تبصرہ نگار: نواب ایم ایس
جنوبی امریکہ کا ملک برازیل جوکہ کارنیوال، سامبا رقص، یسوع کی بانہیں کھولے مجسمے، فٹ بال، فٹ بال کے نام ور کھلاڑی پیلے اور اَدبی دنیا کے معروف نام پاؤلو کوئیلہو کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
پاؤلو کوئیلہو (پال کوئیلو) کا نام ادب سے شناسائی رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے اجنبی نہیں…… جس کی صرف ایک کتاب ’’الکیمسٹ‘‘ کی محتاط اندازے کے مطابق 65 ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
قارئین! یہ ساری تمہید اس لیے باندھی کہ مَیں نے آج ہی اُن کی کتاب ’’11منٹ‘‘ کا مطالعہ کیا ہے۔
کتاب کا موضوع کیوں کہ وہ ہے جسے ہمارے ہاں شجرِ ممنوعہ تصور کیا جاتا ہے۔ گو کہ ہمارا معاشرہ سب سے زیادہ اسی کے متعلق سوچتا ہے اور اپنی تمام تر توانائیاں اسی پر صرف کرتا ہے۔ ہمارے ہاں کے ٹی وی ڈرامے، فلموں اور رومانٹک لکھاریوں کی کتابوں کا اختتام بھی اسی پر ہوتا ہے، مگر سماجی دباو ہم سب کو یہ سب در پردہ کرنے کی اجازت تو دیتا ہے، مگر علی الاعلان اس کے اظہار پر سیخ پا ہوجاتا ہے۔
اس موضوعِ ممنوعہ پر لکھنا فحش نگاری اور فحاشی پھیلانے کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمارے ہاں فحاشی کی سب کو فکر رہتی ہے۔ مَیں نے اپنی عمرِ عزیز میں جس کو بھی کہتے سنا ہے، یہی کہتے سنا ہے کہ ’’فحاشی بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘ کبھی فحاشی کے کم ہونے کی خبر میرے کانوں کے پروں تک نہیں پہنچی۔
اس کتاب کے موضوع کو موزوں الفاظ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں…… ’’تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی ناں ٹوٹے!‘‘
یہ کہانی ہے برازیل کے دورافتادہ شہر میں رہنے والی ایک لڑکی ماریا کی، جو کہ اپنی ہم عصر لڑکیوں کی طرح جھیل کے کنارے خوب صورت اپارٹمنٹ، چاہنے والے شوہر اور مالی آسودگی کے خواب دیکھتی ہے…… اَب خواب دیکھنے کی حد تک تو ٹھیک ہے، اور ان کے سہارے زندگی گزاری جا سکتی ہے، مگر ان کی تعبیر تلاش کرنے میں ڈھیر ساری مشکلات اور کٹھن مراحل سامنے آتے ہیں۔
مگر جوانی دیوانی کے اُبلتے ہوئے لاوے کے سامنے بھلا کوئی دلیل ٹھہرسکتا ہے!
ماریا پہلے ری ڈی جنیرو کا سفر کرتی ہے، تو اُسے احساس ہوتا ہے کہ وہ حسن کی دولت سے مالا مال ہے، جسے وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے استعمال کر سکتی ہے، وہیں وہ سوئٹزرلینڈ کے نائٹ کلب کے مالک سے ملتی ہے اور گھڑیوں، گائیوں، پنیر اور بینکوں کے دیس جا پہنچتی، جہاں اسے کا سامنا زندگی کے تلخ ترین تجربات سے ہوتا ہے۔ اُس کی ساری کمائی کلب کا مالک ہڑپ کر جاتا ہے۔ اُس کو اتنے پیسے ہی دیتا ہے کہ وہ سال بھر کی جمع پونجی کے بعد صرف ہوائی جہاز کا ٹکٹ ہی خرید پائے گی۔
اپنے خوابوں کو بکھرتا دیکھ کر وہ مہم جوئی پر اُترتی ہے اور فرانسیسی زبان پر عبور حاصل کر لیتی ہے۔ اس نائٹ کلب کے مالک کے چنگل سے آزاد ہوجاتی ہے، مگر اب بھی اس کے خواب ادھورے رہتے ہیں۔
بالآخر وہ بیسوا بن کر رقم کمانا شروع کر دیتی ہے، تاکہ کچھ پونجی اکٹھی ہو، تو وہ اپنے ملک واپس لوٹ جائے گی…… مگر اسی دوران میں وہ اپنے جسم میں اور صنفِ مخالف کے جسم میں مخفی لذت کے خزانے دریافت کرلیتی ہے اور اُن سے لطف اندوز ہونے کا فن بھی جان لیتی ہے۔
اُس کی ملاقاتیں زندگی سے بے زار لوگوں سے ہوتی ہے، اور وہ اُنھیں اپنے فن سے انتہائے لذت کے تجربات سے روشناس کرواتی ہے۔ یوں اُس کی زندگی ایک طوائف سے انتہائے لذت کے کسی تجربہ کار کھلاڑی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
پھر اُسے وہ سب کچھ مل جاتا ہے، جس کی وہ تمنا کیا کرتی تھی، مگر اپنی محبتوں کی قربانی دینے اور زمانے کی کئی اذیتیں سہنے بعد……!
یہ کتاب پڑھنے لائق ہے۔ کیوں کہ اِس میں اُن جذبات کا برملا اظہار ہے، جنھیں ہم چھپاتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ حالاں کہ وہ انسان کا فطری تقاضہ ہیں ۔
فرائیڈ نے کہا تھا: ’’جن خواہشات کو دبا دیا جائے، تو کسی دوسری بھیانک صورت میں اُبھر کر سامنے آتی ہیں۔‘‘
یہ کتاب فکشن ہاؤس نے شائع کی ہے اور اس کا ترجمہ عدیل احمد نے کیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔