ریاستِ سوات کے دور میں تعمیر ہونے والے اکثر سکول دہشت گردی کے دوران میں اڑادیے گئے۔ بچ جانے والے ہائی سکولوں میں بریکوٹ کا سکول بھی شامل ہے، جیسا کہ اس کے بورڈ سے ظاہر ہے۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
یہ سکول 1965ء میں مکمل ہوا تھا۔ اس کے تعمیر کے دوران میں، مَیں چکیسر میں ڈیوٹی پر تھا۔ اس سکول کے بارے میں صرف اس قدر جانتا تھا کہ اس کے دو کنٹریکٹر تھے۔ مین بلاک کا ٹھیکا غالیگی کے محمد ایوب خان کے پاس تھا اور بیرونی "Wings” جو 4 کلاس رومز پر مشتمل تھے، شیرداد نامی شخص اس کا ٹھیکیدار تھا، جو سیدو شریف کا رہنے والاتھا۔ اسے مکمل ہوئے ایک آدھ ہفتہ ہی گزرا تھا کہ میں چکیسر میں دو ہفتے گزار کر واپس آیا تھا اور کچھ دنوں کے لیے چھٹی پر تھا۔
چھٹی سے واپس دفتر آیا، تو ہمارے محکمۂ تعمیرات کے سربراہ والیِ سوات کے دفتر سے ہوکر واپس آئے۔ مجھے بلا کر کہا کہ والی صاحب نے حکم دیا ہے کہ آج کے بعد تم چکیسر نہیں جاؤگے۔ مَیں بہت خوش ہوا، مگر ساتھ اداس بھی…… کیوں کہ چکیسر کے لوگوں سے مجھے بہت پیار ملا تھا۔
چند سیکنڈ بعد حاجی صاحب کے دوسرے آرڈر نے سارا مزا کرکرا کردیا کہ والی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ تم مانیار سے لنڈاکی تک سرکاری تعمیرات کی نگرانی کروگے…… اور یہ بھی کہ آج ہی وہ نئے تعمیر شدہ سکول بریکوٹ کا معائنہ کریں گے جس کے بعد اُس میں پڑھائی شروع کی جائے گی۔
مَیں نے کچھ خدشات کا اظہار کیا، تو حاجی صاحب بولے، ’’تم فکر نہ کرنا، مَیں والی صاحب کے ساتھ آؤں گا۔ جو بھی ہوا دونوں بھگتیں گے۔‘‘
مختصر یہ کہ شام کو والی صاحب معائنے کے لیے آئے۔ ایوب خان ٹھیکیدار بھی موجود تھے، مگر شیرداد نہیں آیا تھا۔ والی صاحب نے چیکنگ شروع کی۔ ہیڈ ماسٹر آفس کے ساتھ بنے غسل خانے میں گھس گئے۔ روشن دان کی رسی کے لیے فکس کردہ بلاک کو ہاتھ لگاکر کھینچا، تو وہ ان کے ہاتھ میں آگیا۔ مجھے دیکھ کر بولے، ’’یہ کیا ہے؟‘‘ مَیں نے سچ کہنے میں عافیت جانی۔ عرض کیا، ’’مجھے کچھ پتا نہیں۔ مَیں تو ابھی ابھی چکیسر میں ڈیوٹی سے واپس آیا ہوں۔‘‘ والی صاحب نے بلاک قریب کھڑے محمد ایوب کی طرف پھینکا۔ اُن کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ ہمارے جو سربراہ تھے محکمہ کے، وہ بھی بات کرنے سے قاصر تھے۔ والی صاحب نے مجھ سے پوچھا، ’’کیا اس کی فائنل ادائی ہوگئی ہے؟‘‘ مَیں نے اثبات میں سر ہلایا۔کیوں کہ مَیں ساری معلومات دفتری ریکارڈ سے نوٹ کر چکا تھا۔ والی صاحب نے مجھ سے کہا، ’’اس ٹھیکیدار سے پانچ سو روپیہ جرمانہ لے کر خزانے میں جمع کرادو……اور کل سے سکول میں کلاسز شروع کروادو۔‘‘
پھر وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔ ہمارے محکمے کی پک اَپ آپہنچی، تو ہم بھی واپس سیدو شریف روانہ ہوگئے۔
سوشل میڈیا پر بورڈ کی تبدیلی سے جو ناگوار تاثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں، تو مجھے والیِ سوات کا معائنہ یاد آگیااور اس سکول سے اپنی جذباتی وابستگی بھی……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔