عالمی تنازعات نے دنیا کو ڈھیر سارے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ جنگ، قحط، غربت اور انسانی جانوں کا ضیاع…… یہ سب تنازعات ہی کا نتیجہ ہے۔
لیکن ان تنازعات کا ایک پہلو اور بھی ہے، جسے ہم لوگ اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان میں امریکی جنگ کے دوران میں ایک امریکی سپاہی نے اپنے دوست کو ایک خط لکھا۔ خط میں اس نے لکھا کہ ’’یہاں افغانستان بہت خطرناک ہے، لیکن یہاں کا کھانا بہت مزیدار ہے۔‘‘
قادر خان یوسف زئی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/qadar-khan-yousafzai/
اسی طرح روس، یوکرین جنگ کے دوران میں روسی سپاہی نے اپنے دوست کو ایک خط میں لکھا کہ ’’یہاں یوکرین میں بہت سردی ہے، لیکن یہاں کی لڑکیاں بہت خوب صورت ہیں۔‘‘
قارئین! یہ تو صرف دو مثالیں ہیں، لیکن دنیا بھر میں جنگوں کے دوران میں ایسے بہت سے دلچسپ واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ واقعات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ انسان کتنی عجیب و غریب مخلوق ہیں۔ ہم ایک طرف زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف ہم کھانے، پینے اور خوب صورتی کے پیچھے بھی پڑے ہوتے ہیں۔
یہ واقعات ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ انسان کتنا مضبوط ہے۔ ہم جنگوں اور قحط کے باوجود بھی اپنی زندگی کو جاری رکھنا جانتے ہیں۔ ہم ہنستے اور خوش رہنا چاہتے ہیں، چاہے ہمارے ارد گرد کتنی ہی مصیبتیں کیوں نہ ہوں۔ اقوامِ متحدہ کو ان تنازعات کو حل کرنے اور دنیا میں امن قائم کرنے کا ذمے دار ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، اقوامِ متحدہ کا کردار مایوس کن ہی نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر روس، یوکرین جنگ کے دوران میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے روس پر حملے پر پابندی لگانے کی قرارداد پاس کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، اس قرارداد کو روس نے اپنی ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ اس واقعے کو کچھ لوگوں نے اقوامِ متحدہ کی بے بسی کا ثبوت سمجھا۔
اسی طرح اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ کی کوششیں بھی ناکام رہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن معاہدہ کرنے کی متعدد کوششیں کی ہیں، لیکن یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔ اسے بھی کچھ لوگوں نے اقوامِ متحدہ کی ناکامی سمجھا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کیا اقوامِ متحدہ لیگ آف نیشنز بننے جا رہی ہے؟
اقوامِ متحدہ اور مسلم اُمّہ
چین، تائیوان تنازع کے حل کے لیے بھی اقوام متحدہ کوئی خاص کردار ادا نہیں کرپا رہا۔ اس تنازع کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ کی کوششیں بھی ناکام رہی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بھی اقوام متحدہ کے سرد خانے میں 76 برس سے پڑا ہے اور اس اہم تنازع کی برف بھی نہیں پگھل رہی ۔
اقوامِ متحدہ نے روس، چین، افغانستان اور ایران جیسے ممالک پر سخت پابندیاں بھی عائد کیں، عراق اور افغانستان پر جنگ کے احکامات کی توثیق بھی کی، لیکن جہاں انسانی حقوق کا معاملہ درپیش ہوتا ہے، وہاں سیکرٹری جنرل مذمت کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی کوئی سنتا ہی نہیں۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کا کردار ویسا نہیں، جیسا اس ادارے کی بنیاد رکھتے وقت منشور بنا یا گیا تھا۔ اس کی کئی وجوہ بتائی جاتی ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ ایک بڑا اور پیچیدہ ادارہ ہے، جس میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا میں بہت سے ممالک ہیں، جن کے اپنے اپنے مفادات اور ترجیحات ہیں۔ اُن عوامل کی وجہ سے اقوامِ متحدہ اکثر اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔
تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس بات کو فراموش نہ کریں کہ اقوامِ متحدہ ایک اہم ادارہ ہے، جو دنیا میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی خواہش کے باوجود امریکہ جیسے ملک کی منشا کے برخلاف کام نہیں کرسکتا۔ اب یہ اس کی مالی مجبوری ہے یا پھر اقوامِ متحدہ کا ہیڈ کوارٹر کا وہاں موجود ہونا ہے، فیصلہ آپ کریں۔
ہاں، اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے دنیا بھر میں کئی ایسے تنازعات بھی حل ہوئے ہیں، جو امریکہ اور مغربی قوتوں کی خواہش تھے۔ عالمی دو عظیم جنگوں میں کروڑوں لوگوں کی جانیں تو گئیں، لیکن لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائی بھی گئیں۔ تشدد کے خلاف اقوامِ متحدہ نازک رگ رکھتا ہے، لیکن ایٹم بم گرانے کے باوجود انصاف کا دوہرا معیار بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ لہٰذا، ہمیں اقوامِ متحدہ کی کوششوں کو گہری نظر سے دیکھنا ہوگا۔ ہمیں بلا وجہ کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ اقوامِ متحدہ مستقبل میں بھی دنیا میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
اب اقوامِ متحدہ کے طاقت کے استعارے سلامتی کونسل کو ہی دیکھ لیں، جس کے پانچ مستقل ارکان چین، فرانس، روس، برطانیہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو ’’ویٹو پاور‘‘ حاصل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی بھی قرارداد کو مسترد کرسکتے ہیں۔ اس سے یہ اعتراض اٹھتا ہے کہ سلامتی کونسل دنیا کی آبادی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ نمایندگی کرتی ہے، اور یہ کہ یہ پانچ مستقل ارکان دنیا میں ہونے والے تمام تنازعات کو حل کرنے کے لیے موزوں نہیں۔
اس طرح سلامتی کونسل کو کئی تنازعات کو حل کرنے میں ناکام ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بشمول روس یوکرین جنگ، مقبوضہ کشمیر، اسرائیل فلسطین تنازع اور شام میں خانہ جنگی…… اس سے یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ سلامتی کونسل دنیا میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ دنیا کی موجودہ صورتِ حال کو بہتر طور پر منعکس کرنے کے لیے سلامتی کونسل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سلامتی کونسل ’’ ایک رجعت پسند ادارہ‘‘ ہے، جو دنیا میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے میں ناکام ہے۔ مستقل ارکان کی مدت میں اضافہ اور ویٹو پاور کو محدود کرنے کی تجاویز اب تک کسی اتفاق رائے پر منتج نہیں ہوئیں، جس سے تنازعات میں گھرے کروڑوں افراد کا اقوامِ متحدہ پر سوال اُٹھانا جائز ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔