آج کل دنیا میں ایک نہایت ہی غم انگیز اور قابلِ افسوس واقعہ فلسطین میں خون خرابا ہے۔ غزہ لہو لہو ہے اور مہذب دنیا تماشا دیکھ رہی ہے۔ اسرائیل کہ جو اَب بین الاقوامی بدمعاش کا روپ دھار چکا ہے، طاقت ور ممالک کی اَشیر باد بلکہ مدد سے فلسطینیوں کی نسل کُشی کر رہا ہے۔ باقی دنیا خاص کر مسلم امہ و عرب ممالک دبکے بیٹھے ہیں۔ ایران کسی حد تک بات کر رہا ہے اور ترکی عین اپنے مفادات میں دونوں طرف ہے۔ باقی مسلم ممالک کے عوام مظاہروں کی حد تک جب کہ حکم ران معمولی مذمت کی حد تک ہیں۔ یہ رویہ انتہائی شرم ناک ہے…… لیکن اس کے ساتھ ہمیں کچھ حقائق کو بھی سمجھنا ہوگا اور اس میں صفِ اول یہ ہے کہ برطانیہ کی سازشیں، یہودی چالاکیاں اپنی جگہ لیکن اسرائیل کا وجود کیا محض برطانوی سازش تھی یا اس میں عربوں خاص کر فلسطینی لوگوں کی بھی غلطی تھی کہ جنھوں نے ’’روتھ چائلڈ‘‘ جیسے سرمایہ داروں کے آگے زمینیں طشتری میں رکھ کر فروخت کیں اور یہودیوں کو آباد کاری کا موقع دیا۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
بہرحال یہ ماضی ہے، لیکن اب جو نئی صورتِ حال بنی اس کی وجوہات کیا تھیں؟ کیوں کہ بظاہر تو یہ مسئلہ روٹین میں تھا کہ ایک دن اچانک حماس کی جانب سے اسرائیل پر میزالوں کی بارش کر دی گئی۔ اس پر بے شک جذباتی مسلمان بہت خوش ہوئے، لیکن یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں کہ جن کے پیشِ نظر حماس نے اچانک یہ قدم اُٹھایا؟ جب یہ بات عام آدمی اور خاص کر مسلمانوں کو بہتر معلوم ہے کہ غزہ سے ویسٹ بنک تک فلسطین کے مظلوم لوگوں پر جتنا بھی ظلم ہو، دنیا یہودی لابی کے آگے بولتی تک نہیں، تو حماس کے ذمے داران کیا اس سے بے خبر تھے؟
آج جذباتی خاص کر مسلمان جذباتی لوگ ہماری اس بات کو پسند نہیں کریں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کبھی القاعدہ بارے ہم بات کرتے تھے کہ یہ ’’امریکی پروڈکٹ‘‘ ہے، لیکن ہمارا ’’جذباتی کیڈر‘‘ بن لادن کو ’’ولی اﷲ‘‘ کے رتبے پر فائز کر رہا تھا۔ آپ نے نائن الیون کیا۔ ایک انتہائی ظالمانہ و احمقانہ حرکت، نتیجہ کیا ہوا…… اس کی آڑ لے کر امریکہ نے پورا افغانستان تباہ کر دیا، پورا عراق تباہ کر دیا، پاکستان کو برباد کر دیا، شرق الوسط کے بڑے ممالک سعودی عرب، کویت، امارات وغیرہ پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرلی، ایران پر دباو بڑھا دیا۔ اب نئے حالات میں جب چین کی مدد سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان خلیج ختم ہو رہی تھی، روس یوکرین تنازعہ کی وجہ سے روس دنیا کے کچھ غیر جانب دار اور چین و شرق بعید کے ساتھ پالیسی بدل رہا تھا اور دنیا میں ایک ایسے بلاک کا وجود میں آنا ممکن ہو رہا تھا کہ جو سامراجی طاقتوں یعنی امریکہ اور اس کے حواریوں کے لیے خطرہ بن سکتا تھا، تو مجھے یقین ہے کہ امریکہ نے غزہ میں ایک نیا نائن الیون برپا کروا دیا۔ اِس آڑ میں اُس نے خود کو اِس نئی پیش رفت میں کودنے کا موقع فراہم کر دیا۔ اب ہو گا کیا…… امریکہ کو یہ معلوم ہے کہ ایران جو براہِ راست حزب ﷲ کا سرپرست ہے، تو کبھی اسرائیل پر سمجھوتا نہیں کرے گا، اور وہ کم سے کم سفارتی و سیاسی سطح پر اسرائیل کی مذمت ضرور کرے گا، بلکہ بین الاقوامی اداروں میں بھی اسرائیل مخالف بیانیہ ہی رکھے گا۔ اس طرح عرب تو انکل سام کی اجازت کے بغیر سانس نہیں لیتے۔ اس کے نتیجے میں عربوں میں موجود کم از کم شیعہ آبادی جیسے لبنان، شام، عراق، بحرین، سعودی عرب، یمن وغیرہ میں ضرور ’’ری ایکشن‘‘ دے گی اور اس کو جواز بنا کر ایک دفعہ پھر عرب خصوصاً سعودیہ، ایران تنازعہ باآسانی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ سو میرا خیال ہے کہ سب کچھ واشنگٹن اور لندن کی منشا کے عین مطابق ہورہا ہے۔ لبنان کی شیعہ تنظیم ’’حزب اﷲ‘‘ جو بلاشبہ تہران کنٹرول وننگ ہے، اس میں داخل ہوچکا…… جب کہ بے شک بیانات کی شکل سہی، لیکن ایران اس پر شدید سفارتی ردِعمل دے رہا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
فلسطین اسرائیل جنگ اور میڈیا کا کردار
اسرائیل اور فلسطین
محمود درویش کا فلسطین
اسرائیل کا مسئلہ اب فلسطین سے آگے کا ہے
حماس اسرائیل جنگ میں ’’ابلاغ‘‘ کا جائزہ
اُدھر یمن کی شیعہ حوثی برادری جو پہلے ہی سے سعودیہ کے خلاف شدید تر ہے اور جس کی وجہ سے سعودیہ نے تحفظِ حرمین کو جواز بناکر 36 ممالک کی فوج اکٹھی کی ہوئی ہے، بھی واضح طور پر حماس کی حمایت میں اُٹھ کھڑی ہے۔
یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں خاص کر شیعہ کمیونٹی کا ہدف اسرائیل سے زیادہ عرب دنیا اور اُن میں سے بھی زیادہ غصہ سعودی عرب پر ہے۔ اس تمام تر پیش رفت کا منطقی نتیجہ شیعہ سنی نفرت ہوگا اور بہت جلد سعودی عرب اور ایران میں کسی حد تک ختم ہونے والا تناو ایک بار پھر بڑھ جائے گا۔ شاید چین کی یہ کوشش ناکام ہو جائے۔
یہاں ممکنہ طور پر ایک اور خطرہ بھی نظر آرہا ہے کہ اس واقعہ کو جواز بنا کر امریکہ تمام الزام ایران پر دھر دے اور پھر ایران کے خلاف باقاعدہ فوجی جارحیت کو مسلط کیا جائے۔ چین تو کسی طرح بھی مغرب سے اپنی تجارت کو داو پر نہیں لگا سکتا، جب کہ روس بذاتِ خود یوکرائن میں پھنسا ہوا ہے یا پھنسا دیا گیا ہے، وہ کیا کر سکتا ہے! اب ایک طرف نیٹو ہوگا کہ جس کو بحرین، کویت بصد احترام اڈے دے دیں گے۔ دوسری طرف پہلے ہی سے بین الاقوامی پابندیوں کا مارا ایران۔ شاید انکل سام ایران کا مکمل نظام ہی تبدیل کر دے اور وہاں شاہ کی طرح کا ایک فرماں بردار نظام ہوجائے کہ اسرائیل کو تسلیم بھی کرلے اور عام مسلمان کی آخری غلط یا صحیح امید بھی ختم کر دے۔
سو یہ ساری جمع تفریق بنتی ہے کہ جس سے عام جذباتی مسلمان نہ آگاہ ہے، نہ اس پہلو پر سوچنا چاہتا ہے۔ کیوں کہ پچھلے چند سو سال سے مغرب نے اسلامی دنیا میں چند مذہب کے بیوپاری پیدا کیے کہ جن کے اپنے بچے تو مغرب کے ہائی فائی تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ یہ لوگ خود دنیاوی عیش کوشی سے ہر سطح پر لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن عام مسلمان کے دماغ میں اُنھوں نے محض ایک چیز کو بٹھا دیا ہے، اور وہ ہے ’’جہاد۔‘‘
اب غریب کا بچہ کبھی انکل سام کے سکرپٹ شدہ افغان جہاد کا ایندھن بنتا ہے اور کبھی چیچنیا اور یوگوسالاویہ کے جہنم کا سامان۔
اگر مسلم امہ میں مناسب تعلیم پر توجہ ہوتی، معیشت درست ہوتی، تو آج اول تو مسئلۂ فلسطین پیدا ہی نہ ہوتا اور اگر بالفرض ایسا ہو بھی جاتا، تو اب مراکش، سراجیو، اسلام آباد، قائرہ، دمشق، بغداد، جکارتہ، استنبول اور کوالالمپور وغیرہ سمیت اس بات پر احتجاج ہوتا کہ حماس نے بغیر سوچے سمجھے کس کے اشارے اور کس کی ترغیب پر یہ کام کیا؟ اور اگر معلوم ہوتا کہ اس کے پیچھے کوئی اسلامی ملک ہے، تو اُس پر دباو ڈالا جاتا کہ اب وہ فلسطین کے بچوں کو بچائے…… لیکن اگر ثابت ہوتا کہ اس کے پیچھے ’’انکل سام‘‘ ہے، تو حماس خود بخود رخصت ہو جاتی اور شاید فلسطین کے مزاحمت کاروں اور صحیح قوم پرست آزادی کے مجاہدوں کی تنظیم ’’انتفادہ‘‘ دوبارہ مقبول ہوجاتی جو بہرحال مغرب اور اسرائیل کے لیے ایک صحیح دردِ سر اور مصیبت تھی۔
یہاں ہم ’’فیس بکی دانش وروں‘‘ اور مذہب کے ٹھیکے داروں سے یہ اپیل ضرور کریں گے کہ آپ کے بچکانہ بائیکاٹ اور کھوکھلے جذباتی نعروں سے یہ مسئلہ بلکہ کوئی بھی مسئلہ حل ہونے سے رہا۔ اگر آپ واقعی امت کی کامیابی اور دردِ دل سے بہتری چاہتے ہیں، تو اول کام یہ کریں کہ تعلیم پر زور دیں۔ اگلے 20 سال تک کو ہدف بنائیں کہ اس میں آپ نے ہزاروں جنگ جو نہیں بلکہ محض چند درجن ایسے نوجوان مرد و خواتین بنانے ہیں کہ جو دنیا کے مانے ہوئے سائنس دان ہوں، جن کے کریڈٹ میں کچھ اہم ترین ایجادات ہوں، جو امریکہ کے مقابل اسلحہ، چین کے مقابل دوسرے آلات اور آسٹریلیا کی طرح زراعت میں امت کو آگے کرسکیں، جو یہودیوں سے بہتر صنعت کار اور معیشت دان بنا سکیں، جو ایمان دار سیاست دان ہوں، تاکہ قومی فیصلے دیانت اور مفادِ عامہ میں ہوں۔ تب آپ کا جذبۂ جہاد، عقل و دانش سے مزین ہوگا اور آپ دنیا سے کچھ منوا سکیں گے۔
یہودیوں کی بنائی فیس بک کے ذریعے یہودی پروڈکٹ سے بائیکاٹ محض ایک کامیڈی شو ہو سکتا ہے، نتیجہ خیز بالکل نہیں!
ہاں، اس پر غور نہ کرکے ہم جیسے حقیقت سمجھانے والے سول سوسائٹی کے عام لوگوں کی عقل و دانش والی باتوں کو مسترد کر کے ان پر غیر مسلم کے فتوی لگا کر اپنے نوجوانوں کو جذباتی بنا کر اپنے ذاتی گھٹیا ایجنڈے کی تشکیل کر کے امت مسلمہ کو مذید مصائب میں جونکنے کا اختیار و آپشن آپ کے پاس ہے اور بیشک میرا خیال ہے آپ یہی کریں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔