظلم ہی ہے۔
بقولِ شاعر:
وفا کا ذکر کریں گے، جفا کو پرکھیں گے
خموش رہ کے نہ گزرے گی زندگی ہم سے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے