سوات، سیاسی جماعتوں کی انتخابات کے لیے تیاریاں شروع

9 مئی کے واقعات کے بعد ڈھیر سارے لوگ تحریکِ انصاف کو چھوڑ کر جانے لگے، لیکن اِس بات کی اُمید کسی کو بھی نہیں تھی کہ سابق وزیرِ اعلا محمود خان بھی ’’خان‘‘ سے راہیں جدا کرلیں گے۔
فیاض ظفر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz-zafar/
محمود خان کا تعلق سوات کی تحصیل مٹہ سے ہے۔ اُنھوں نے سیاست کا آغاز یونین کونسل سے کیا تھا۔ اُس وقت وہ پیپلز پارٹی میں تھے اور بلدیاتی انتخابات میں وہ اپنے یونین کونسل سے ناظم منتخب ہوئے تھے۔ پھر اُنھوں نے 2012ء میں پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہوئے۔ وزیرِ اعلا پرویز خٹک کی حکومت میں اُن کو صوبائی وزیر بنایا گیا۔ اس دوران میں محمود خان اور وزیرِ اعلا پرویز خٹک کی دوستی ہوگئی اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں مزید پختگی آتی گئی۔
2018ء کے انتخابات میں محمود خان دوبارہ اپنے حلقے سے ایم پی اے منتخب ہوگئے۔ صوبے میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد پرویز خٹک کا خیال تھا کہ اُن کو دوبارہ وزیرِ اعلا بنایا جائے گا، لیکن عمران خان اور اعظم خان نہیں چاہتے تھے کہ پرویز خٹک دوبارہ وزیرِ اعلا بن جائیں۔ عمران خان، عاطف خان کو وزیر اعلا بنانا چاہتے تھے۔ اُنھوں نے پرویز خٹک کو وفاق میں وزارت لینے کا کہا، لیکن پرویز خٹک نے عاطف خان کو وزیرِ اعلا بنانے کی شدید مخالفت کی اور پھر اچانک پرویز خٹک کے کہنے پر محمود خان کو وزیرِ اعلا بنایا گیا۔
9 مئی کے واقعات کے بعد سے محمود خان غائب تھے اور اُن کا فون بھی بند تھا۔ اطلاعات کے مطابق محمود خان اسلام آباد اور پشاور میں اہم شخصیات اور پرویز خٹک کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ہمارے ذرائع یہی کَہ رہے تھے کہ محمود خان، تحریکِ انصاف چھوڑنے والے ہیں اور جب پشاور کے قریب ایک علاقہ کے شادی ہال میں پرویز خٹک نے اپنی نئی سیاسی جماعت کا اعلان کیا، تو محمود خان اور سابق صوبائی وزیر محب اللہ خان اس تقریب میں خوش گوار موڈ میں موجود تھے۔ یوں اُنھوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا۔
پرویز خٹک اور محمود خان کی دونوں حکومتوں میں محمود خان اور محب اللہ خان قریبی دوست رہے۔ اس لیے محب اللہ خان بھی تحریکِ انصاف چھوڑ کر ’’پارلیمنٹرین‘‘ میں شامل ہوگئے۔ سوات سے تعلق رکھنے والے باقی سابق اراکینِ اسمبلی کے ساتھ بھی اہم شخصیات کا رابطہ جاری ہے اور امکان ہے کہ باقی سابق اراکین اسمبلی بھی جلد پرویز خٹک کے گروپ میں شامل ہوجائیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف ملاکنڈ ڈویژن کے صدر اور سابق ایم پی اے فضل حکیم خان یوسف زئی، جن پر اربوں روپے کرپشن کے الزامات ہیں، پہلے پرویز خٹک کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوئے تھے، لیکن بعد میں اُنھوں نے اپنے سالے (سٹی مئیر شاہد علی خان) سمیت فیصلہ بدل دیا۔ یوں اُنھوں نے پارٹی نہ چھوڑنے کا اعلان کیا، جس کے بعد تھانہ سیدو شریف اور تھانہ مینگورہ میں ان کے خلاف درج مقدمات میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے اُن کی ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ ہوگئی۔ اب (تادمِ تحریر) بہنوئی اور سالہ دونوں جیل میں ہیں۔
سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر امجد علی بھی چکدرہ انٹر چینج جلانے کے مقدمے میں ضمانت پر ہیں۔ اُن کی ضمانت کسی بھی وقت منسوخ ہوسکتی ہے۔
سابق ایم پی اے عزیز اللہ گران کینڈا چلے گئے ہیں اور حالات کو وہاں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ کچھ فیصلہ کرنے کے بعد ہی وطن واپس لوٹیں گے۔
تحریکِ انصاف کے سابق رکن قومی و صوبائی اسمبلی ڈاکٹر حیدر علی نے 9 مئی کے واقعات سے پہلے تحریکِ انصاف کو خیر باد کَہ دیا تھا۔ بعد میں وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔
دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی سوات اس وقت بحران میں ہے۔ پہلے تو سابق صوبائی وزیر واجد علی خان نے اپنے ساتھیوں اور کارکنوں سمیت اے این پی سے استعفا دیا، جس کے بعد گذشتہ روز اے این پی کے سابق ایم این اے مظفر الملک خان نے بھی ساتھیوں سمیت اے این پی سے استعفا دے دیا اور پارٹی کے ساتھ 60 سالہ رفاقت ختم کی۔
باوثوق ذرائع کے مطابق واجد علی خان اور مظفر الملک خان عن قریب مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کریں گے۔ آیندہ انتخابات میں واجد علی خان کو مسلم لیگ این اے 3 کا ٹکٹ دے گی۔
حاجی غلام علی کے گورنر بننے کے بعد جے یو آئی کے مقامی عہدے داروں کو بھی سوات سے کچھ نشستوں پر کامیابی کی امید ہے۔ سرکاری دفاتر میں گورنر کی وجہ سے اُنھوں نے اثر و رسوخ کا استعمال کرنا شروع کیا ہے۔
اس طرح جماعتِ اسلامی کی جانب سے بھی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اُن کی نظر پی کے 6 مینگورہ شہر پر ہے، جہاں سے اُنھوں نے اپنے سابق ایم پی اے محمد امین کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ شہر میں اس وقت محمد امین سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
پیپلز پارٹی این اے 2 جہاں پر اُن کے امیدوار ڈاکٹر امجد علی خان، این اے 3 جہاں پر شہزادہ میاں گل شہر یار امیر زیب، پی کے 3 جہاں پر حکیم شاہ اور پی کے 4 جہاں پر ڈاکٹر حیدر علی ان کے ممکنہ امیدوار ہیں، سب ان چاروں سیٹوں پر جیتنے کے خواہش مند ہیں۔
اے این پی کے ضلعی صدر ایوب خان اشاڑے کو این اے 2، سابق ایم پی اے شیر شاہ خان کو پی کے 5، عاصم خان کو پی کے 6 مینگورہ، افتخار خان کو پی کے 7 اور سابق ایم پی اے رحمت علی خان کو پی کے 8 کا ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اے این پی مذکورہ سیٹوں پر کامیابی کے لیے پُرامید نظر آرہی ہے۔
تحریک انصاف بدترین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اگست میں واضح ہو جائے گا کہ مزید کتنے سابق اراکینِ اسمبلی تحریک انصاف چھوڑ کر پرویز خٹک اور محمود خان کی پارٹی میں شامل ہوں گے۔
موجودہ حالات کے پیشِ نظر سوات میں آیندہ انتخابات میں نتائج پچھلے انتخابات کے برعکس ہونے کا امکان ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے