26 نومبر 2023ء
روزنامچہ: کامریڈ امجد علی سحابؔ
جب سے ہوش سنبھالا ہے، تب سے آج تک میرے ساتھ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ نزلہ، زکام اور کھانسی نے طول پکڑ لیا ہے۔ میری نزلہ زکام کی بیماری عموماً ایک ہفتے یا زیادہ سے زیادہ 10 دن کی طوالت اختیار کرتی ہے، مگر اس بار مجھے صحت یاب ہونے میں مجھے ٹھیک 16 دن لگے۔ انہونی یہ ہوئی کہ ٹھیک چار دن بعد ایک بار پھر گلے میں خراش کے ساتھ تکلیف محسوس ہوئی اور اتوار کی شب پوری رات ناک بند ہونے کی وجہ سے وقفے وقفے سے آنکھ کھل جاتی۔ دو تین بار پورا وجود پسینے سے شرابور پایا۔ صبح سویرے غرغرہ کیا اور جیسے ہی اخبار (روزنامہ آزادی) کے ادارتی صفحے کی نوک پلک سنوارنے لگا، تو ڈان اُردو سروس پر دو سٹوریاں نظر سے گزریں۔
پہلی سٹوری کی ہیڈنگ ہے ’’چین میں پُراَسرار قسم کی بیماری کا پھیلاؤ، عالمی ادارۂ صحت کے لیے نئی تشویش۔‘‘ سٹوری کو دو لائنوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے: ’’چین میں رواں سال موسمِ سرما میں پہلی بار کووڈ 19 پابندیوں میں نرمی کے بعد شمالی علاقوں میں نمونیا کی پُراَسرار قسم کے تیزی سے پھیلنے کا انکشاف ہوا ہے، جس کے باعث کئی بچے متاثر ہوئے ہیں۔‘‘
دوسری سٹوری اس کے ایک دن بعد دی گئی ہے، جس کی ہیڈنگ ہے: ’’چین میں نمونیا طرز کی بیماری کوئی غیرمعمولی وبا نہیں ہے، عالمی ادارہ صحت۔‘‘
برسبیلِ تذکرہ، ہمارا چھوٹا سا خاندان چھے افراد پر مشتمل ہے، جس میں میری عمر رسیدہ والدہ، مَیں خود، میری اہلیہ اور تین بیٹے شامل ہیں۔ رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں گھر میں سب سے پہلے نزلہ زکام کی شکایت والدہ کو ہوئی۔ اُس کے بعد اُسی ہفتے میری اہلیہ بیمار پڑگئی۔ ہفتے کے آخری دنوں میں مجھے نزلہ زکام کے ساتھ کھانسی کی شکایت ہوئی۔ دوسرے ہفتے میرے سب سے چھوٹے بیٹے کو کھانسی کی شکایت ہوئی۔ اب مہینا ختم ہونے کو ہے، مگر نہ تو والدہ مکمل طور پر صحت یاب ہیں، نہ اہلیہ، بچے بھی بیمار ہیں اور مجھے دوبارہ نزلہ زکام سمیت گلے کی خراش کی شکایت ہوگئی ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس مہینے کے دوسرے ہفتے سے ہم دمِ دیرینہ فضل خالق (انگریزی اخبار ڈان کے کارسپانڈنٹ) کو نزلہ زکام اور شدید قسم کی کھانسی کی شکایت ہوئی، وہ دو بار ڈاکٹر سے مشورہ لے چکے ہیں، مگر وہ بھی اب تک مکمل طور پر صحت یاب نہیں۔ ہمارے محلے (حاجی بابا سیرئی) میں تین میڈیکل پریٹیکشنر کام کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق محلے کے 70 فی صد لوگوں کو نزلہ، زکام، کھانسی اور گلے کی خراش کی شکایات ہیں۔ عموماً اِن دنوں 20 تا 25 فی صد لوگوں کو موسمِ سرما کی شدت کی بدولت کھانسی کی شکایت ہوتی ہے۔
پچھلی بار جب کوویڈ 19 کی لہر اُٹھی تھی، تو بقولِ فضل خالق اس نے دنیا کی شکل تبدیل کرکے رکھ دی تھی۔ کئی ترقی یافتہ قومیں سنگین معاشی صورتِ حال سے دوچار ہوئی تھیں۔ ایسے میں کوویڈ سے سب سے زیادہ متاثر ملک چین کی اکانومی میں کوئی گراوٹ نہیں آئی تھی، بلکہ اُلٹا اس کی معیشت کا گراف اونچائی کی نئی حدوں کو چھو رہا تھا۔
پتا نہیں اس بار کیا ہونے جا رہا ہے؟ ڈان اُردو سروس کی موخر الذکر سٹوری (’’چین میں نمونیا طرز کی بیماری کوئی غیرمعمولی وبا نہیں ہے، عالمی ادارہ صحت۔‘‘) تسلی بخش تو ہے، مگر
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
کے مصداق کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ دیکھتے ہیں، اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!
دیگر روزنامچے پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/category/%d8%b1%d9%88%d8%b2%d9%86%d8%a7%d9%85%da%86%db%81/
جید صحافی شاہ زیب جیلانی کی ہمارے آفس آمد:۔
چینی کہاوت ہے کہ 100 کتابیں پڑھنے سے بہتر ہے کہ کسی عالم کے ساتھ ایک گھنٹا گفت گو کی جائے۔
آج اتوار کی شام کو پاکستان کے مؤقر نشریاتی ادارے ’’ڈان‘‘ کے سب سے بہترین پروگرام ’’ذرا ہٹ کے‘‘ کے اینکر شاہ زیب جیلانی صاحب کے ساتھ کوئی ڈیڑھ گھنٹے بحث و مباحثے کا سلسلہ چلا۔ علاقائی حالات سے گفت گو شروع ہوئی اور تان ملکی حالات پر جاکر ٹوٹی۔
جیلانی صاحب دھیمے اور نپے تلے انداز میں بولتے گئے اور ہم سنتے گئے۔ ہاں، فضل خالق اور فیاض ظفر صاحب بیچ بیچ میں لقمہ دیتے رہے۔ یہ ہماری پشتون روایات میں سے ہے کہ جہاں بڑے بولتے ہیں، تو چھوٹے خاموشی سے سننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم نے روایت کا پاس رکھتے ہوئے صرف سننے پر اکتفا کیا کہ اور کوئی چارہ بھی تو نہ تھا…… مگر فایدہ یہ ہوا کہ کئی گتھیاں سلجھ گئیں، کئی سوالات کے جوابات بنا پوچھے مل گئے۔ عبد الحمید عدمؔ کے بقول
بعض اوقات کسی اور کے ملنے سے عدمؔ
اپنی ہستی سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے
جیلانی صاحب کے ساتھ گفت گو میں کچھ باتیں ایسی بھی ہوئیں، جن کا ذکر شاید اس وقت موزوں نہیں۔ کیوں کہ انھیں علم نہیں تھا کہ یہ ملاقات حضرتِ سحابؔ کے روزنامچے کا حصہ بنے گی۔ اس لیے وہ کھل کر کئی باتیں کرگئے، جنھیں ہم نوٹ کرچکے ہیں۔
یہ کہانی پھر سہی!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔