اس تحریر کے ساتھ شائع ہونے والی تصویر میں ریاست کی تاریخ کے تین اہم کردار نظر آرہے ہیں۔ بائیں سے شہزادہ میانگل جہان زیب ولی عہد ریاست، درمیان میں کھڑے محمد فقیر خان نائب سالار جب کہ دائیں امیر چمن خان نائب سالار ہیں۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
مذکورہ تینوں شخصیات میں آقا اور نوکر کے علاوہ دوستی، رازداری اور وفاداری کا مضبوط رشتہ بھی تھا، جو وقت کی آزمایشوں پر پورا اترا۔
ان شخصیات پر سب سے بھاری وہ وقت تھا، جب ولی عہد جہانزیب اور ان کے والد حکم ران باچا صاحب کے درمیاں بدخواہوں کی سازشوں سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور جہانزیب کو ریاست بدر ہونا پڑا۔
فقیر خان کو اپنے علاقے میں موثر سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ریاست سے نکل کر امب دربند میں پناہ لینا پڑی…… مگر امیر چمن خان چوں کہ اپنے علاقے کے ایک طاقت ور خاندان کے سربراہ تھے، تو وہ اپنے گاؤں کوکارئی میں قیام پذیر ہوگئے۔
مَیں آج کی تحریر صرف امیر چمن خان تک محدود رکھوں گا۔
گاؤں میں بھی اُن کے مخالفین کو شہ دی گئی تھی کہ اُن کے ساتھ کسی نہ کسی بہانے اُلجھتے رہیں، مگر اُنھوں نے اُن سب کی ٹھکائی کردی اور سب لو دبا کر رکھا۔
مَیں نے ذاتی طور پر اُن کو دو تین دفعہ افسر آباد میں عمراخان نائب سالار صاحب کے ہاں دیکھا تھا۔ ایک قدآور اور شان دار شخصیت کے مالک تھے۔ عمراخان ان کے بھتیجے تھے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ریاستِ سوات کے تعلیمی وظائف  
ریاستِ سوات کے آخری چیف جسٹس 
ریاستِ سوات کے قلعے 
ریاستِ سوات اور سیاحت  
ریاستِ سوات دور کے سڑکیان
امیر چمن خان کے ایک بھائی امیرکمن خان ریاستی فوج میں صوبے دار تھے اور ملازمت کے آخری سالوں میں بَرسوات کے مختلف قلعہ جات میں تعینات رہ چکے تھے ۔ان کے دوبیٹے نادرخان اور امان اللہ خان سے بھی تعلق رہا ہے ۔
اس طرح نائب سالار صاحب کے ایک بیٹے امیر رحمان خان ریاست کے خزانے میں ملازمت کرتے تھے۔
ایک دفعہ 1958ء میں مجھے نادرخان اپنے ساتھ کوکارئی لے گئے۔ شام کے کھانے پر چمن خان نائب سالار صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ وہ میرے والد صاحب کو کئی سالوں سے جانتے تھے ۔ مَیں چوں کہ اُن دنوں کالج میں تازہ تازہ داخل ہوا تھا، تو میں اُن کی شخصیت سے بہت مرعوب ہوا تھا۔ وہ اُس وقت ’’کلین شیوڈ‘‘ تھے اور سرخ وسفید نقش و نگار رکھتے تھے۔
کھانے کے بعد ہم دیر تک گپ لگاتے رہے۔مَیں اُن کے کھلے ڈھلے مزاج سے بہت جلد اس قابل ہوسکا کہ اُن سے بلا جھجھک گفت گو کرسکوں۔
اگلی صبح مجھے نادرخان اپنی زمینوں پر لے گئے۔شمش الرحمان بھی ہمارے ساتھ تھے۔ اُن کے ہاتھ میں ’’چیکوسلواکیہ‘‘ کی بنی ہوئی اعشاریہ 22 کی برونو رائفل تھی، وہ بھی فلی لوڈڈ۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ مذکورہ رائفل کتنی خطرناک ہے اور تین کلومیٹر کے فاصلے تک مہلک وار کرتی ہے۔
وہ شرارت کے طور پر بار بار مجھے نشانہ بناکر رائفل تان لیتے۔ مجھے اُن کی یہ حرکت بری لگی اور مَیں نے اُسی وقت نادرخان سے کہا کہ مجھے واپس لے چلو۔ اُنھوں نے میرا بہت مذاق اُڑایا کہ یہ تو ویسے گپ لگا رہا ہے…… مگر مَیں نے اُن کی بات نہیں مانی اور کہا میں اکیلا ہی واپس جاؤں گا۔ ناچار وہ مجھے ساتھ لے کر واپس سیدو شریف آگئے۔ حالاں کہ ہمارا دو تین دن تک کوکارئی میں قیام کرنے کا پروگرام تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔