ہیلن تھامس نے اسرائیل میں بسے یوروپی یہودیوں کے حوالے سے ایک غیر ارادی انٹرویو میں تنقیدی بیان دیا کہ یہ جو لوگ اسرائیل پر قابض ہیں، ان کو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔ جب پوچھا گیا کہ ان کو کہاں جانا چاہیے؟ تو ہیلن نے جواب دیا کہ انہیں اپنے گھروں میں جانا چاہیے۔ یہ اپنے گھر پولینڈ، جرمنی، فرانس اور دُنیا میں کہیں بھی جاکر بس جائیں۔ اب تو دُنیا میں کہیں بھی ان کے خلاف ظلم و ستم نہیں ہو رہا۔ سب ان کو کھلے دل سے قبول بھی کرتے ہیں۔ پھر 2ہزار سال پُرانی تاریخ کو جواز بنا کر کسی کے ملک پر یوں قابض ہونا کہاں کی انسانیت ہے؟ بین الاقوامی قوانین میں بھی ایسے اقدام کا کوئی جواز نہیں ملتا۔
ہیلن کا مزید کہنا تھا کہ میرے بھی بھائیوں اور رشتہ داروں نے اور اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں اتحادیوں نے جنگ عظیم دوم میں اپنی جانیں دیں۔ ہم نے تو کسی کی زمین پر اپنا حق نہں جتایا اور نہ ہی بنتا ہے۔
’’ہیلن تھامس‘‘ امریکہ کی لیڈی آف دا پریس تھیں۔ مطلب کہ امریکی صحافتی حلقوں میں سب سے زیادہ جانا مانا اور معتبر نام۔ ہیلن کے بہت سے اعزازات میں ایک بہت ہی زیادہ قابل ذکر اعزاز یہ تھا کہ وائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ روم میں اداروں کے لیے کرسیاں مختص ہوتی ہیں لیکن ہیلن تھامس جیسی صحافی کے نام سے ان کی نشست وہاں مقرر تھی اور بریفنگ کے بعد ہیلن سے ہی پہلا سوال پوچھنے کو کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد سوالات کا فلور باقاعدہ کھلتا تھا۔

’ہیلن تھامس‘‘ امریکہ کی لیڈی آف دا پریس تھیں۔ (Photo: New America Media)

امریکی سابق صدر جان کینیڈی سے لے کر اوبامہ کے دوسرے دورِ حکومت تک تمام صدور کے ادوار کو رپورٹ کرنے والی خاتون صحافی ہیلن کے نام سے امریکی جامعات میں اور صحافتی اداروں میں ہیلن تھامس ایوارڈ بھی دیا جاتا رہا ہے لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ ہیلن تھامس کی ساری شہرت اور تمام تر عزت خاک میں مل کررہ گئی۔ ہیلن ایوارڈ ملنا بند ہوگئے۔ خاتون صحافی کو ان کے ہی ادارے جہاں یہ اعزازی طور پر کالم لکھا کرتی تھیں، نے نکال دیا۔ امریکی صحافتی برادری میں ہیلن کو ایک تعصب رکھنے والی خاتون صحافی سمجھا جانے لگا۔ جو لوگ پہلے ہیلن کی بہت عزت کرتے تھے، اب انہوں نے ان سے اظہارِ لاتعلقی کرلیا۔ ہوا یہ تھا کہ ہیلن کی ایک ویڈیو لیک ہوگئی تھی جس میں انہوں نے اسرائیل میں رہنے والے یہودیوں کی اکثریت کے حوالے سے ایک متنازعہ بیان دیا تھا۔ گفتگو کی ساری تفصیل کالم کی تمہید میں بتائی جاچکی ہے ۔
اس واقعہ سے ہمارے لیے اسرائیل کا امریکہ کے اوپر اثر و رسوخ کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ مطلب آپ امریکہ میں رہتے ہوئے امریکی حکومت یا صدر کے خلاف بیان دے دیں، تو چل جائے گا لیکن اسرائیل کے خلاف بیان پر ایسے بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس کی عملی مثال امریکی صحافی ہیلن تھامس جیسی صاف گو خاتون کو معتوب ٹھہرانے کی شکل میں بالکل واضح ہے۔ ہیلن کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ بہت منھ پھٹ تھیں۔ صدر جارج بش جونیئر سے یہ سوال کر بیٹھیں کہ ’’عراق پر حملے کے جتنے بھی جواز گڑ چکے ہیں، وہ سب جھوٹ پر مبنی ہیں اور یہ ثابت بھی ہوچکا ہے۔ اب بتائیں کہ عراق جنگ میں آپ کا مفاد تھا کیا؟‘‘ صدر صاحب کو سوال برا لگا اور اس کے بعد پہلی قطار میں بیٹھی ہیلن تھامس کو کئی عرصے تک نظر انداز کیا جاتا رہا۔ ان کے سوال کو انٹرٹین نہیں کیا جاتا تھا۔ امریکہ میں یہ رویہ اس کی فارن پالیسی کے ساتھ منسلک ہے جس کا جھکاؤ مخصوص ممالک کی طرف بہت زیادہ ہے۔ وہ تو ہے امریکی خیال، اسرائیل کے ہی تاریخ دان ’’ایلان پاپے‘‘ جو کہ آج کل برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، کہتے ہیں کہ اسرائیل کے اندر کے حلقوں میں اس بارے میں بہت سے خیال پائے جاتے ہیں کہ امریکہ میں خواص اور عوام سبھی حلقوں میں اسرائیلی لابی اسٹ موجود ہیں جن کی وجہ سے وہاں کا ہر ایک فرد ہمارے دباؤ کا شکار ہے۔ Anti-Semitic مطلب ’’یہودیت سے انکار‘‘ جیسی اصطلاحات کا استعمال کرکے اسرائیل پر کسی بھی قسم کی تنقید کو روکا جاتا ہے اور امریکہ تو امریکہ، مغرب کی زیادہ تر ریاستوں میں ان کا اس طرح کا کنٹرول غیر منطقی بالکل نہیں ہے بلکہ ایک پلان کے تحت آج دُنیا بھر میں بڑی بڑی کمپنیوں میں ان کے لوگ بیٹھے ہیں جو ان کی غیر منطقی حمایت کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ ہالوکاسٹ کے بعد جرمنی کو ایک نیا جرمنی بننا تھا، توجرمن چانسلر کے لیے صرف معذرت کے الفاظ ادا کرنا کافی نہیں تھا۔ اس پر سفارتی طور پر دباؤ تھا کہ وہ اپنی غلطیوں کا اِزالہ مختلف سمجھوتوں کے تحت کرے گا۔ جرمنی کو یوروپی یہودیوں کو ہر طرح کی مدد کے ساتھ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو ہر طرح کا سفارتی تعاون دینا تھا۔ دوسری جانب یوروپی یہود جو کہ عرب پر اپنا حق سمجھ کر فلسطین پر قابض ہوگئے ہیں، ان کے اثر و رسوخ کی دوسری کڑی دریائے اُردن سے ملاتے ہوئے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ دریائے اُردن پر پانی کے بہاؤ کا 80 فیصد کنٹرول اسرائیل کے ہاتھ میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ عرب کے بیشتر ممالک پانی کی قلت کا شکار ہیں جن میں سرفہرست فلسطین کی سرزمین ہے۔ پانی اور تیل پر کنٹرول دُنیا میں ایسی چیز ہے جس سے امریکہ اور اسرائیل جیسے بدمعاش ممالک دوسرے ممالک کو سفارتی طور پر دباؤ میں لاکر وہاں اپنا کنٹرول بڑھاتے ہیں اور من مانیاں کرتے پھرتے ہیں۔ اس بات کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ ان ممالک پر اپنا دباؤ بڑھانے کی خاطر ان کی ہر طرح کی امداد کرتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ ان ممالک کے بہت ہمدرد ہوتے ہیں بلکہ وہ امداد کسی نہ کسی پلان کے تحت ملک کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کا حصہ ہوتا ہے۔ مسلمان ممالک کی ہر حکمت عملی میں ناکامی انہی وجوہات پر کہیں نہ کہیں آکر ٹھہری ہوئی ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ روم میں اداروں کے لیے کرسیاں مختص ہوتی ہیں لیکن ہیلن تھامس جیسی صحافی کے نام سے ان کی نشست وہاں مقرر تھی اور بریفنگ کے بعد ہیلن سے ہی پہلا سوال پوچھنے کو کہا جاتا تھا۔ (Photo: globalnews.ca)

ہم پھر اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں کہ او آئی سی میں مسلمان ممالک کیوں کر ایک دوسرے کے حق میں کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہوتے ؟ وجہ ایک تو ان کی اپنی منافقت اور دوسرا سفارتی طور پر مغربی غلبہ کا یرغمال بننا ہے۔
اقوام متحدہ کے حالیہ واقعے کو طرح طرح کے رنگ دیئے جا رہے ہیں لیکن اس میں سب سے بڑا عنصر قومی مفاد ہے جس کی بنیاد پر 12 8میں سے 128 ممالک نے اپنے نیشنل انٹرسٹ کے مطابق ہی فیصلہ دیا۔ فلسطین پر زیادتیاں تو کئی دہایوں سے ہوتی چلی آرہی ہیں۔ کسی بھی مسلمان ملک کی غیرت تب کیوں نہیں جاگی؟ ایسا نہیں ہے۔ اُردن نے جب فلسطین پر چڑھائی کا ارادہ کیا، تو اس کی مدد کے لیے پاکستان سے مردِ مومن ضیاء الحق کو بھیجا گیا۔ ضیاء صاحب کی کمان میں ہزاروں فلسطینیوں کا اس وقت خون بہا، وہاں تو دو مسلمان آپس میں لڑ رہے تھے، معاملہ کیا تھا؟ ’’نیشنل انٹرسٹ۔‘‘ یہی نہیں، سعودی عرب نے اسرائیل کو یہ آفر کی تھی کہ وہ ایران پر حملہ کرے، سعودیہ اس پر پیسے کی بارش کردے گا۔ تو سمجھنے کی بات یہاں یہ ہے کہ ہندوستان سمیت برطانیہ، فرانس، چائینہ اور روس نے اگر فلسطین کے حق میں ووٹ کیا ہے، تو وہ فلسطین کے حق میں نہیں بلکہ امریکہ سے کسی ڈو مور، ’’لوو می مور‘‘ یا کسی اوپن رلیشن کی ڈیمانڈ ہوسکتی ہے ۔ اقوام متحدہ میں امریکی ضد اور میں نہ مانوں کے بعد دھمکیوں کا جو سلسلہ تھا، وہ اسی بات کی بہت بڑی شہادت ہے کہ یہ کس طرح ممالک اور عالمی اداروں میں اپنا دباؤ قائم رکھتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ عالمی ادارہ جو کہ برسوں سے امریکی تنخواہ پر چلتا آرہا ہے اور فلسطین کے مسئلے پر توتا چشمی اختیار کر لیتا تھا، مالک نے سب کے سامنے یہ بتا کر کہ ’’تم مجھی سے تنخواہ لیتے ہو اور میرے ہی خلاف بھونکتے ہو!‘‘ جیسا رویہ اپنا کر اس کو کس طرح سے بے عزت کر دیا۔ اتنی دلچسپ صورتحال پہلی بار شائد دیکھنے میں آئی ہو کہ جہاں اقوام متحدہ جیسا ادارہ ابھی بھی اس تذبذب، پریشانی اور بوکلاہٹ کا شکار نظر آرہا ہے کہ یہ ہوا کیا ہے؟ ایک طرف سے مالک جوتے ماررہا ہے اور دوسری طرف کثرت رائے سے فیصلہ بھی اُس کی منشا کے خلاف آیا ہے۔ پاکستان سمیت اس جیسے تمام خوش فہم ممالک کی خوش گمانیاں جہاں دیدنی ہیں، وہیں اسرائیلی لابی اسٹ برادری جو کہ پوری دُنیا میں یکساں اثر و رسوخ کے ساتھ پنجے گاڑے بیٹھی ہوئی ہے، کے لئے یہ صورتحال بہت پریشان کن ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ معاملہ پوری گیم کا ایک اچھا اسٹنٹ ہو، کیوں کہ اسرائیل کا مسئلہ تواب فلسطین سے کہیں آگے کا ہے۔

……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔