آپ نے کبھی غور کیا ہے جب کتے آپس میں لڑتے ہیں، آغاز بھونکنے سے ہی ہوتا ہے۔ بھونکنے سے معاملہ حل نہ ہو، تو پنجہ آزمائی سے بات مار دھاڑ تک پہنچ جاتی ہے۔
بعینہٖ انسانوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ پہلے پہل بات چیت ہوتی ہے، پھر گرما گرمی شروع ہوجاتی ہے۔ پھر دھکے دیے جاتے ہیں، جوتی لات سے بات لاٹھی اور گولی پر جاکر ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد پھر مذاکرات، جرگہ اور منت ترلے سے کام لے کر کچھ ’’تلاقی‘‘ وغیرہ کے عوض صلح کیا جاتا ہے۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
حیوان ہوں یا انسان…… ہر دو کے مابین جنگ میں جو بنیادی عنصر ہے، وہ ’’ابلاغ‘‘ ہے۔ معروف معنوں میں آپ اسے ’’جنگی پراپیگنڈا‘‘ بھی کَہ سکتے ہیں۔ یہ جنگی پراپیگنڈا تین حصوں میں منقسم ہے: یعنی قبل از جنگ، دورانِ جنگ اور بعد از جنگ پراپیگنڈا۔ ان تین قسموں کا مقصد دشمن پر غالب آنا ہے۔ بنیادی طور پر مگر یہ سب ابلاغ ہی کے حصے ہیں۔
جنگیں پرانی ہوں یا حالیہ…… ہر ایک میں ابلاغ کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ پرانی جنگوں کی بات نہیں کرتے کہ اُن پر لاکھوں صفحات سیاہ ہوچکے ہیں، اور ہر ایک کتاب کو پڑھ کے انسان کے ذہن میں ان جنگوں کے بارے میں ایک مخصوص نقشا بن جایا کرتا ہے۔ حق و باطل کا پیمانہ بدل جاتا ہے۔ ہیرو اور ولن کے کردار نمایاں ہوجاتے ہیں۔ ایک کا ولن دوسرے کا ہیرو کہلاتا ہے، مگر حالیہ جنگوں کی تھوڑی سی بات کی جائے، تو ابلاغ کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے، لیکن ساتھ میں ذمے داریاں اُس سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔
آج کا سوال یہ ہے کہ کیا ابلاغ کے ذمے داروں کو اُن ذمے داریوں کا احساس ہے؟ مثلاً: روس یوکرائن جنگ میں جو ابلاغی بیانیہ پیش کیا گیا تھا، اس کا نچوڑ یہی ہے کہ روس غاصب اور ظالم ہے۔ لہٰذا دنیا بھر کی مہذب اقوام کو یوکرائن کا ساتھ دینا چاہیے۔ اسی بیانے کے زیرِ اثر مغربی ممالک نے یوکرائن کو اسلحہ سمیت سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد بھی فراہم کی۔ برخلاف اس کے کہ اب جب غاصب اسرائیل نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے، جنگی اصولوں کو پامال کرکے عبادت خانوں اور شفاخانوں تک پر بمباری کی ہے، تو دنیا کے اکثر حکم ران آنکھ بند کرکے پھر بھی اسرائیل کے مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ عالمی میڈیا نے ابلاغ کی دنیا میں یک طرفہ ہوکر اسرائیلی مظالم کو ’’جسٹفائی‘‘ کرنا شروع کیا ہے۔ یوں ایک جنگ غاصب اسرائیلی فوج اور مظلوم فلسطینی مزاحمت کاروں کے مابین لڑی جاری ہے…… جب کہ دوسری جنگ میڈیا میں لڑی جارہی ہے، جو ابلاغ کی جنگ ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
فلسطین اسرائیل جنگ اور میڈیا کا کردار
اسرائیل اور فلسطین
اسرائیل کا مسئلہ اب فلسطین سے آگے کا ہے
ابلاغ کی یہ جنگ در اصل ابلاغی اداروں کا امتحان بھی ہے۔ مثلاً: مغربی ممالک کے حکم ران اسرائیل کے پشتیبان بنے ہوئے ہیں، تو میڈیا میں ابلاغی ادارے اسرائیلی بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں…… لیکن ان ممالک میں روز بہ روز جو لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل کر فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کررہے ہیں، اُن کا میڈیائی ’’پلے ڈاون‘‘ تو ہورہا ہے، مگر مکمل ’’بلیک آوٹ‘‘ کیا جاسکتاہے؟
اور کیا ابلاغی اداروں کے لیے ممکن ہے کہ ’’اسٹوری کلنگ‘‘ سے کام لیں؟
شاید آج کی دنیا میں یہ ممکن نہیں۔ کیوں کہ ابلاغی دنیا بہت تیزی سے بدل چکی ہے۔ اب ’’مین اسٹریم میڈیا‘‘ کی اجارہ داری ختم اگر نہیں ہوئی، تو انتہائی کم زور ضرور ہوچکی ہے۔ دیکھیں ناں اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرلیا۔ حالیہ لڑائی کو ابھی بہ مشکل مہینا ہونے کو ہے اور درجن بھر صحافی وہاں جان گنوا چکے ہیں…… لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے غزہ سے پل پل کی خبریں باہر آرہی ہیں، جو عالمی میڈیا، غاصب اسرائیل اور دنیا بھر کے حکم رانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔
مزید یہ کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس کشمکش میں ابلاغ کی دنیا میں بھی غاصب اسرائیل کو جو شکستِ فاش دی ہے، اس پر یونیوسٹیوں کے ابلاغیاتی شعبہ جات میں تحقیق ہونی چاہیے۔ کیوں کہ یہ بات ابھی تک زیرِ بحث و زیرِ تحقیق ہے کہ آیا میڈیا وہ کچھ دکھا رہا ہے، جو ناظرین دیکھنا چاہتے ہیں…… یا ناظرین وہ کچھ دیکھنے پر مجبور ہیں جو میڈیا دکھا رہا ہے؟
جنگ کہیں بھی ہو، ابلاغ اس کا اہم جز ہے اور رہے گا……مگر کیا ابلاغیاتی اداروں کا کردار ابلاغی اصولوں کے مطابق ہوتا ہے یا یک طرفہ……؟
اس کا جائزہ بہرحال ابلاغیات سے وابستہ تمام لوگوں کو لینا چاہیے۔ اس کے لیے حالیہ حماس، اسرائیل لڑائی کو بطورِ ٹیسٹ کیس لیا جاسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔