سکولوں میں آشوبِ چشم کی بدولت بچوں کی آنکھوں کی خرابی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حکومتِ پنجاب نے تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیوں کہ لاہور میں آشوبِ چشم کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس وائرل انفیکشن کی وجہ سے روزانہ سیکڑوں مریض سرکاری ہسپتالوں کا رُخ کررہے ہیں، جن میں طلبہ بھی شامل ہیں۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
آشوبِ چشم کا شکار، ایک انتہائی متعدی آنکھ کا انفیکشن، بہت زیادہ آنسو کے ساتھ لالی، سوجن اور دردناک آنکھوں کی شکایت کرتا ہے۔
نگران وزیرِ اعلا پنجاب محسن نقوی نے آنکھوں کی پھیلتی وبا کا فوری نوٹس لیتے ہوئے محکمۂ صحت کے حکام اور ماہرینِ امراضِ چشم کے ساتھ اہم اجلاس میں چار امور پر فوری عمل درآمد کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ لوگوں کو غلط ادویہ کی فراہمی کا سبب بنے والی جعل ساز کمپنیوں اور اُن کے سپلائرز کو سخت تا دیبی سزاؤں کے لیے متعلقہ افسران کو احکامات ببھی دیے ہیں۔ نیز ’’نان سٹرلائیزڈ انجکشن‘‘ کی دست یابی کے ذمے دار ڈرگ انسپکٹر وں کے خلاف بھی فوری کارروائی کی جارہی ہے۔
وزیرِ اعلا کے حکم پر امراضِ چشم کے علاج کے لیے "Avastin” کے استعمال پر کوالٹی رپورٹ آنے تک دو ہفتے تک پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس انجکشن کی وجہ سے متاثرہ اندھے پن کے شکار افراد کا فری علاج کیا جائے گا، اور معاملے کی تحقیقات کے لیے اعلا اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
آشوبِ چشم کی سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی بہترین سہولتیں میسر ہیں۔ آشوبِ چشم کی علامات آنکھیں سرخ، پانی بہنا، سوجن اور چبھن ہیں۔ یہ تب پھیلتا ہے، جب آشوبِ چشم کے مریض سے ملنے والا شخص آنکھوں پر ہاتھ لگاتا ہے۔ اس کی سوزش کی وجہ سے گلابی آنکھ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بیکٹیریل، وائرل یا الرجک ردِ عمل کسی بھی عمر میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں آشوبِ چشم کے 75 فی صد کیسوں کے نتیجے میں 1,2 وائرل آشوبِ چشم کی طبی خصوصیات میں سرخی کے ساتھ ساتھ خون کی نالیوں کا جلنا، آنکھ کے علاقے سے خارج ہونا یا چھدم جھلیوں کی شمولیت کے ساتھ درد اور فوٹو فوبیا شامل ہیں۔
یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک میں وائرل آشوبِ چشم کے نتیجے میں زیادہ لاگت آتی ہے۔ بالغوں کو وائرل آشوبِ چشم کی نسبت زیادہ کثرت سے بیکٹیریل آشوبِ چشم ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں زیادہ تر وائرس جس کے نتیجے میں آشوبِ چشم کی حالت ہوتی ہے، وہ ایڈینو وائرس اور کوویڈ 19 آشوبِ چشم ہیں۔ subepithelial-infiltrates8-10 بیکٹیریل آشوب چشم کی موجودگی ترقی پذیر دنیا میں 4 فی صد کے طور پر ہے۔
بہت سے بچوں اور بڑوں میں غیر صحت بخش طرزِ عمل، ماحولیاتی آمد بیکٹیریل آشوبِ چشم کی بڑی وجہ ہے۔
گنگا رام ہسپتال میں پروٹوکول آفیسر اشفاق بھٹی کا کہنا ہے کہ اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں، تو وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کا خطرہ ہے۔ اس وقت وائرس غیر معمولی شرح سے پھیل رہا ہے۔ انفیکشن نہ صرف براہِ راست رابطے کے ذریعے بلکہ ہوا اور آپس میں گفت گو کے ذریعے بھی پھیلتا ہے۔
یہ وائرس آلودہ سطحوں کو چھونے، متاثرہ افراد سے قریبی رابطے اور یہاں تک کہ بات کرنے کے ذریعے بھی آسانی سے پھیل سکتا ہے۔ اس لیے اپنے آپ کواس بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے کالے چشمے پہنیں۔ ساتھ ہی اپنے بستر اور برتنوں کو فوری طور پر الگ کرلیں۔
مزید منتقلی سے بچنے کے لیے انتہائی احتیاط برتیں۔ اچھی حفظانِ صحت پر عمل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ یہ وائرس مختلف سطحوں پر سات سے 10 دن تک برقرار رہ سکتا ہے، جب کہ بعض اوقات تین یا چار ہفتوں تک بھی اگر کوئی مریض اپنی آنکھ کے بال کو چھوتا ہے اور پھر دوسری سطحوں یا افراد سے رابطہ کرتا ہے، تو اس میں منتقلی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی اپنی ذاتی اشیا کو بھی ذمے داری کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
آشوبِ چشم لاہور سمیت پنجاب بھر میں بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ شدید وائرل آشوبِ چشم کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، لیکن اس کی زیادہ متعدی نوعیت کی وجہ سے ممکنہ کیسوں کے لیے چوکس رہتے ہوئے روک تھام پر توجہ مرکوز کرنا بہت ضروری ہے۔
گلابی آنکھ کا وائرس وائرل اور بیکٹیریل انفیکشن یا الرجی کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ بیکٹیریل آشوبِ چشم، جوکہ بالغوں کی نسبت سکول جانے والے بچوں میں زیادہ عام ہے، دسمبر سے اپریل تک زیادہ پھیلنے کا خدشہ ہے۔
بیکٹیریل آشوبِ چشم کی علامات میں آنکھوں میں لالی، لکیریں، سوجن، خارش یا جلن شامل ہیں۔
بیکٹیریل کیسوں میں آنکھ سے پیپ کا اخراج اور پھاڑنا بھی شامل ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے پلکیں آپس میں چپک جاتی ہیں۔ بعض صورتوں میں، بیکٹیریل آشوبِ چشم کان کے انفیکشن کے ساتھ مل سکتا ہے۔
دوسری طرف، وائرل آشوبِ چشم سردی، فلو یا سانس کے انفیکشن کی علامات کے ساتھ ظاہر ہوسکتا ہے۔ یہ عام طور پر ایک آنکھ سے شروع ہوتا ہے اور چند دنوں میں دوسری آنکھ میں پھیل جاتا ہے۔ اس کے ساتھ الرجی کی دیگر علامات بھی ہو سکتی ہیں۔ بشمولِ ناک، گلے میں خارش، چھینک آنا اور یہاں تک کہ دمہ، وائرل اور بیکٹیریل آشوبِ چشم دونوں انتہائی متعدی اور آسانی سے پھیلنے والے ہیں۔
اچھی حفظانِ صحت انفیکشن اور اس کے پھیلاؤ کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کرسکتی ہے۔ اس لیے شہری اپنے ہاتھوں کو صابن اور گرم پانی سے کم از کم 20 سیکنڈ تک اچھی طرح دھوئیں اور ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال کریں۔ متاثرہ افراد کو آئی ڈراپس لگانے کے فوراً بعد ہاتھ دھونا بہت ضروری ہے۔
مریض کو صحت یاب ہونے میں ایک سے دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ آشوبِ چشم کارنیا پر نشان چھوڑتا ہے جس کے ٹھیک ہونے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ یہ جراثیم بہت گرم اور بہت سرد موسم میں زندہ نہیں رہ سکتے اور انتہائی مرطوب حالات میں پروان چڑھتے ہیں۔
ماہرینِ امراضِ چشم نے آنکھوں کی انتہائی متعدی بیماری کے پھیلاو کو موسمی حالات سے جوڑ دیا ہے، جس سے ایسا لگتا ہے کہ ہوا کے معیار، ہاتھوں کی ناقص صفائی، ہجوم، ہاؤسنگ سسٹم اور گنجان آباد شہر میں گندے حالات ہیں۔
انتہائی متعدی بیماری نے نوجوان بالغوں اور بچوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ شاید اس کی وجہ آپس کے سماجی تعلقات ہیں۔نیز ہاتھوں کی صفائی بہتر انداز میں نہ کرپانا بھی بڑی وجہ ہے۔ اس مرض کو کنٹرول کرنے میں پنجاب حکومت بھی سکولوں کو چھٹیاں دینے پر غور کررہی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔