تبصرہ: کنول اقبال
جب برصغیر کی بات آتی ہے، تو یہ سوچ کر دل کو تسلی نہیں دی جا سکتی کہ یہ محض کہانی ہے۔ فرضی کرداروں کے ساتھ قاری کے تخیل کی دنیا وسیع ہوتی ہے، وہ جیسا چاہے سوچتا رہے، لیکن ایسے کردار جو کبھی موجود تھے، اُنھیں پڑھتے وقت دل ہچکولے کھاتا رہتا ہے، جھوٹ سچ اور کم زیادہ کے درمیان الجھا رہتا ہے۔ ’’دِلی‘‘ کہانی ہوکر بھی کہانی نہیں۔ دل کو کہاں تک سمجھایا جائے کہ ایسا نہیں ہوا ہوگا۔
اپنے تخیل کی بساط پر ہی سہی لیکن خوش ونت سنگھ نے اس ناول کو جتنے زاویوں سے دیکھا ہے وہ حیران کن ہے؛ عام آدمی، حکم ران، حملہ آور، ولی، شاعر، ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، ہر کردار اپنی کہانی خود بتاتا ہے اور خوش ونت کا انداز ایسی معنی خیز پُراَسراریت سے بھرا ہے کہ معلوم نہیں پڑتا یہ کسی کی حمایت کر رہا ہے، یا قلم کی تیز دھار سے اُس کی دھجیاں اُڑا رہاہے! خوش ونت صحیح اور غلط کی نشان دہی نہیں کرتا، نہ اچھے برے کی اور نہ کسی عقیدے کی…… اس کے لیے دِلی کا باسی ہونا ہی کافی ہے۔
دِلی محض زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ ہندوستان کا دل ہے اور اس خطے میں بسنے والے ہر آدمی کے دل کا استعارہ ہے، جو لٹائے نہیں لٹتا اور بسائے نہیں بستا۔
خوش ونت کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ خواہ آپ کسی بھی عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں، خواہ آپ کسی کے بھی طرف دار ہوں، وہ آپ کے غضب کو ضرور للکارے گا اور آپ کے جذبات مجروح کر کے رہے گا۔
اس کہانی میں کہیں آپ خوش بھی ہوں گے، لیکن زیادہ اُداس رہیں گے کہ ہمارا خمیر زمین کے اسی گوشے سے تو اُٹھا ہے، جہاں تباہ حالیوں پہ لوگ صرف اس لیے خوش ہوتے رہے کہ اب لٹنے کو کچھ نہیں رہا۔
ماضی اور حال کے درمیان بھاگ متی ایک ربط ہے، جو ہر دور سے پہلے ایک پیش خیمے کے طور پہ آتا ہے۔ ہر بار ایک ہی طرح کے اتفاقات سے کہانی گھمائی جاتی ہے اور اگلے باب میں رونما ہونے والے واقعات کے لیے اسباب مہیا کیے جاتے ہیں۔ شروع کے ابواب میں یہ ربط فطری محسوس ہوتا ہے، لیکن بار بار دہرائے جانے والے اتفاقات سے بھونڈ پن پیدا ہونے لگتا ہے اور آخر آتے آتے بھاگ متی کے ابواب اضافی محسوس ہونے لگتے ہیں۔
بھاگ متی کے ابواب راوی کی زندگی میں آنے والی عورتوں کی معرکہ آرائیوں سے پُر ہیں۔ یہاں وہ یوں ظاہر کرتا ہے جیسے وہ تخت پہ براجمان ہے اور ہر رنگ و نسل کی عورت اس کے سامنے محوِ رقص ہے۔ کہانی آگے بڑھتی ہے، تو پتا چلتا ہے کہ دِلی کی طرح راوی کے دل کے دروازے بھی کسی کو روک نہیں سکتے، جسے جو مطلوب ہے، وہ حاصل کرتا ہے اور شہر کو شہر آشوب بنا کے چل پڑتا ہے۔
راوی ہر عورت کے رخصت ہونے پہ تاویلیں گھڑتا ہے۔ پر کوئی تاویل ایسی نہیں جو اس کی برتری ثابت کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اپنی مرضی سے آتی ہے اور رخصت ہونے کی معقول وجہ بتائے بغیر چلی جاتی ہے۔
ناول پڑھنے کے دوران میں ایک سوال میرے ذہن میں بار بار آتا رہا کہ کیا واقعی دِلی اور بھاگ متی کے درمیان ربطِ تضاد پیدا کرکے اُنھیں مماثل قرار دینا قاری کے ذہن کو الجھانے کی شعوری کاوش تھی……؟ یا مصنف واقعی اس ربط کو اسی سادگی سے دیکھتا ہے کہ ان کا تضاد اسے محسوس ہی نہیں ہوتا؟ بھاگ متی جو ایک پیشہ ور ہیجڑا ہے،بظاہر جس کے ہونے یا نہ ہونے سے راوی کو فرق نہیں پڑتا، آہستہ آہستہ وہ حاوی ہونے لگتی ہے اور خادمہ سے حاکم بن جاتی ہے۔ آخری وقت میں راوی اپنی جان بچانے کے لیے بھی بھاگ متی کا مرہونِ منت ہے۔ اس سے تو مجھے کمپنی کی یاد آتی ہے بس۔
ناول پڑھ کے مجھے لگا دِلی بھاگ متی نہیں،خود راوی ہے جو دِلی کے باسیوں کی طرح خود فریبی کا شکار بھی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔