پاکستان کو چاروں طرف مسائل اور مشکلات نے گھیر رکھا ہے۔ دیگر مسائل ایک طرف، مگر غربت کا اژدھا انسانوں کو بری طرف لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔
ایک طرف ہمارے حکم ران کشکول اٹھائے آئی ایم ایف سے قرضے کی بھیک مانگ رہے ہیں، تو دوسری طرف حکم ران اتحاد میں شامل غربت ختم کرنے کے دعوے داروں کے درمیان غیر ملکی دوروں کا سخت مقابلہ جاری ہے۔ موجودہ حکومت کے پہلے 9 ماہ کے دوران میں 22 وزیروں نے 93 غیر ملکی دورے کر ڈالے۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
27 اپریل 2022ء کو پہلی بار 37 ویں وزیرِ خارجہ کا حلف اُٹھانے والے بلاول بھٹو 18 دوروں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہے، جب کہ باقی عوامی خادم وزرا نے بھی عوام کی بے مثال خدمت کی روایت قائم رکھتے ہوئے بیرونی دوروں پر ساڑھے 8 کروڑ روپے سے زائد خرچ کردیے۔
ویسے تو اس حکومت کو آئے ہوئے ایک سال سے اوپر ہوگیا ہے، لیکن ابھی تک حساب کتاب صرف پہلے 9 ماہ کا ہی سامنے آیا ہے۔ پہلے 9 ماہ میں وزرا اور کابینہ ارکان نے 93 غیرملکی دورے کیے۔ وزیرِخارجہ نے 3،3 بار امریکہ اور متحدہ عرب امارات کی یاترا سمیت 18 غیرملکی دورے کیے۔
عوام کے ان خادموں کی یہ آنیاں جانیاں قومی خزانے کو کتنے میں پڑیں……؟ اس کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہ آسکیں۔ ان غیر ملکی دوروں میں فی الحال پیپلز پارٹی پہلے نمبر پر ہے۔ دوسرے نمبر پر بھی پیپلز پارٹی ہی ہے۔ وزیرِ مملکت حنا ربانی کھر 11 غیرملکی دوروں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہیں، جنھوں نے امریکہ، یو اے ای، چین، سعودی عرب، فرانس اور قطر کے دوروں پر ایک کروڑ 26 لاکھ سے زائد خرچ کیے۔
تیسرے نمبرکے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ رہا۔ بیرونِ ملک کے ان دوروں میں وزیرِ تجارت نوید قمر اور وزیرِ پٹرولیم مصدق ملک 7، 7دوروں کے ساتھ برابر رہے، لیکن اخراجات کی مد میں نوید قمر مصدق ملک پر بازی لے گئے۔ اس لیے تیسرا نمبر بھی پیپلز پارٹی کو ہی دیا جاتا ہے۔ مصدق ملک کے 7 دوروں پر 82 لاکھ 87 ہزار کے اخراجات آئے جب کہ نوید قمر کے 7 دورے خزانے کو 98 لاکھ 24 ہزار میں پڑے۔
وزیرِصحت قادر پٹیل کے امریکہ اور سوئٹزر لینڈ کے صرف دو دوروں پر ہی 7 7 لاکھ 56 ہزار کے اخراجات آئے۔
وفاقی وزیرِ دفاعی پیداوار اسرار ترین نے 5 غیر ملکی دوروں پر 77 لاکھ 56 ہزار خرچ کیے۔
اس طرح شازیہ مری نے 4، فیصل کریم کنڈی نے 2، ساجد طوری نے 3 اور ایاز صادق نے 2دورے کیے۔ ان کے دیکھا دیکجی عائشہ غوث پاشا اور احسان مزاری نے 4 جب کہ وزیرِ مذہبی امور نے 5 ممالک کے دورے کیے۔ وزرا کے دوروں پر مجموعی طور پر ساڑھے 8 کروڑ خرچ آیا جب کہ وزیرِ خارجہ کے دوروں کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
قارئین! مجموعی طور پر دیکھا جائے، تو پیپلز پارٹی بیرونی دوروں میں سب سے آگے رہی اور وزیرِ خارجہ نے تو اپنے قریب بھی کسی کو پھٹکنے نہیں دیا۔ اب تک تو سب سے زیادہ غیر ملکی دورے کرنے والا پاکستانی وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری ہی قرار پایا ہے۔ یہ اس کا حق بھی تو بنتا ہے کہ وہ پہلی بار وزیر بنا ہے اور سرکاری پروٹوکول کے بھی مزے لینے ہیں۔
باہر کی قوموں کا پاکستان کی قوم سے مقابلہ کرکے دیکھنا ہے کہ ہم کتنے باشعور ہیں اور باہر والے کتنی عقل کے مالک ہیں؟ غریب ملک کا وزیرِ خارجہ جب باہر کسی دوسرے ملک جاتا ہے، تو اُسے یہ دیکھ کر حیرانی ضرور ہوتی ہوگی کہ اُدھار پر ملک چلانے والے کس طرح عیاشیاں کرتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کیسے اپنا حساب کتاب رکھتے ہیں!
وزیرِ خارجہ اصل میں ہوتا کیا ہے اور اس کی ذمے کام کیا ہیں؟ پہلے یہ دیکھتے ہیں، پھر سوچیں گے کہ آیا ہمارا وزیرِ خارجہ اس پر پورا اترتا ہے یا پھر اگلا وزیرِ اعظم بننے کے لیے بیرونی دورے فرما رہا ہے؟
وزیرِ خارجہ، حکومتِ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کا سربراہ ہوتا ہے۔ وہ وفاقی حکومت کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کی نگرانی کا ذمے دار ہے۔ اس کی ذمے داری بین الاقوامی برادری میں پاکستان اور اس کی حکومت کی نمایندگی کرنا ہے۔ اس کے پاس پاکستان کی کابینہ میں سب سے اعلا ترین عہدہ ہے۔ یہ عہدہ سب سے پہلے لیاقت علی خان کے پاس تھا، جنھوں نے ملک کے پہلے وزیرِ اعظم کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے وزرا پاکستان کے لیے کام کرتے، جس سے غربت میں کمی آتی، لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ لوگوں کے پاس روٹی کھانے کے پیسے نہیں…… اور غربت گردن تک پہنچ چکی ہے۔
عالمی بینک کی طرف سے پاکستان میں غربت 39.3 فی صد ریکارڈ کی گئی ہے، جس میں نچلی درمیانی آمدنی والے غربت کی شرح 3.2 امریکی ڈالر یومیہ ہے، جو مڈل کلاس سے تھوڑا سا اوپر ہے اور ان سے اوپر والے 78.4 فی صد وہ لوگ بھی غربت کی شرح 5.5 امریکی ڈالر یومیہ کما رہے ہیں، جب کہ حکومتی سطح پر جو ستمبر 2021ء میں بتایاگیا تھا کہ ملک کی کل آبادی کا 22 فی صد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے، جو تقریباً 3ہزار روپے ماہانہ کماپاتے ہیں، جب کہ اس سے پچھلے اعداد و شمار بھی کوئی حوصلہ افزا نہیں۔ آزاد اداروں نے-8 2007ء کے مالی سال کے اعدادوشمار میں کل آبادی کا 17.2 فی صد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں ناقص وفاقی پالیسیوں اور بے تحاشا بدعنوانی کی وجہ سے لوگوں کی غربت میں بے تحاشا اضافہ ہوا جب کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں منسٹری آف پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی طرف سے پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 24.3 فی صد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے، جن کی تعداد 55 ملین بنتی ہے 2022ء تک۔
اس کے علاوہ پاکستان کا انسانی ترقی کا اشاریہ (HDI) 0.544 ہے جو 192 ممالک میں سے 161ویں نمبر پر ہے۔ یمن اور افغانستان کے بعد پاکستان کی ایچ ڈی آئی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ یہاں جو غریب لوگ ہیں، وہ پیٹ بھر کر روٹی کھاتے ہیں نہ سکون کی نیند سوتے ہیں اور نہ کبھی نئے کپڑے اور جوتے ہی خرید پاتے ہیں۔
غریب عوام کے نام پر غریبوں کو ہی غربت کے حوالے کرنے والے کتنے سکون سے بیرونی دوروں میں مگن ہو جاتے ہیں اور غریب بے چارہ خود کشی پر مجبور ہو رہا ہے۔ شاید حکم رانوں کو اندازہ نہیں۔ وہ غربت کے ماروں کو غلام بنانے کی بجائے ’’غربت بم‘‘ تیار کررہے ہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور پھر بچے گا کوئی نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔